پانی اور بجلی کے متبادل منصوبے

جمیل مرغز  جمعـء 21 اکتوبر 2022
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

2016کی ایک خبر کے مطابق ’’وزیر اعظم نواز شریف نے دیامر بھاشا ڈیم کے لیے سیکریٹری پانی و بجلی کے تیار کردہ مالیاتی پلان کی اصولی طور پر منظوری دے دی ہے ‘اس تجویز کا مقصد یہ ہے کہ خود انحصاری کے اصول پر فنڈنگ کا انتظام کیا جائے ‘انھوں نے ہدایت دی ہے کہ مالیاتی پلان کو جلد حتمی شکل دی جائے اور تیاریوں کو جلد مکمل کرکے 2017کے اختتام سے قبل ڈیم پر عملی کام شروع کیا جائے‘‘یہ خبر اگرچہ بہت تاخیر سے آئی تھی لیکن بہر حال‘ دیر آید درست آید۔جنوری 2006میں حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا تھا کہ ملک میں پانی کی کمی دور کرنے کے لیے اگلے دس سے بارہ سال کے دوران پانچ کثیر المقاصد ڈیم تعمیر کیے جائیں گے۔

اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں دیامر بھاشا ڈیم بنایا جائے گا‘ نومبر 2008میں قومی اقتصادی کونسل کے ایگزیکٹیو کمیٹی(ECNEC) نے اس پروجیکٹ کی منظوری دی اور مشترکہ مفادات کے کونسل (CCI)نے بھی چاروں صوبوں کی مرضی سے اس منصوبے کی متفقہ منظوری دے دی تھی۔ پاکستان کافی عرصے سے توانائی کی کمی کا شکار ہے‘ یہ بیماری اچانک لاحق نہیں ہوئی بلکہ توانائی کے اس بحران کی مختلف حکومتوں نے اپنی پالیسیوں کی بدولت برسوں پرورش کی ہے۔بقول شاعر ۔

؎ وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

پاکستان کی کسی بھی حکومت نے توانائی کے لیے ایک مستقل پالیسی بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی‘ بلکہ مسئلے کو مستقل حل کرنے کے بجائے وقتی اقدامات سے ٹالنے کی کو شش کی ہے‘ جس کانتیجہ اب پوری قوم بھگت رہی ہے۔اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے مسائل کی ابتداء اس وقت شروع ہوئی جب مکس انرجی(Mix energy) کا فارمولا اپنا یا گیا‘ یہ فارمولا برسوں پر محیط تھا‘ ۔1994-95 میں پن بجلی اور تھرمل بجلی کا تناسب 50/50تھا ‘آہستہ آہستہ تھرمل بجلی کا تناسب بڑھتا گیا۔

2000-2001تک پاکستان 70فی صد بجلی تھرمل جب کہ 30فی صد پن بجلی پیدا کرنے لگاجب کہ 2012-2013 میں تھرمل 66فی صد جب کہ پن بجلی 34فی صد پیدا ہوتی تھی ‘اس پالیسی کا نتیجہ مہنگی بجلی کی شکل میں آیا کیونکہ عالمی صورت حال اور دیگر وجوہات کی بناء پر تیل کی قیمت ہمیشہ مائل بہ مہنگائی ہوتی ہے۔

حکومتوں کو بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے لیے سبسڈی دینی پڑتی تھی‘ جس کی وجہ سے قومی خزانے پر ایک مستقل مالی بوجھ پڑ گیا جس کو گردشی قرضہ ”Circular Debt”کہتے ہیں۔ قدرت کی طرف سے پاکستان کو پن بجلی جیسی سستی ترین توانائی کے لامحدود ذرایع دیے گئے ہیں‘ان ذرایع کی موجودگی کے باوجود تھرمل بجلی جیسی مہنگے ذرایع سے بجلی پیدا کرنے کا پروگرام سمجھ سے باہر ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2013-2014 (جولائی۔ فروری)میں واپڈا پن بجلی سے حاصل کردہ 21.7ارب یونٹ سسٹم کو دے رہا تھا‘ جس کی اوسط لاگت 1.3روپے فی یونٹ تھی ‘بجلی کی دوسری سرکاری کمپنیاں جو تھرمل ذرایع سے بجلی پیدا کرتی ہیں ‘ان کی کل پیداوار 9ارب یونٹ ہے جس پر اخراجات کا اندازہ 15.5روپیہ فی یونٹ ہے۔

نجی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں) IPPs ( سسٹم کو 31بلین یونٹ بجلی دے رہی ہے ‘جس کی اوسط قیمت 15روپے فی یونٹ ہے ‘ نیشنل گرڈ سسٹم میں دوسرے ذرایع سے 0.9بلین یونٹ بجلی حاصل ہوتی ہے‘ جس پر اخراجات کا تخمینہ 12روپے فی یونٹ ہے، اگر صحیح تخمینہ لگایا جائے تو یہ اخراجات اصل میں 16سے 18روپے فی یونٹ تک پہنچتے تھے ۔

سرکاری کمپنیوں (GENCOS) کی طرف سے فی یونٹ پیداواری اخراجات 21.3 روپے رہی ‘یہ بھی ایک غلط فہمی ہے کہ ہوا سے بنائی گئی بجلی سستی ہو گی‘ حالانکہ معلوم اندازوں کے مطابق ہوا سے بننے والی بجلی کی لاگت 16.6 روپے فی یونٹ پڑتی ہے ‘اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر زیادہ بجلی کی مقدار تھرمل اور دیگر ذرایع سے پیدا کی جائے تو قیمت اندازتاً  25 روپے فی یونٹ تک پہنچے گی ‘اسی لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر آج عوام کو ذرا کم قیمت پر بجلی میسر ہے تو اس کا سہرا پن بجلی کے سر ہے۔

پاکستان کا مسئلہ صرف بجلی کی فراہمی ہی نہیں ہے‘ بلکہ ہمارا اہم مسئلہ سستی‘ صارف کے لیے قابل برداشت اور ماحول دوست بجلی کی فراہمی بھی ہے‘ اگر ہم بجلی کے ملغوبے میں پن بجلی کا حصہ بڑھا دیں‘ لائن لاسز کو کم کریں اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے سسٹم کو بہتر بنالیں تو اس طرح ہمیں گردشی قرضے یا Circular Debtکے عذاب سے بھی ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مل سکتا ہے۔

اس وقت پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صرف 30دن کی گنجائش ہے‘ پلاننگ اور ترقیات کی وزارت کے سرکاری ذرایع کے مطابق بھاشا ڈیم کی تعمیر کے بعد یہ گنجائش 90دن تک پہنچ جائے گی‘ یہ ڈیم دریائے سندھ پر تربیلہ ڈیم سے اوپر کی طرف 315کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

ہماری حکومت ہر وقت دہائی دیتی رہتی ہے کہ ہندوستان سندھ طاس منصوبے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ‘ہمارے حصے کے دریاؤں پر اپنے علاقے میں مزید ڈیم بنا رہا ہے‘جس سے ہماری زمینیں بنجر رہ جائیں گی ‘اس بہانے وہ مستقل طور پر قوم کو سمجھا رہی ہے کہ ہم اپنا قیمتی پانی سمندر میں بہا رہے ہیں اور سیلابی پانی کو جمع کرکے آبپاشی کے لیے استعمال کرنا ہماری بنیادی ضرورت ہے۔

اسی کے ساتھ ساتھ بجلی بھی ہماری ضرورت ہے‘ خوش قسمتی سے یہ دونوں مقاصد دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر سے پورے ہو رہے ہیں‘ بلکہ اس ڈیم کے دو اضافی فائدے بھی ہیں کہ ایک اس سے تربیلہ اور چشمہ ڈیم کی عمربڑھ جائے گی اور دوسرے اس کی وجہ سے بھاشا‘داسو‘ تربیلہ ‘غازی بھروتہ اور چشمہ کے پاور سٹیشنوں کوبجلی پیدا کرنے کے لیے برابر مقدار میں سارا سال پانی ملتا رہے گا ‘جس سے بجلی کی پیداوار بھی زیادہ ہوجائے گی۔واپڈا کی فزبلیٹی رپورٹ کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم کے مندرجہ ذیل فوائد بتائے گئے ہیں۔

٭۔اس ڈیم کا بنیادی مقصد پانی کا ذخیرہ کرنا‘ آبپاشی اور بجلی کی پیداوار ہے ٭۔4500 میگاواٹ ماحول دوست اور صاف پانی سے بجلی پیدا ہوگی ٭۔اس ڈیم میں اضافی 8,500,000 ایکڑ فٹ (10.5km-3)پانی جمع ہوگا‘یہ پانی ملک میں پینے اور آبپاشی کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا‘یہ بات یاد رہے کہ پاکستان کو مسلسل پانی کی کمی کا سامنا ہے اور مشرقی دریاؤں کو انڈس واٹر معاہدے کے تحت ہندوستان کے ہاتھ بیچ دینے کے بعد ہمارے پاس صرف شمال مغربی پہاڑوں سے آنے والے دریا باقی بچے ہیں‘ اس لیے پانی کے ذخیروں کی بہت زیادہ ضرورت اور اہمیت ہے ٭۔

مٹی اور ریت کو روک کر نیچے کی طرف واقع تربیلہ ڈیم کی عمر میں 35سال کا اضافہ ہوگا‘تربیلہ اور منگلا تقریباً 30فی صد سے زیادہ ریت اور مٹی سے بھر چکے ہیںاور اندیشہ ہے کہ آیندہ پانچ سے دس سال میں ان ڈیموں کی گنجائش آدھی رہ جائے گی ٭بھاشا ڈیم کا ذخیرہ آب کافی بڑا ہوگا اور وہ سیلاب کے سیزن میں اضافی پانی کو اوپر روک لے گا‘جس موسم میں پانی کا بہاؤ کم ہوتا ہے اس دوران بھی آبپاشی کے لیے اضافی پانی دستیاب ہوگا۔

سردیوں میں برف پگھلنا بند ہوجاتی ہے اور پانی کا بہاؤ کم ہونے سے تربیلہ ڈیم میں پن بجلی کی پیداوار بہت کم ہوجاتی ہے ‘بھاشا ڈیم کے ذخیرہ آب کی وجہ سے پانی کا بہاؤ کم نہیں ہوگا اور اس طرح بجلی کی پیداوار میں کمی نہیں ہوگی ‘اس ڈیم کا پانی نہ صرف تربیلہ ‘چشمہ وغیرہ کو فائدہ دے گا بلکہ اس کی وجہ سے داسو ہائیڈرو پروجیکٹ میں بھی بجلی کی پیداوار پورے سال برابر رہے گی٭ تھرمل بجلی پر انحصار کم ہوجائے گاجس کی وجہ سے ماحول بھی صاف ہوگا اور قیمتی زر مبادلہ بھی بچے گا ٭۔روزگار کے عارضی اور مستقل مواقع بڑھیں گے ‘خاص کر مقامی لوگوں کی سماجی اور معاشی معیار زندگی بلند ہوگا۔

تین اہم امور پر غور کرنے کی ضرورت ہے‘ پاکستان کو اگلے 15سال میں سسٹم میں کم از کم50,000 میگاواٹ بجلی کا اضافہ کرنا ہوگا‘دوسرا یہ کہ اس وقت ملک میں 1000سے زیادہ ایسے ہائیڈل پروجیکٹ ہیں جہاں سے مسلسل‘سستی‘ صاف اور بہتر بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ‘ا س وقت 87بڑے اور چھوٹے پن بجلی کے منصوبے تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔

ان میں 11بڑے منصوبوں میں دیامر بھاشا ڈیم‘ داسو ڈیم‘ بونجی ڈیم ‘ پٹن ڈیم‘کوٹ ڈیم، یلبو ڈیم‘ تنگس ڈیم‘ ڈوڈنیال ڈیم ‘نیلم جہلم ڈیم‘ کوہالہ ڈیم ‘ تربیلہ فور اور اتنی ہی صلاحیت کا تربیلہ فائیو‘کے علاوہ منگلا توسیعی منصوبہ شامل ہیں‘ان تمام منصوبوں سے کل 40,749 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اوریہ تمام منصوبے واپڈا کے ویژن 2025کا حصہ ہیں‘ضرورت اس امر کی ہے کہ CPEC کے دوسرے منصوبوں کی طرح ان پر بھی کام کی رفتار تیز کی جائے۔ بھاشا اورمہمندڈیم کی تعمیر کے لیے ایمرجنسی پلان بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ دونوں ڈیم جلد مکمل ہوجائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔