خوراک کی کمی کا خطرہ 

زمرد نقوی  پير 24 اکتوبر 2022
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

گزشتہ ہفتے خوراک کا عالمی دن منایاگیا عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں شدید بھوک غذااور غذائیت کی کمی دنیا کے مختلف حصوں میں روزمرہ کا معمول ہے۔

یہ تعدادکوئی چھوٹی موٹی نہیں دنیا کی آبادی کا ایک بڑاحصہ بھوک کے عذاب سے گذررہاہے، پیٹ بھروں کوکیا پتہ کہ بھوکا رہنا کیا ہوتا ہے اور بھوکا رہ کرپوری رات گزارنا کیسا عذاب ہے۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہناہے کہ پوری دنیا میں ہررات تقریباً 82کروڑافراد بھوکے سوتے ہیں اور 34کروڑ شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کررہے ہیں۔ اب یہ تعدادمجموعی طورپر کتنی ہوگی خود ہی گنتی کرلیں۔

ایک عالمی نشریاتی ادارے نے دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات کی۔ جنھوں نے شدید بھوک کا تجربہ کیا اور پوچھا کہ وہ کیسے زندہ بچ گئے۔

جنوبی انڈیا سے تعلق رکھنے والی رانی کہتی ہیں کہ میں بچپن سے ہی چوہے کھاتی رہی ہوں میں اپنی دوبرس کی پوتی کو بھی چوہے کھلاتی ہوں۔ وہاں کے عوام دھان کے کھیتوں میں پائے جانے والے چوہوں کی ایک خاص قسم کھاتے ہیں جوعام طور  پر گھروں میں پائے جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ صومالیہ کوتباہ کن قحط سالی کا سامنا ہے اور وہاں چالیس سال کی بدترین خشک سالی نے دس لاکھ سے زائد افرادکو بے گھرکردیاہے۔ سات بچوں کی ماں چالیس برس کی شریفو بے گھرہونے والوں میں سے ایک ہے۔

وہ کہتی ہے کہ سفرکے دوران ہم نے دن میں صرف ایک بار کھانا کھایا۔ جب زیادہ کھانا نہیں تھاتوہم نے بچوں کو کھلایا اورہم بھوکے رہ گئے۔ گزشتہ دوبرس سے سائوپائولو سے تعلق رکھنے والی 63برس کی دادی مقامی قصابوں کی طرف سے ضایع کی گئی ہڈیاں اورکھال کھارہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کے فریج میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے سائو پائولو برازیل میں واقع ہے اوربرازیل میں 3کروڑ 30لاکھ افراد فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب کہ اس کی آبادی پاکستان سے کم ہے۔ اللہ نہ کرے ہمیں بھی قحط سالی کا سامنا کرناپڑے آثارتوایسے ہی نظرآرہے ہیں جس کا آغاز اگلے سال جنوری سے مارچ کے درمیان شروع ہوسکتاہے کیونکہ سیلاب نے ہماری 40فیصد زرعی فصلوں کاصفایاکردیاہے۔

برازیل دنیا کی بڑی معیشت G-20میں شامل ہے۔ اس کا GDPڈیڑھ ہزار ارب ڈالرہے۔ یہ ہے عظیم سرمایہ دارانہ نظام کی شاہکار جمہوریت جس میں آزادی اظہارکو بھونکنے کی آزادی ہے۔ چاہے انسانوں کو اپنا پیٹ بھر نے اوربھوک مٹانے کے لیے چوہے ہی کیوں نہ کھاناپڑیں۔

صرف اس آزادی اظہار کے حصول کے لیے اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈپروگرام کے مطابق ایک ارب سولہ کروڑافراد روزانہ بھوکے سوتے اورغذائی عدم تحفظ کا شکارہیں۔ یہی فرق ہے سوشلسٹ نظام اورسرمایہ دارانہ نظام میں کہ وہاں روزگاراوربھوکا نہ رہنے کی ضمانت ہے۔ جب کہ سرمایہ دارانہ نظام میں جو پاکستان میں بھی رائج ہے روزگارریاست کی ذمے داری نہیں ہے چاہے عوام بھوکے مریں۔

کوئی بھی ایسانظام جس سے سرمایہ دارانہ نظام کو خطرہ ہو پوراعالمی سامراج اس کو نیست ونابود کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتاہے۔ ماضی میں سوویت یونین کی سوشلسٹ ریاست کے ساتھ بھی ایساہی ہوا کہ اس نظام کے خاتمے کے لیے ہرطرح کی بیرونی اوراندرونی سازشیں وہاں کی عوام دشمن اشرافیہ کے ساتھ مل کر مدتوں کی گئیں۔ چنانچہ وہاں سوشلسٹ انقلاب کو بچانے کے لیے جبرکاسہارا لینا پڑا۔

جتنی بڑی سازشیں اتنا ہی بڑا جبر، ردعمل کی صورت میں سامنے آیا۔ حالانکہ اس جبرکاذمے داربھی بالواسطہ طورپر عالمی سامراج ہی ہوتاہے۔ عالمی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ لیکن امریکااپنے سامراجی مفادات کے لیے ہر قانون سے بالاترہے۔

ماضی میں اس کی بہت سے مثالیں ہیں، تازہ ترین مثال روس یوکرین جنگ ہے جس میں امریکا نے روس سے کیے گئے ہروعدے عہدکوتوڑا۔ سونے پرسہاگا اپنے سامراجی میڈیاکے ذریعے جس کا پوری دنیا کے میڈیا پر کنٹرول ہے۔ دن رات بے پناہ خوفناک پروپیگنڈے کے ذریعے مظلوم کوظالم قراردینا امریکا کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

بے چارے دنیا کے سادہ لوح عوام کوکیا پتہ کہ اصل میں سچ کیاہے۔ جب پتہ چلتاہے اس وقت تک امریکا اپنی واردات میں کامیاب ہوچکا ہوتا ہے۔ اس واردات میں لاکھوں لوگوں کا قتل عام اور کھربوں ڈالرکی تباہی معمولی بات ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔