بلوچستان میں سیلاب زدگان کے مصائب کم نہ ہوسکے

ببرک کارمل جمالی  اتوار 23 اکتوبر 2022
پانی سے ہونے والی تباہی کے بعد بیماریاں اور بے سروسامانی جانیں لے رہی ہیں۔ فوٹو : فائل

پانی سے ہونے والی تباہی کے بعد بیماریاں اور بے سروسامانی جانیں لے رہی ہیں۔ فوٹو : فائل

بلوچستان میں طوفانی بارشوں کے بعد سیلابی ریلوں نے جو تباہی مچائی اس کا ازالہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے دورے کے بعد بھی ممکن نہیں ہوسکا ہے۔

بلوچستان میں مسلسل دو ماہ تک نہ رکنے والی بارشوں نے ہر شہر کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ بلوچستان کے کتنے ہی دیہی علاقوں کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے۔

لوگ دربدر ہوگئے، پینے کے پانی کی بوند بوند کو ترستا بلوچستان پانی برد ہوگیا۔ بلوچستان کا چپہ چپہ پانی ہی پانی بن گیا۔ دیہی علاقوں میں مسلسل بارشوں کے پانی اور پہاڑوں سے آنے والے پانی نے ایک بڑے سیلابی ریلے کی صورت اختیار کرلی۔

اس پانی نے لوگوں کو گھروں سے نکلنے کا بھی موقع نہیں دیا، کئی لوگ گھروں میں پھنس گئے۔ جن کے پاس بیس بیس دنوں تک کا راشن بھی نہ تھا اور نہ ان کے پاس ادویات تھیں۔ متاثرین مر رہے تھے اور مرنے والوں کی لاشیں دفنانے کے لیے کوئی خشک جگہ نہیں بچی تھی۔

یہ قدرت کا ایک بڑا امتحان ہے، جس سے نکلنا انتہائی مشکل ہے۔ بلوچستان میں چھوٹی چھوٹی بستیاں تنکے کی طرح پانی بہاتی گئی اور نئی نئی داستانیں رقم کرتی گئی۔

بلوچستان کے لوگوں کا مال و متاع اور فصلوں کا نام و نشان تک سیلابی پانی نے نہیں چھوڑا۔ بلوچستان کے باسیوں کی پوری زندگی کی کمائی پانی برد ہو گئی۔

اور صرف ان لوگوں کے پاس آنسو بہانے کے سوا کچھ بھی نہیں بچا تھا اور جو لوگ سیلابی پانی سے بمشکل اپنی جان بچا کر محفوظ مقامات تک پہنچے تھے ان کو بیماریوں نے مار دیا۔ لوگ محفوظ مقامات تک پہنچے تو کھانے پینے کی اشیاء ناپید ہوگئیں، لوگ بھوک سے مرنے لگے۔ بیماریوں نے ان کی پناہ گاہوں میں ڈیرے ڈال لیے۔

مسلسل دو ماہ تک بلوچستان کے سیلاب متاثرین کسی فرشتے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے لیکن راستے بند ہونے کی وجہ سے مخیر حضرات، این جی اوز اور فلاحی اداروں کے لوگ بلوچستان تک نہ پہنچ سکے، تو بیماریوں نے سیلاب متاثرین نے کا رخ کرلیا۔

مچھروں کی افزائش نسل کے باعث ملیریا بے قابو ہوگیا، بچے بڑے مرنے لگے، بچوں کا دودھ نایاب ہونے لگا، کھانے پینے کی اشیاء ناپید ہونے لگیں۔ متاثرین بھوکے پیاسے مرنے لگے۔

جب بھوک، پیاس اور بیماریوں نے پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو اس وقت مملکتِ خداداد کے سپہ سالار، وزیر اعظم ، وزیراعلیٰ اور وزیروں نے بلوچستان کا رخ کیا۔

ہوائی دورے ہونے لگے۔ آآ کر دوربینوں سے متاثرین کو دیکھنے لگے بڑے بڑے دعوے کیے گئے، مگر پھر بھی متاثرین تک سامان نہ پہنچ سکا۔

ملک بھر میں خدمت کرنے والی تنظیمیں چندہ اکھٹا کرنے میں مصروف ہوگئیں، بعض لوگ امدادی سامان سے اپنے ویئر ہاؤس بھرنے لگے۔ مخیر حضرات خدمت کرنے والی تنظیموں کو لاکھوں روپے چندہ دیتے رہے مگر بلوچستان کی سر زمین پر موت کا رقص جاری رہا۔ نہ بلوچستان کو زمینی راستوں سے امداد مل رہی تھی، نہ فضائی راستوں سے۔ بس مقامی سطح پر لوگ ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے۔

مسلسل بارشوں نے بلوچستان کا نقشہ بگاڑ دیا تو اس وقت دنیا کے سب سے بڑے ادارے کو ہوش آیا۔ اس وقت تک بلوچستان میں سیلاب گھروں کو ملیامیٹ کرکے آگے بڑھ چکا تھا۔ اس وقت اقوام متحدہ کے سربراہ بلوچستان آئے، انہوں نے سیلابی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بلوچستان میں اس وقت عملی کام کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے۔

ایمرجینسی بنیادوں پر عملی کام کی ضرورت ہے۔ مسلسل چار مرتبہ وزیر اعظم پاکستان کے دورے نے بھی بلوچستان کے متاثرین کی داد رسی نہیں کی تو بھلا اقوام متحدہ کے سربراہ کیا مار لیتے۔

بلوچستان میں سیلاب ہر چار پانچ سال کے بعد آتا ہے لیکن اس سے نمٹنے کے لیے آج تک کوئی حکمت عملی کیوں نہیں بنائی گئی؟ شاید اسی وجہ سے کہ سیلاب کے نام پر اربوں کھربوں روپے اعلیٰ حکام کو ملتے ہیں، متاثرین کو بس ایک ماہ تک کا راشن مل جاتا ہے اور سیلاب ان کو بیس سال پیچھے دھکیل دیتا ہے۔

سیلاب متاثرین کے ریلیف کا سامان ایم پی اے، ایم این الیکشن سے پہلے اپنے اپنے ووٹروں کو دیتے ہیں تاکہ وہ لوگ ووٹ انہیں کو دیں۔ ان متاثرین کے گھر دوبارہ سرداروں، میروں، پیروں، ایم پی ایز اور ایم این ایز کے دیے گئے قرضوں سے بن جاتے ہیں، پھر یہ لوگ پوری زندگی قرض چکانے اور غلامی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، اور اپنے آقاؤں کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے زندگی وار دیتے ہیں۔

بلوچستان میں گزشتہ بیس سال سے سیلاب اور خشک سالی کا راج چل رہا ہے۔ خشک سالی تب ہوتی ہے جب مراعات یافتہ طبقے کے لوگ غریب کاشت کاروں کے فصلیں کاشت کرنے کے لیے پانی کے حصول کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔

سیلاب تب جنم لیتے ہیں جب ان امیروں ک فصلیں ڈوب رہی اور ان کے بنائے گئے ڈیم ٹوٹ رہے ہوں تو یہ لوگ خود کو بچانے کے لیے بلوچستان کے غریب عوام کو پانی میں ڈبو دیتے ہیں۔

آج سے چالیس سال پیچھے چلے جائیں تو بلوچستان میں سیلابی پانی سے اتنے نقصانات نہیں ہوتے تھے جتنے نقصانات آج کل ہوتے ہیں۔ حالیہ بارشوں سے پورا بلوچستان پانی برد ہو گیا ہے اس کی وجہ سیلابی پانی کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہیں، اس پانی کے سارے قدرتی راستے بند کردیے گئے ہیں، ان راستوں پر زمینیں آباد کردی گئی ہیں یا پھر گھر بنا کر بند باندھے گئے ہیں۔

سیم نالوں کی مد میں اربوں کھربوں روپے خرچ کر دیے گئے لیکن وہ سیم نالے عوام کو پانی میں ڈبو دیتے ہیں۔ موجودہ حکومت ہو یا پچھلی حکومت کسی نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی کہ آخر ان سیلابی پانی سے کیسے بچا جائے، سیلابی پانی کو کیسے راستہ دیا جائے، ڈیم بنا کر سیلابی پانی سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے، سیلابی صورت حال سے کیسے عوام کو نکالا جائے۔

یہ وقت گھر بیٹھنے کا نہیں سوچنے کا وقت ہے یہ وقت اے سی کے کمروں سے نکل کر متاثرین کی مدد کرنے کا ہے تاکہ افلاس کے گڑھے میں گرے ہوئے طبقے کو مزید گرنے سے روک کر سنبھالا جاسکے۔

حالیہ سیلاب میں خریف کی فصلیں مکمل ڈوب جانے سے بلوچستان کا زرعی شعبہ مفلوج ہو گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آٹھ لاکھ ایکڑ رقبے پر چاول اور خریف کی دیگر فصلیں مکمل طور پر ڈوب چکی ہیں۔ زراعت کو سہار ا دینے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔

ربیع کی فصل کے لیے کاشت کاروں کو فوری طور پر گندم اور سرسوں کے بیج کی مفت فراہمی کی ضرورت ہے۔ بارشوں اور سیلاب نے زراعت کے انفرااسٹرکچر کو بری طرح متاثر کیا ہے، لاکھوں ایکڑ پر خریف کی کھڑی فصلیں پانی میں ڈوب چکی ہیں، کروڑوں روپے کے زرعی اخراجات پانی کی نظر ہوگئے ہیں۔

اس وقت کسان اور کاشت کار مالی بحران کا شکار ہوگئے ہیں۔ فوری ریلیف نہ ملا تو بلوچستان کے گرین بیلٹ کے مزید اُجڑ جانے کا اندیشہ ہے، جس سے صوبے میں غذائی بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اس وقت زرعی شعبے کی بحالی کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

بلوچستان کے نہری نظام کی اصلاح کے لیے فول پروف سیکیوریٹی کی فراہمی سمیت مین کینال اور ذیلی شاخوں کے پشتے مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

آر بی او ڈی پاکستان کا میگا پراجیکٹ ہے۔ تاہم اس منصوبے کی تیکنیکی خرابیوں کے سبب سیم نالوں سے پانی کے اخراج کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ بلوچستان کے کاشت کاروں کو پنجاب کی طرز پر سولہ ایکڑ کے حساب سے ربیع کی فصلیں کاشت کرنے کے لیے مفت کھاد اور بیج دیے جائیں، زرعی ان پُٹس کی مد میں سبسڈی دی جائے اور یہ کام ربیع سیزن شروع ہونے سے قبل مکمل کیا جائے، تاکہ بروقت کاشت ممکن بنائی جا سکے۔

اس وقت بلوچستان میں سیلاب متاثرین کی آبادکاری کے لیے جامع منصوبہ بنایا جائے اور سیلابی گزرگاہوں سے رکاوٹیں ہٹائی جائیں رائٹ بنک آؤٹ فال ڈرینج سسٹم (آر بی او ڈی) کے نامکمل سیم نالوں کو منصوبے کے مطابق مکمل کیا جائے۔

اس وقت ضلع اوستہ محمد اور تحصیل گنداخہ میں سیلاب متاثرین کی مشکلات کم نہ ہوسکیں بھوک اور بیماریوں کے ہاتھوں شرح اموات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہونے لگا۔ چاروں طرف پانی میں گھرے متاثرین سیلاب کو وبائی امراض نے گھیر لیا ہے ملیریا ڈینگی بخار،گیسٹرو اور جلدی بیماریاں عام ہوگئی ہیں۔

ایک ہفتے کے دوران ڈیڑھ درجن افراد جان کی بازی ہار گئے مرنے والوں میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے جب کہ شہر میں ملیریا سے بچاؤ کی ادویات ناپید ہوچکی ہیں، ملیریا کنٹرول پروگرام بھی بظاہر ناکام نظر آرہا ہے۔

مقامی اسپتالوں میں ملیریا ڈینگی اور گیسٹرو کے مریضوں کا رش بڑھنے سے او پی ڈی پر شدید دباؤ ہے، وارڈوں میں جگہ کم پڑگئی ہے۔ زیادہ تر مریض اسپتال کے کوریڈور اور کھلے مقامات پر پڑے ہیں قبرستانوں سمیت ہر جگہ پانی ہی پانی ہے۔ گنداخہ میں میتوں کی تدفین بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے اپنے پیاروں کو دفنانے کے لیے لوگوں کو میلوں دور خشک جگہ کی تلاش میں میتیں لے جانا پڑ رہی ہیں۔

اس وقت شدید ضرورت ہے کہ ضلع اوستہ محمد کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں حاملہ خواتین کے لیے طبی سہولیات فراہم کی جائیں، سہولیات فراہم نہ کی گئیں تو خواتین کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

عالمی اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت بلوچستان سمیت ملک بھر میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں حاملہ خواتین کی تعداد ایک لاکھ اڑتیس ہزار ہے جن میں سے چالیس ہزار خواتین کے ڈیلیوری کیسز رواں ماہ ہوں گے جس کے لیے ادویات اور خوراک کی اشد ضرورت ہوگی۔ اس وقت ضلع اوستہ محمد اور ملحقہ علاقوں میں آٹھ لاکھ ایکڑ رقبے پر کاشت چاول سمیت خریف کی فصلیں زیرآب آچکی ہیں ہر طرف پانی ہی پانی ہے، کچے مکانات مکمل طور پر منہدم ہو چکے ہیں۔

انتظامیہ نے سیلاب متاثرین کو فوری ریلیف اور شلٹرز کی فراہمی کے لیے اسکولوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ تاہم ہزاروں کی تعداد میں سیلاب متاثرین نے بے سروسامانی کے عالم میں سڑکوں کے کنارے کھلے آسمان تلے ڈیرے ڈال ہوئے ہیں جہاں انہیں شدید موسمی حالات کا سامنا ہے۔

اس سب کے دوران ایسے افسوس ناک واقعات بھی پیش آرہے ہیں جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

مثال کے طور پر کیٹل فارم تھانے کی حدود میں پولیس کا ہاتھوں ایک نوجوان کی ہلاکت کا سانحہ۔ وہ بھوکے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے گھر سے نکلا تھا کہ راشن کی تقسیم کے دوران بدنظمی کو جواز بنا کر پولیس نے سیلاب متاثرین پر فائرنگ کردی جس سے اس نوجوان کی جوانی کا چراغ گل ہوگیا۔ کیا بدنظمی کو جواز بناکر کسی انسان پر گولی چلائی جا سکتی ہے؟ اس نوجوان کی لاش یہ سوال ریاست سے پوچھ رہی ہے۔

آج کل سیلاب متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ متاثرین گھروں سے محروم ہیں، سڑکیں ان کی پناہ گاہ بنی ہوئی ہیں، کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں، اور اب سردیاں آ رہی ہیں، اور موسم کروٹ بدل رہا ہے، جس سے متاثرین سیلاب کی مشکلات مزید بڑھ رہی ہیں۔

ایسے میں ان کی مشکلات دور نہ کی گئیں تو مزید کتنی ہی جانیں ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔