طبی فضلے کا خطرناک استعمال

ظہیر اختر بیدری  پير 24 مارچ 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

مغربی ملکوں کے معاشرتی نظام میں بے شمار خرابیاں ہوسکتی ہیں لیکن صحت کے شعبے میں جو سخت قوانین اور اخلاقی اصول اور ضابطے یہاں موجود ہیں ان کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ خالص غذائی اشیا بے فکری کی وجہ سے ان ملکوں کے عوام کی صحت نہ صرف قابل رشک ہوتی ہے بلکہ ان کی اوسط عمر پسماندہ ملکوں کے عوام کی اوسط عمر سے کافی زیادہ ہوتی ہے اگر پسماندہ ملکوں کے عوام کی اوسط عمر 50 سال ہے تو ترقی یافتہ ملکوں کے عوام کی اوسط عمر 80 سال ہے۔ مغربی ملکوں کے عوام نے زندگی کے متعلق جس اصول کو اپنالیا ہے کہ ’’آج ہمارا ہے کل کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے‘‘ اس اصول حیات کی وجہ سے وہ آج کے دامن سے جتنی خوشیاں نچوڑ سکتے ہیں نچوڑ لیتے ہیں۔ اسی فلسفے کو سیکڑوں سال پہلے بابر نے یوں پیش کیا تھا۔ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘  بابر بادشاہ تھا جس کی وجہ سے اسے زندگی کی تمام خوشیاں عیش عشرت کے تمام سامان میسر تھے لیکن بابر کی رعایا زندگی کی معمولی سے معمولی خوشی سے محروم اپنی ساری زندگی پیٹ کا دوزخ بھرنے میں گزار دیتی تھی۔ شخصی حکمرانی کو جہاں اور بہت ساری برائیوں کا مرکز قرار دیا گیا وہیں غربت اور امارت کو بھی معاشی ناانصافی کی وجہ قرار دینے کے بجائے تقدیر کا لکھا قرار دے کر عوام کو بے دست و پا بنادیا گیا۔

شاعر نے کہا ہے کہ ’’موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی‘‘ اس شعر کی شعریت تو بڑی خوبصورت ہے لیکن اگر اس کی معنویت پر نظر ڈالی جائے تو ایسے ایسے اسرارورموز سامنے آتے ہیں کہ انسان تصویر حیرت بن کر رہ جاتا ہے۔ مثلاً ذہن میں یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوتا ہے کہ اگر موت کا دن معین ہے تو ترقی یافتہ ملکوں کے عوام کی اوسط عمر 80 سال اور پسماندہ ملکوں کے عوام کی اوسط عمر 50 سال کیوں ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے عوام 80 سے 100 سال تک کیوں زندہ رہتے ہیں اور پسماندہ ملکوں کے عوام 60 سے 70 سال کے درمیان کیوں ہجرت کرجاتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی عمر کا تعلق اچھی اور متوازن غذا اور بے فکری سے ہوتا ہے جن ملکوں کے عوام کو متوازن غذا اور بے فکری حاصل ہوتی ہے وہ زیادہ عرصے زندہ رہتے ہیں اور جن ملکوں کے عوام کا گزارا غیر متوازن اور ناقص غذا پر ہوتا ہے وہ اپنی طبعی عمر سے پہلے کوچ کرجاتے ہیں۔

پسماندہ ملکوں میں اگرچہ اشیا خورونوش خالص نہیں ملتیں لیکن اس حوالے سے پاکستان کا جو حشر ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ یہاں خالص نام کی کسی چیز کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کا جو فارمولا دیا ہے اس پر پاکستان میں جس شدت سے عمل کیا جاتا ہے شاید ہی کسی ملک میں ایسا ہوتا ہو۔ منافع خوری کے لیے اشیا خورونوش میں ملاوٹ تو ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہے ہی لیکن اس محاذ پر ہم کس قدر آگے بڑھ گئے ہیں اس کا اندازہ ٹی وی کے ان چشم دید انکشافات سے ہوتا ہے جن کے مطابق پاکستان کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر میں ایسے کارنامے موجود ہیں جہاں مردہ جانوروں کی غلیظ باقیات حتیٰ کہ مرغیوں کے پیروں، آنتوں وغیرہ کو کشید کرکے خوردنی تیل بھاری مقدار میں تیار کیا جاتا ہے اور برانڈ ناموں کے ساتھ پیک کرکے دکانوں کو سپلائی کیا جاتا ہے اور ہم یہ غلیظ اور مضر صحت تیل انجانے میں ہر روز استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی ہماری اعلیٰ صحت کے رازوں میں سے ایک راز ہے ترقی یافتہ ملکوں کے بداخلاق لوگوں میں یہ اخلاق ضرور ہوتا ہے کہ وہ ملاوٹ کو نہ صرف غیر قانونی حرکت سمجھتے ہیں بلکہ غیر اخلاقی بھی سمجھتے ہیں اور معاشروں میں اچھائیوں کے رواج اور پھیلاؤ میں قانونی ضابطوں سے زیادہ اخلاقی ضابطے طاقتور ہوتے ہیں۔ اس قسم کے جرائم کے لیے صرف سخت قانونی دفعات ہی موجود نہیں بلکہ ایک مستحکم اخلاقی نظام بھی موجود ہے لیکن دنیا میں سب سے برتر اخلاقی نظام رکھنے والی ہماری قوم کی قانونی اور اخلاقی حالت کا عالم یہ ہے کہ ٹی وی کی طرف سے دکھائی جانے والی ان ننگ انسانیت رپورٹوں کے باوجود نہ ہمارے اخلاقی نظام میں کوئی حرکت پیدا ہوتی ہے نہ ہمارا قانون ہی حرکت میں آتا نظر آتا ہے۔

حکومت کی طرف سے گٹکے، مین پوری اور طرح طرح کی کیمیکل زدہ چھالیہ کو انتہائی مضر قرار دینے کے باوجود گٹکا، مین پوری اور چھالیہ انڈسٹری دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے نوجوانوں کی بھاری اکثریت کی جیبوں میں گٹکے، مین پوری اور زہر آلود چھالیہ کی پڑیاں بھری رہتی ہیں اور ان کے منہ اگالدان بنے رہتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ منہ کے کینسر میں اضافے کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اور انتظامی کینسر میں مبتلا ہماری حکومت خاموش ہے۔

ایکسپریس اخبار کی ایک پانچ کالمی رپورٹ کے مطابق طبی فضلے کو تلف کرنے کے بجائے اسے ری سائیکل کرکے اس سے بچوں کے کھلونے، پلاسٹک کی پانی کی ٹنکیاں، بوتلیں، بالٹیاں، تھیلیاں، سرنجز سمیت کئی روزمرہ استعمال کی اشیا تیار اور فروخت کی جا رہی ہیں۔ کراچی میں موجود 1400 طبی مراکز میں سے صرف 130 مراکز طبی فضلہ تلف کرتے ہیں باقی 1270 مراکز اپنا طبی فضلہ جس میں ڈرپس، سرنجز، بلڈبیگ وغیرہ جیسی خطرناک چیزیں شامل ہیں کو فروخت کردیا جاتا ہے اور اس مضرصحت طبی فضلے سے وہ روزمرہ کے استعمال کی اشیا تیار کی جاتی ہیں جن کا ذکر ہم نے اوپر کردیا ہے۔ طبی فضلے کو تلف کرنے کے لیے بلدیہ عظمیٰ میں انسی ٹیریٹر پلانٹ قائم ہے جو ایک گھنٹے کے اندر ایک ٹن طبی فضلہ تلف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہاں دن بھر میں صرف ڈیڑھ ٹن طبی فضلہ لایا جاتا ہے باقی ٹنوں طبی فضلہ مارکیٹ میں فروخت کردیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے کراچی میں صرف 130 ہیلتھ سینٹر رجسٹرڈ ہیں باقی 1270 ہیلتھ سینٹر رجسٹریشن سے آزاد ہیں۔ اور ان پر طبی فضلہ بلدیہ عظمیٰ کے سالڈ ویسٹ کے حوالے کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ بڑے بڑے اسپتال اپنا طبی فضلہ بلدیہ عظمیٰ کے سالڈ ویسٹ کے حوالے کرنے کے بجائے فضلہ مارکیٹ میں فروخت کر رہے ہیں جہاں اسے ری سائیکل کرکے وہ اشیا تیار کی جا رہی ہیں جن کے استعمال سے ہیپاٹائٹس بی سی اور دیگر جان لیوا بیماریاں پھیلتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں دولت نے خدا کا درجہ حاصل کرلیا ہے لیکن مغربی ملکوں جیسے بداخلاق ملکوں میں بھی یہ اخلاقیات مضبوط اور مستحکم ہیں کہ اشیا خورونوش سمیت دیگر اشیائے صرف میں ملاوٹ یا ان کے غلط استعمال کو بہت بڑی اخلاقی برائی اور قانون کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر ہیں۔ لیکن ہماری دنیا کی سب سے برتر قوم کی اخلاقیات اور قانون کا عالم یہ ہے کہ مردہ جانور اور گدھے، کتوں کا گوشت بچھیا اور بکرے کے گوشت کے نام پر فروخت کیا جارہا ہے، فضلے کو ری سائیکل کرکے اشیائے صرف تیار کی جا رہی ہیں ۔گٹکے، مین پوری اور زہریلی چھالیہ کا کاروبار دھڑلے سے جاری ہے اور حکومت اقتدار کے نشے میں اس قدر ٹن ہے کہ ان برائیوں پر اس کی نظر جاتی ہی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔