توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آج، الیکشن کمیشن اور ریڈ زون میں سکیورٹی سخت

ویب ڈیسک  جمعـء 21 اکتوبر 2022
الیکشن کمیشن کے فول پروف سکیورٹی طلب کرنے پر سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں (فوٹو فائل)

الیکشن کمیشن کے فول پروف سکیورٹی طلب کرنے پر سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں (فوٹو فائل)

 اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان توشہ خانہ ریفرنس کیس کا فیصلہ آج دوپہر 2 بجے سنائے گا۔اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے فول پروف سکیورٹی طلب کرنے پر سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کارکنان کے پہنچنے یا ممکنہ ہنگامہ آرائی کے خدشے کے پیش نظر پورے علاقے اور خصوصاً عمارت کے ارد گرد سخت سکیورٹی تعینات کردی گئی ہے جب کہ نفری کے لیے آنسو گیس کے شیل سمیت دیگر ضروری سامان بھی پہنچا دیا گیا ہے۔  سکیورٹی کے لیے پولیس کے علاوہ ایف سی اور رینجرز کے اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔

ایس ایس پی کی نگرانی میں پولیس، رینجرز اور ایف سی کے 1100 اہل کار تعینات

اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے ایس ایس پی کی نگرانی میں سیکورٹی تعینات کردی  گئی ہے۔ اس سلسلے میں بتایا گیا ہے کہ ایک ایس ایس پی ، 5 ایس پیز ، 6 ڈی ایس پی سمیت ساڑھے 1100 اہل کار تعینات  کیے گئے ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق فیصلے کے موقع پر پی ٹی آئی کارکنوں کو الیکشن کمیشن تک پہنچنے نہیں دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ سکیورٹی کے سخت انتظامات کے باعث الیکشن کمیشن میں کیس سے غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بھی ممنوع قرار دیتے ہوئے ریڈ زون میں داخلہ بھی محدود کردیا گیا ہے۔

توشہ خانہ ریفرنس کیس کے فیصلے سے قبل چیف الیکشن کمشنر اور چاروں صوبوں کے اراکین الیکشن کمیشن پہنچ گئے۔ اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر نے اہم اجلاس طلب کرلیا، جس میں اسلام آباد انتظامیہ سکیورٹی کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بریفنگ دے گی۔ علاوہ ازیں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن نے بھی الیکشن کمیشن کا دورہ کیا اور سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا۔ ڈپٹی کمشنر اجلاس میں شرکت کرکے الیکشن کمیشن حکام کو سکیورٹی صورت حال پر بریف کریں گے۔

ممکنہ احتجاج پر قابو پانے کے لیے پورے اسلام آباد میں بھاری نفری الرٹ

دریں اثنا اسلام آباد پولیس نے توشہ خانہ ریفرنس کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے تناظر میں پی ٹی آئی کی جانب سے ممکنہ احتجاج کے پیش نظر سکیورٹی پلان تشکیل دے دیا، جس کے مطابق ایکسپریس وے اور سری نگر ہائی وے سمیت پورے دارالحکومت میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔

حفاظتی انتظامات کے تحت 1200 سے زائد سکیورٹی اہلکار پہلے ہی تعینات ہیں  جب کہ پولیس لائنز میں بھی اہل کاروں کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے۔ اسپیشل برانچ کی ٹیمیں راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع علاقوں کی نگرانی پر تعینات ہیں۔ آئی جی اسلام آباد نےاعلیٰ افسران کو فیلڈ میں رہنے کی ہدایت جاری کردی ہے۔

مزید پڑھیں: ایم این اے دوبارہ قومی اسمبلی کا انتخاب کیسے لڑ سکتا ہے؟ چیف الیکشن کمشنر

توشہ خانہ ریفرنس کیس کا پس منظر

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے آج دوپہر 2 بجے توشہ خانہ ریفرنس کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے سلسلے میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سمیت دیگر فریقین کو گزشتہ روز نوٹسز جاری کر دیے گئے تھے جب کہ اس کیس کا فیصلہ 19 ستمبر کو محفوظ کیا گیا تھا۔

کیس کے سلسلے میں عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو بتانا ضروری نہیں کہ توشہ خانہ کے تحائف خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئی؟۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کے لیے اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے عمران خان کے اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی طلب کی تھیں۔

امزید پڑھیں: توشہ خانہ کیس؛ الیکشن کمیشن نے عمران خان نااہلی ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کرلیا

واضح رہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے اگست کے اوائل میں توشہ خانہ کیس کی روشنی میں عمران خان کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا تھا، جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

عمران خان کی جانب سے تحریری جواب

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ بعد ازاں عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جس کے مطابق یکم اگست 2018ء سے 31 دسمبر 2021ء کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی، جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادائیگی کر کے خریدا تھا۔اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

مزید پڑھیں: عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس میں الیکشن کمیشن میں جواب جمع کرادیا

پی ڈی ایم کے وکیل کا دعویٰ

دوران سماعت پی ڈی ایم کے وکیل خالد اسحاق نے کہا کہ عمران خان نے دعویٰ بھی کیا کہ ایف بی آر میں فروخت شدہ تحائف کی آمدن ظاہر کردی تھی، لیکن دونوں گوشوارے الگ الگ ہیں۔لندن فلیٹ کی رسیدیں دینے والا بیچے گئے تحائف کی رسیدیں کیوں نہیں دے رہا۔

خالد اسحاق نے مؤقف پیش کیا کہ ننکانہ صاحب کے ضمنی انتخاب میں تحائف کا اعتراض اٹھا تو عمران خان نے ریٹرننگ افسر سے کہا کہ یہ فیصلہ کرنے کا مجاز فورم الیکشن کمیشن ہے۔اب یہاں الیکشن کمیشن کا اختیار ہی نہیں مان رہے  جب کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے پر الیکشن کمیشن ہی کسی ممبر کو نااہل کرسکتا ہے۔

نااہلی عدلیہ کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن عدالت نہیں، وکیل عمران خان

الیکشن کمیشن نے استفسار کیا کہ ممکن ہے اثاثے ظاہر کرنے میں غلطی ہوگئی ہو؟ تب تو نااہلی نہیں بنتی۔خالد اسحاق نے کہا کہ اگر غلطی ہوئی تو تسلیم کی جائے۔ عمران خان بیان حلفی پر جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

علاوہ ازیں اسپیکر قومی اسمبلی ریفرنس بھیجنے کے اہل بھی نہیں ہیں۔  تحائف خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئی، اس کا الیکشن کمیشن سے کوئی تعلق نہیں۔کمیشن ارکان نے ریمارکس دیے کہ اگر کمیشن کچھ کرنہیں سکتا تو اسپیکر کے ریفرنس بھیجنے کی شق کیوں ڈالی گئی؟ جہاں شک ہو وہاں الیکشن کمیشن اسکروٹنی بھی کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔