پاکستان اور سیاسی جماعتیں

یاسر رفیق  منگل 25 مارچ 2014
اکستان میں اس وقت سینکڑوں چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں ہر سیاسی جماعت کا اپنا ایجنڈا اور نظریہ ہے. فوٹو: ایکسپریس ٹریبیون

اکستان میں اس وقت سینکڑوں چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں ہر سیاسی جماعت کا اپنا ایجنڈا اور نظریہ ہے. فوٹو: ایکسپریس ٹریبیون

کیا یہ ملک سیاسی جماعتوں کا ہے کسی جاگیردار یا وڈیرے کا ہے یا اس ملک میں رہنے والے 18کروڑ عوام کا ہے۔ اگر یہ ملک عوام کا ہے تو اس ملک میں ہونے والے فیصلے عوامی اور عدل و انصاف پر مبنی ہونے چاہیے لیکن درحقیقت پاکستان میں جاگیر دارانہ اور سیاسی نظام قائم ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی صورتحال بلندی کی بجائے دن بدن پستی کی طرف جا رہی ہے۔

پاکستان میں اس وقت سینکڑوں چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں ہر سیاسی جماعت کا اپنا ایجنڈا اور نظریہ ہے جبکہ بہت سی سیاسی جماعتوں کے نمائندے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی جماعتوں کی نمائندگی بھی کر رہے ہیں جو سیاسی جماعتیں اس وقت پاکستان میں حکومتیں کر رہی ہیں ان میںتین بڑی سیاسی جماعتیں سرفہرست ہیں، پہلی پاکستان مسلم لیگ (ن) جو وفاق میں اور صوبہ پنجاب میں حکومت کر رہی ہے، دوسری پاکستان پیپلز پارٹی صوبہ سندھ میں حکومت کر رہی ہے جبکہ تیسری جماعت پاکستان تحریک انصاف اس وقت خیبر پختونخواہ میں حکومت کر رہی ہے ۔

بات سندھ سے شروع کرتے ہیں، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت موجود ہے اس پارٹی کی قیادت ایک نوجوان بلاول بھٹو زرداری کر رہا ہے ۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بلاول کا پورا خاندان سیاسست سے وابستہ ہے۔ اور اس سیاسی جماعت کا یہ نعرہ زبان زدعام ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان۔ لیکن روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں نے جو کچھ تھر کے صحرائی لوگوں کے ساتھ کیا اس کی گواہی صرف تھر کا صحرا نہیں بلکہ پورا پاکستان دے رہا ہے، ایک طرف سندھ فیسٹیول میں ناچ اور گانے چل رہے ہیں اور دوسری طرف تھر کے صحرا میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں ادھر شباب و کباب کی محفلیں چل رہی ہیں اور ادھر تھر کے صحرائی روٹی کے ایک ایک لقمے کے لئے تڑپ رہے ہیں ۔ کیا تھر کے لوگ روٹی، کپڑا ور مکان کے مستحق نہیں تھے یا ان کی الگ ریاست ہے یا لاڑ کانہ اور تھر میں وسیع سمندر حائل ہے کہ ہر کوئی تھر کے حالات سے بے خبر تھا۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں کی حکومت بھی وہاں موجود، نوجوان قیادت بھی وہاں موجود او ر سابق صدر پاکستا ن بھی وہاں موجود ہیں لیکن پھر بھی سب تھر کے حالات سے بے خبر رہے۔ یہ تو بھلا ہو میڈیا کا جنہوں نے سب سے پہلے وہاں پہنچ کر تھر کے لوگوں کی آواز ایوان بالا تک پہنچائی او ر اقتدار کے نشے میں مست رہنے والوں کو ہوش دلایا کہ اٹھو یہاں بھی کچھ ہو رہا ہے یہاں بھی کچھ انسان رہتے ہیں ۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت موجود ہے جو وفاق اور صوبہ پنجاب میں حکومت کہ رہی ہے ملک کے سربراہ اور صدر پاکستان کا تعلق بھی اس سیاسی جماعت سے ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت ایک تجربہ کار اور سیاست کا وسیع تر تجربہ رکھنے والی شخصیت نواز شریف کے پاس ہے جنھوں نے اپنی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز بھی دیکھے ہیں ۔الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کا ایک ہی نعرہ خودار، خوشحال اورخود مختار پاکستان بے حد مقبول ہوا لیکن مسلم لیگ کی حکومت کے بعد کیا واقعی پاکستان خوشحال، خودار اور خودمختار بن گیا؟ کیا پاکستانی عوام خوشحال ہو چکی ہے؟ کیا نوجوانوں طبقے کو روز گار مل رہا ہے ؟ کیا پاکستان ترقی پذیر ممالک کی لسٹ میں شامل ہو چکا ہے ؟ اگر پاکستان خود مختار ہو چکا ہے تو پھر ڈرون حملے بند اور سیاست کی پالیسی پاکستانی ہونی چاہیے۔ پاکستانی عوام کو خوشحال بنانے کے لئے مہنگائی ختم کرنی ہو گی نوجوانوں کو باوقار بنانے کے لئے میرٹ پر نو کریاں دینی ہوں گی پاکستان کو ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کیلئے سرکاری محکموں سے کرپشن ختم کرنی ہو گی، سرکاری ملازمین کو قوانین کی خلاف ورزی سے روکنا ہو گا پاکستان میں تعلیم کو عام کرنا ہوگا وی آئی پی کلچر اور بھاری پروٹوکول کو ختم کرنا ہوگا ۔ قانون کی بالا دستی کو قائم کرنا ہوگا۔

اب پاکستان تحریک انصاف کی بات کی جائے جس کی صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکومت قائم ہے۔ اس جماعت نے بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے اس مقبولیت میں زیادہ قد نوجوانوں کا ہے اس وجہ سے اسے نوجوانوں کی پارٹی بھی کہا جاتا ہے اس جماعت نے الیکشن مہم کے دوران تبدیلی کا نعرہ کچھ یوں لگایا تھا کہ تبدیلی ہم سے ہے ہم بنائیں گے ایک نیا پاکستان ۔وفاق میں تواس جماعت کو حکومت نہ مل سکی لیکن قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اس جماعت کے نمائندے موجود ہیںلیکن خیبر پختونخواہ کی حکومت بھی ان کے پاس موجود ہے، اگر تحریک انصاف نے ان نعروں کو حقیقت بنانا ہے تو انہیں پاکستان کے لئے مثبت انداز سے سوچنا ہوگا اور عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے ہونگے۔

چونکہ پختونخواہ دہشتگردی کا بھی شکار ہے اس لئے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو مثبت حکمت عملی اپناتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخواہ کے بگڑے ہوئے حالت کو ٹھیک کرنا ہوگا اگر آنے والے سالوں تحریک انصاف خیرپختونخوا کے حالات تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو پھر کوئی بھی اسے ملک کی سب سے بڑی جماعت بننے سے روک نہیں سکتا اور اگر ایسا نہ ہوا تو اس جماعت کا غرور خاک میں مل جائے گا۔

یہ ملک جمہوری ہے تو اس ملک میں سیاست بھی جمہوری ہونی چاہیے اس ملک میں ہونے والے فیصلے بھی جمہوری ہونے چاہیے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت محض نمائشی ہے اور سیاسی جماعتیں بڑی حد تک جمہوری عمل کے اثرات سے محروم چلی آرہی ہے زیادہ تر ہنگامہ انتخابات تک محدود رہتا ہے جن کے بعد حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور نمائندوں کو چاہئیںکہ وہ حقیقی معنوں میں اس ملک کے لئے سوچیں اور عوام سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ تھر کا یہ قحط پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے اور قیامت آنے سے پہلے روئے زمین پر ایک قیامت برپا ہو جائے اور سب فنا ہو جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔