زوال آشنا تہذیب اور ہم

عبد الحمید  جمعـء 21 اکتوبر 2022
gfhlb169@gmail.com

[email protected]

روئے زمین پر یہ خطہ جہاں ہمارا پیارا پاکستان ہے،یہ خطہء ارض ہزاروں سال پرانی تہذیب کا وارث اور امین ہے۔دو سو کے لگ بھگ ممالک میں بہت کم ممالک ہیں جو اتنی پرانی تہذیب کے امین ہوں۔

اتنی پرانی تہذیب کے وارث ہونے کے ناطے جہاں کئی  ایڈ وانٹیجز ہوتے ہیں، وہیںمردہ تہذیب کا بوجھ کئی منفی اثرات لیے ہوئے ہوتا ہے۔

ہم پاکستانی عام طور پر اپنی تاریخ1947یا پھر اگر بہت پیچھے چلے جائیں تو مسلمانوں کی برِ صغیر میں آمد سے شروع کرتے ہیں لیکن اصل میں ہمارے خطے کی تاریخ آٹھ ہزار سال قبل مسیح میں مہر گڑھ اور پھر Bronze Ageکے ہڑپا اور موہنجو دڑو سے آگے بڑھتی ہے۔

اس ضمن میں ہم اور ہماری تہذیب کچھ کچھ عالمِ نباتات کے شاید سب سے پرانے درخت CYCASسے ملتی جلتی ہے۔کائنات میں ساری مخلوقات ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں ، سب کی تقدیر میں زندگی کے مراحل کے اختتام پر زوال اور فنا ہے۔

قومیں اور تہذیبیں بھی زوال کے اس عمل  سے بچ نہیں سکتیں، ہاں جب ایک قوم اس عمل سے دوچار ہوتی ہے تو اس کی جگہ لینے کے لیے اُس وقت کی کوئی دوسری مضبوط اور توانا قوم آگے بڑھ کر خلا پر کر لیتی ہے۔ہم مسلسل شدید کمزوری کی حالت سے  گزر رہے ہیں۔نہیں معلوم کہ ہم کیوں رک کر اس کا  جائزہ نہیں لیتے کہ ہم نے اس ٹرینڈ کو کیسے روک کر تعمیر کرنی ہے۔فطرت کا قانون تو اٹل ہے ، فطرت کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف۔

زوال آشنا اقوام سے تو ہم آگاہ ہیں۔عالمِ حیوانات اور عالمِ نباتات میں بھی زوال کا یہ عمل دیکھا جا سکتا ہے۔ عالمِ نباتات بہت وسیع ہے اور ہر درخت کی بے شمار اقسام ہیں۔ماہرین کا اندازہ ہے کہ سائیکس Cycasکا درخت )نگھی پام(زوال کی زد میں ہے۔

یہ درخت اس وقت روئے زمین پر پائے جانے والے پودوں میں سب سے پرانا درخت ہے۔ بظاہر یہ کھجور سے بہت مماثل ہے لیکن اس کے خاندان کا کھجور سے کوئی تعلق نہیں۔ساری دنیا میں پایا جانے والا یہ سدا بہار درخت ،بے شمار اقسام کاحامل ہے جن میں سے برِ صغیر میں اس کی 9قسمیں ملتی ہیں۔

اس کی سب سے زیادہ پائی جانے والی قسمspecie ، Cycas Revolta ہے۔جوریسک دور میں اس درخت نے بہت نشوو نما پائی جب زمین پر ڈائیناسورز راج کرتے تھے۔پھر کچھ عجیب ہوا اور ڈائیناسورز معدوم ہو گئے ۔ اسی دور میں سائیکس پر بھی آفت آئی اور اس کی عمومی نشوونما رُک گئی۔سائیکس اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔

اندازہ لگایا گیا ہے کہ کوئی دو سو ملین سال پہلے یہ اپنے جوبن پر تھا لیکن اب گھٹتے گھٹتے کھجور اور ناریل سے بڑا،یہ صرف چند فٹ کا رہ گیا ہے۔اس درخت کی حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے بیج مادہ پودے پر لگنے کے بجائے نر پودے پر پھول کے نچلے حصے میںلگتے ہیں۔ بیج بننے کا عمل کوئی دس سال لیتا ہے اور اس کی پولی نیشنPollinationہوا کے ذریعے ہوتی ہے۔ سائیکس کی تقریباً تمام اقسام ساری دنیا میں شدید خطرے سے دوچار ہیں اس لیے اس کو ICUNکی ریڈ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

خطہء ارضِ پاک پر مہر گڑھ،اس وقت تک دریافت ہونے والی سب سے قدیم تہذیب ہے۔مہر گڑھ کا تعلق نیو لیتھکneo lithicدور سے ہے۔یہ دور 8000سال قبل مسیح سے شروع ہو کر 2500سال قبل مسیح پر محیط ہے۔مہر گڑھ درہء بولان کے پاس کوئٹہ، قلات اور سبی کے درمیانی علاقے میں ہے۔

اس سائٹ کو 1974میں فرانس کی ایک آرکیالوجیکل ٹیم نے دریافت کیاجس کی قیادت Jean Froncis Jarrigeکر رہے تھے۔اس سائٹ پر سولہ سال کام ہوتارہا۔منوں مٹی تلے دبے چھ بڑے ڈھیروں کی کھدائی سے بتیس ہزار اشیاء Artifactsملی ہیں۔ اس کی قدیم ترین آبادی سائٹ کے شمال مشرقی کنارے پر تھی۔

یہ ایک ایسی آبادی تھی جہاں اس وقت کے لحاظ سے اعلیٰ پیمانے پر کھیتی باڑی ہوتی تھی۔یہ لوگ ریوڑ بھی  پالتے تھے اور مویشی بھی رکھتے تھے۔فرانسیسی ماہر کا خیال ہے کہ مشرقی ترکی سے لے کر سندھ وادی کی تہذیب ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہیں البتہ مہر گڑھ کی تہذیب کسی دوسری تہذیب کی خوشہ چین نہیں۔یہاں کے لوگوں کے گھر مٹی کی کچی اینٹوں سے بنے ہوتے تھے۔

ان کی قبروں سے Sea-shellسے بنے زیورات ملے ہیں،مہر گڑھ کے قریب ہی کلی گل محمد سے بھی 5500سال قبل مسیح کے نوادرات ملے ہیں جس سے گماں ہوتا ہے کہ مہر گڑھ کی آبادی مضافات تک پھیلی ہوئی تھی۔یہ لوگ دانتوں کے علاج اور دندان سازی سے بھی واقف تھے۔یہ مقامی تانبے اور تارکول کا استعمال بھی جانتے اور کرتے تھے۔مٹی کے برتنوں کے بنانے سے بھی پہلے یہ لوگ مورتیاں بناتے تھے البتہ یہاں سے ملنے والی ساری مورتیاں مادہ ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر سے بہتر ہوتی گئیں۔ہڑپا اور موہنجو دڑو کی آبادیاں قائم ہوتے ہی یہ تہذیب مٹنی شروع ہو گئی۔

ہڑپہ کی تہذیب کا تعلق Chalcolithic n Bronze Age سے ہے۔یہ تہذیب دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے ارد گرد علاقوں میں پھیلی۔ اسی لیے وادیء سندھ کی تہذیب کو ہڑپن تہذیب بھی کہا جاتا ہے۔ہڑپہ ساہیوال سے 23کلومیٹر موجودہ ہڑپہ گاؤں کے پاس ہے۔اپنے وقت کے لحاظ سے یہ ایک بہت بڑی آبادی تھی۔

اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہاں کوئی 23500افراد آباد تھے۔ان کے گھر عام طور پر پختہ اینٹوں کے بنے ہوئے تھے۔ہڑپہ کے کھنڈرات 1920میں دریافت ہوئے۔اس کے مطالعے سے عیاں ہے کہ یہ برِ صغیر میں پہلا شہری تمدن تھا جو مصری  اور میسوپٹومیائی تہذیب و تمدن کا ہم پلہ تھا۔ہڑپہ کی آبادی اتنا وافر اناج اگاتی تھی کہ قحط کی صورت میں یہ پوری آبادی کو سال بھر کھلا سکتی تھی۔

زیادہ تر رہائشی مکانات شہر کے نچلے حصے میں تھے۔گلیاں پختہ تھیں اور ایک دوسرے کو چوراہوں میں آ کر کاٹتی تھیں۔شہر کو کئی رہائشی بلاکوں  میں تقسیم کیا گیا تھا۔ہر بلاک میں ایک بڑی اور کئی چھوٹی گلیاں تھیں۔

چھوٹے مکانات بھی تھے اور بڑے تین منزلہ بھی۔یہ آبادی حفظانِ صحت کے اصولوں پر سختی سے کاربند تھی۔شہر کی سب سے اونچی جگہ پر عبادت گاہ اور انتظامی دفاتر تھے۔ ایک بڑا اناج گھر بھی تھا۔

لاڑکانہ کے قریب دریائے سندھ کے مغربی کنارے موہنجو دڑرو کی آکیالوجیکل سائٹ ہے۔ اس سائٹ کی خاص بات اس کا بڑا غسل خانہ اور معبد ہے۔ غسل خانے کے چاروں جانب برآمدے جب کہ شمال اور جنوب کی جانب سیڑھی تھی۔ملحقہ کوئیں سے غسل خانے کو پانی ملتا تھا جب کہ ایک بڑی نالی کے ذریعے استعمال شدہ پانی کی نکاسی ممکن بنائی ہوئی تھی۔کپڑے تبدیل کرنے کے لیے کئی کمرے تھے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں رسمی غسل کیا جاتا تھا کیونکہ گھروں کے اندر بھی غسل خانے تھے۔شہر میں ایک بڑا اناج گھر تھا جو کئی بلاکوں پر مشتمل تھا۔شہر سے تھوڑا دور دریا کنارے ایک ڈاک یارڈ تھا جہاں مسافروں اور سامان سے لدی کشتیاں لنگر انداز ہوتی تھیں۔

دریائے سندھ کی وادی کی آبادیوں میں زرخیز زمین سے وافر غلہ اگایا جاتا تھا اور پھر اس کو اسٹور کرنے کے بھی چنداں انتظامات ہونے کی وجہ سے غیر زراعت پیشہ افراد کو پیشوں میں تنوع کی سہولت تھی لیکن زراعت پیشہ لوگوں کا عمومی پیشہ کھیتی باڑی اور مویشی پالنا تھا۔ہڑپہ اور موہنجو دڑو یک دم یوں معدوم ہو گئے کہ یہاں کبھی کوئی تھا ہی نہیں۔

سائیکس درخت اور ہمارے علاقے کی مردہ تہذیبوں کا تذکرہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ہم جان سکیں کہ ایک دفعہ زوال پذیر ہونے کے بعد دوبارہ اُٹھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ترقی کی دوڑ میں دوبارہ داخلہ صرف انقلاب سے ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ کاسمیٹک تبدیلیاں وقتی دکھاوا تو ہوسکتی ہیں لیکن حقیقی اُٹھان کے لیے دیانت دار، ویژنری لیڈرشپ اور سخت محنت ضروری ہوتی ہے۔ ہم شاید اہلیت و صلاحیت میں کسی سے کم نہیں اس لیے اگر اب بھی سمت درست کر لیں ،زوال کو نکیل ڈال لیں تو منزل سامنے ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔