ہمارا نظام

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 21 اکتوبر 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

سنا ہے کہ گزشتہ روز مشہور شاہزیب قتل کیس میں مرکزی ملزم شاہ رخ خان جتوئی اور دیگر ملزمان کو باعزت بری کر دیا گیا ہے ۔ ویسے تو ہمارا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں ،ہم قانون کی پیچدگیوں کو بھی جانتے ، ظاہر جب کوئی ملزم بری ہوتا ہے تو اس کی قانونی گنجائش ہوتی ہے، بہرحال ہم تو اپنے نظام کی بات کرتے ہیں، اس نظام میں بااثر طبقات تو قانون جنگ لڑ لیتے ہیں لیکن غریب آدمی یہ جنگ نہیں لڑ سکتا۔ آپ ناظم جوکھیو کیس کو ہی دیکھ لیں، جس میں ممبران اسمبلی جام اویس اور جام عبدالکریم کے معاملات لے دے کے ساتھ ختم ہوگئے اور ملزمان باعزت بری ہوگئے۔

پھر کوئٹہ میں مجید اچکزئی کیس کا تو سب کو علم ہوگا، اگر نہیں یا د تو میں بتاتا چلوں کہ20جون 2017کو موصوف گاڑی چلا رہے تھے، اسی اثنا میں ٹریفک پولیس انسپیکٹر عطا اللہ کو روند ڈالا، عبدالمجید اچکزئی اُس وقت بلوچستان اسمبلی کے رکن اور اس وقت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین تھے ، مقدمہ چلا لیکن 4 ستمبر کو بلوچستان کی ماڈل کورٹ نے عبدالمجید اچکزئی کو عدم ثبوت پربری کر دیا۔ پھر سانحہ ساہیوال کو کون بھلا سکتا ہے؟ اُس کے بھی تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا۔

اس کیس کے ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیاگیا۔ پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن سے کون واقف نہیں، پھر اسامہ ستی کیس میں بھی کسی ملزم کو ابھی تک سزا نہیں ہوسکی ، پھر راؤ انوار کو کون بھولا ہے ۔

یقین مانیں طاقتوروں کے مقدمات ریاست کے ہی گلے پڑ جاتے ہیں۔ یعنی ریاست کو اُن کے تمام پروٹوکول کا خیال رکھنا پڑتا ہے، اُن کے اُٹھنے، بیٹھنے، سونے ، جاگنے کا دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ مطلب! یہ تو بالکل ایسے ہی ہوا جیسے بقول بہادر شاہ ظفر

ایک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادمان

کانٹے بچھا دیے ہیں دل لالہ زار میں

جی ہاں یہ ہے پاکستان ! لگتا یوں ہے ریاست کا مطلب طاقتور خاندانوں کا اتحاد ہے ۔ اس کے برعکس غریب آدمی کے لیے یہاں دادا کیس دائر کرتا ہے اور پوتے کو بھی حتمی فیصلہ نصیب نہیں ہو تا، اور کئی لوگوں نے بغیر سزا ہوئے سزا جتنی قید کاٹ لی ہے۔ تاریخ پر تاریخ ہی انصاف کے متلاشی کا مقدر بن جاتا ہے۔

اس لیے ایک عام تاثر یہ بھی بن گیا ہے، جس معاملے کو حل کرنا مقصود نہ ہو اسے قانون کے حوالے کر دیں، یوں ایسا معاملہ خودہی عدالتی نظام کے چکر کاٹتے کاٹتے مر جائے گا۔لیکن طاقتور گروہ کا معاملہ حل ہونے پر آئے تو ایک ہی دن میں حل ہو جا تا ہے۔ ضمانت ملے تو چھٹی والے دن مل جائے۔ رات کے پچھلے پہر بھی عدالت لگ جاتی ہے۔

بہرکیف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں طاقتور اور وڈیراشاہی کب ختم ہو گی، خلق خدا کا راج کب آئے گا؟ غریب اور لاچار لوگوں کو اس دھرتی پر جینے کا کوئی حق نہیں ہے یا پھر انھیں کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر زندگی جینا ہو گی اور کتوں کے برتنوں میں پانی پینا اور زمین پر ناک رگڑتے اور ٹسوے بہاتے زندگی کے ایام گزارنا ہوں گے۔ اس کا جواب اس ملک کے کرتا دھرتاؤں کو دینا پڑے گا ورنہ یہاں نفرت کے بیج ہمیشہ کی طرح بوئے جاتے رہیں گے اور ریاست کمزور ہوتی رہے گی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔