ڈینگی کے تدارک کیلئے سماجی رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 24 اکتوبر 2022
 ’’ڈینگی کی موجودہ صورتحال اور حکومتی اقدامات ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

’’ڈینگی کی موجودہ صورتحال اور حکومتی اقدامات ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

گزشتہ کئی برسوں سے ملک کو ہر سال ڈینگی کی صورت میں ایک چیلنج کا سامنا ہوتا ہے جس سے نمٹنے کیلئے اقدامات کیے جاتے ہیں اور لوگوں کی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے ساتھ ساتھ، ان کے علاج معالجے کی سہولیات کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔

رواں برس کی بات کریں تو وطن عزیز کو پہلے سیلاب اور اب ڈینگی کا سامنا ہے۔ سیلاب نے ملک کو بدترین انداز میں متاثر کیا، جس سے وسائل کا نقصان بھی ہوا۔ متاثرہ علاقوں میں مختلف امراض بھی حکومت کیلئے ایک چیلنج ہے جبکہ اب ڈینگی عوام کی صحت اور زندگی کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔

یہ بات تشویشناک ہے کہ تاحال سیلاب کا پانی مختلف علاقوں میں کھڑا ہے جو ڈینگی کے پھیلاؤ میں خطرناک حد تک اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر عوام کے ذہنوں میں بیشتر سوالات جنم لے رہے ہیں اور وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس وقت ڈینگی کی کیا صورتحال ہے؟ یہ کس حد تک خطرناک ہے؟ سیلاب کے باعث اس میں کتنا اضافہ ہوسکتا ہے؟ مہنگائی کے دور میں صحت کی سہولیات کیسی ہیں؟ حکومت کی ڈینگی سے نمٹنے کیلئے تیاری کیسی ہے؟ کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟ طبی ماہرین اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ سول سوسائٹی کیا کام کر رہی ہے؟

اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ’’ڈینگی کی موجودہ صورتحال اور حکومتی اقدامات ‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، شعبہ صحت اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

عاصم رضا (ایڈیشنل سیکرٹری ورٹیکل پروگرام محکمہ صحت پنجاب)

ڈینگی کے حوالے سے الارمنگ صورتحال نہیں ہے بلکہ ماضی کی نسبت ڈینگی قابو میں ہے۔ گزشتہ برس ڈینگی کے 26238 کیسز سامنے آئے اور 166 اموات ہوئی جبکہ رواں برس تاحال 11808 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور صرف 13 اموات ہوئی ہیں جس سے صورتحال کی بہتری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ا س کے باوجود حکومت اور محکمہ صحت ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے تاکہ کوئی بھی قیمتی جان ضائع نہ ہو۔ ہمارے پاس صحت اور علاج معالجے کی سہولیات بھی ضرورت سے زائد ہیں۔

سرکاری ہسپتالوں میں 3395 بیڈز ڈینگی کیلئے مختص ہیں جن میں سے صرف 1038 بیڈز پر ڈینگی کے مریض موجود ہیں باقی بیڈز خالی ہیں۔ نجی ہسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کیلئے20 فیصد بیڈز مختص کرنے کی تجویز زیر غور تھی تاہم ہیلتھ کارڈ میں ڈینگی کا علاج شامل کرنے سے اب نجی ہسپتالوں میں بھی ڈینگی کا مفت علاج ہورہا ہے، اب جتنے بھی مریض ہونگے، نجی ہسپتال ان کا علاج کریں گے۔ 2010ء کے بعد اس سال ہم نے بدترین سیلاب دیکھا ہے جس سے ڈیرہ غازی خان، راجن پور سمیت بے شمار علاقے پانی میں ڈوب گئے۔ سیلاب کی وجہ سے ڈینگی میں شدید اضافے کا خطرہ تھا۔

ہمیں تشویش تھی کہ اگر خدانخواستہ وہاں سے ڈینگی پھیل گیا تو یہ ملکی تاریخ کا بدترین پھیلاؤ ہوگا جس پر قابو پانا ایک سنگین چیلنج ہوگا لیکن اللہ کے فضل و کرم سے سیلاب زدہ علاقوں میں ڈینگی کی شرح انتہائی کم جبکہ لاہور، گوجرانولہ، راولپنڈی، ملتان، شیخوپور ہ سمیت شہری گنجان آباد علاقوں میں ڈینگی کے کیسز زیادہ ہیں۔ ڈینگی پر حکومت کی خصوصی توجہ ہے۔ گزشتہ ڈھائی ماہ میں وزیراعلیٰ پنجاب ڈینگی پر چار میٹنگز کر چکے ہیں۔ کابینہ کمیٹی کی بھی 3 اعلیٰ سطحی میٹنگز ڈینگی پر ہوئی ہیں۔

اس کے علاوہ تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز سمیت متعلقہ افسران کی 18 میٹنگز، جبکہ ڈسٹرکٹ اور تحصیل لیول پر اب تک ہزاروں میٹنگز ہوچکی ہیں۔ ان تمام میٹنگز میں نہ صرف اقدامات کا جائزہ لیا جاتا ہے بلکہ کارکردگی کو بہتر بنانے اور کام کو مزید موثر کرنے کیلئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ یہ بات توجہ طلب ہے کہ ہم نے صرف میٹنگز ہی نہیں کی بلکہ عملی طور پر کام بھی کیا ہے۔ ڈینگی کے تدارک اور روک تھام کیلئے ہم نے 90.6 ملین انڈور، 22.8 ملین آؤٹ ڈور جبکہ 34.5 ملین ہاٹ سپاٹ کی سرویلنس کی ہے۔ 3.6 ملین لارووا تلف کیے ہیں، 80 ہزار مقامات پر فوگنگ کی ہے۔

ہم ڈینگی کے حوالے سے آگاہی دینے کیلئے بھی خصوصی کام کر رہے ہیں، اب تک 19ہزار 518 آگاہی سیمینارز، 33 ہزار 865 کمیونٹی آگاہی سینشز، 36 ہزار آگاہی واکس منعقد کی اور 3.18 ملین پمفلٹ تقسیم کیے جبکہ ٹی وی اور اخبارات کے اشتہارات الگ ہیں۔ ہم محدود حکومتی وسائل کے اندر رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اقدامات کر رہے ہیں۔بیماری کی نوعیت ایسی ہے جس میں ہر فرد کا کردار اہم ہے۔ ہم اپنا کام کر رہے ہیں، ہر شہری کو اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔

پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم ( سابق وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز )

ڈینگی لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی ٹوٹنے پھوٹنے کے ہیں۔ ڈینگی میں بھی جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے۔ ڈینگی دنیا میں نیامرض نہیں ہے بلکہ یہ 140 سال پرانا ہے۔ 1980ء میں یہ پہلی مرتبہ بنکاک سے استعمال شدہ ٹائروں کی امپورٹ کے دوران پاکستان پہنچا، کراچی پورٹ پر اس کے کیسز سامنے آئے اور آج تک ہم اس سے متاثر ہورہے ہیں۔ دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد ڈینگی متاثرہ علاقوں میں رہتا ہے۔ ڈینگی اس وقت 143 ممالک میں موجود ہے اور کوئی بھی ملک اس کا خاتمہ نہیں کرسکا۔

الحمداللہ! ہم مسلمان ہیں اور صفائی ہمارے لیے نصف ایمان ہے لہٰذا ہم صفائی کو اپنا کر اس بیماری سے نہ صرف بچ سکتے ہیں بلکہ اس کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ ڈینگی مادہ مچھر سے پھیلتا ہے، ایک چمچ پانی اس کے انڈے دینے کیلئے کافی ہوتا ہے لہٰذا اپنے گھر، محلے اور کام کی جگہ کو صاف رکھیں، پانی کھڑا نہ ہونے دیں، اس سے ڈینگی سمیت بیشتر بیماریوں کا خود بخود خاتمہ ہوجائے گا۔ گزشتہ ادوار میں جب ڈینگی زیادہ تھا تو اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا، روزانہ میٹنگز ہوتی تھی اور اقدامات کی رپورٹ لی جاتی تھی ،جنگی بنیادوں پر اقدامات سے ڈینگی کی روک تھام ممکن ہوئی۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی حکومت اکیلے ڈینگی کا خاتمہ نہیں کرسکتی، یہ بیماری سماج سے منسلک ہے لہٰذا جب تک ہم اجتماعی طور پر کام نہیں کریں گے، اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لائیں تک تب مسائل کا سامنا رہے گا۔ ڈینگی کے حوالے سے مقامی سطح پر ریسرچ کی بہت ضرورت ہے۔ یہاں ریسرچ کلچر کو فروغ دیا جائے، مقامی سطح پر ہونے والی ریسرچ سے فائدہ اٹھایا جائے، کمیٹیوں میں ہائی امپیکٹ فیکٹر والے ڈاکٹرز اور ریسرچرز کو شامل کیا جائے، ان کی سفارشات پر عمل کیا جائے اور موثر حکمت عملی بنا کر آگے بڑھا جائے۔

ہماری ایک ریسرچ کے مطابق ہمارے ہاں ڈینگی سے مرد زیادہ متاثر ہوئے۔ خواتین میں یہ مرض کم پایا گیا ہے، ا س کا مطلب یہ ہے کہ گھروں میں صفائی ہے لیکن کام کی جگہ پر صفائی کے مسائل ہیں، کنسٹرکشن سائٹس پر کام کرنے والوں میں بھی ڈینگی زیادہ پایا گیا لہٰذا ہمیں ان ایریاز کو بھی دیکھنا ہوگا۔ ڈینگی کے حوالے سے 32 محکموں کی ذمہ داری بنتی ہے، سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، اداروں کے مابین مثالی روابط کو فروغ دینا ہوگا۔

ڈاکٹر عامر مفتی (ڈائریکٹر سی ڈی سی و پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈینگی کنٹرول پروگرام محکمہ صحت پنجاب)

ڈینگی سب کا مسئلہ ہے لہٰذا اس پر آنکھیں بند کر کے کوئی بھی نہیں بچ نہیں سکتا۔ سب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر ان کے گھر یا علاقے میں ڈینگی پیدا ہوا تو اس سے وہ خود بھی متاثر ہونگے لہٰذا اپنا گھر، محلہ و ارد گرد کا ماحول صاف رکھیں۔ صفائی کو فروغ دیں اور احتیاطی تدابیر لازمی اختیار کریں۔

ڈینگی کے حوالے سے موبائل میسجز، رنگ ٹونز، کالر ٹونز، پمفلٹ، ٹی وی اور اخباری اشتہارات کے ذریعے لوگوں کو آگاہی دی جا رہی ہے، ا سکے علاوہ آگاہی واکس، سیمینارز و دیگر پروگرام بھی منعقد کیے جا رہے ہیں جن سے خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے۔ ڈینگی کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے لوگ ڈینگی ٹیموں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے، سروے ٹیم کو گھر میں داخل نہیں ہونے دیتے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ حکومت اور ماہرین کی بتائی گئی احتیاطی تدابیر بھی اختیار نہیں کرتے جو افسوسناک ہے۔

آگاہی، احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ ڈینگی کا بروقت علاج ہونا بہت ضروری ہے، اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ ڈینگی کا مکمل علاج سرکاری ہسپتالوں میں مفت ہے جبکہ نجی لیبارٹریوں میں بھی ٹیسٹ کی فیس مقرر ہے۔ جس گھر سے ڈینگی برآمد ہو ، اس کے اردگرد گھروں میں بھی سرویلنس کی جاتی ہے۔

رواں سال پہلے کی نسبت ڈینگی کے کیسز کم ہوئے ہیں جبکہ اموات بھی بہت کم ہوئی ہیں۔ ہم اپنی ٹیموں کی بہترین تربیت کرتے ہیں، ماہرین کے ساتھ ان کا انٹریکشن کرواتے ہیں، تاکہ کارکردگی بہتر بنائی جاسکے۔ کنسٹرکشن سائٹس، و دیگر کاروباری مقامات سمیت دیگر جگہوں پر ڈینگی احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی کرنے اور لارووا ملنے پرایف آئی آر بھی درج کروائی جاتی ہے۔

عبداللہ ملک (نمائندہ سول سوسائٹی)

ڈینگی جیسے مسائل کے تدار ک میں سول سوسائٹی کا کردار ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ ڈینگی سب کا مسئلہ ہے لہٰذا کمیونٹی کی سطح پر تندہی سے کام کرنا ہوگا۔ اس کے حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلائی جائے، تعلیمی اداروں میں آگاہی پروگرامز کیے جائیں اور طلبہ کو کمیونٹی سروس کے لیے تیار کیا جائے۔

بطور نمائندہ سول سوسائٹی ہمیں جوڈیشنل ایکٹیوزم کی وجہ سے سماجی مسائل پر آواز اٹھانے اور حل کرنے میں مدد ملی۔ اس وقت بھی ڈینگی کے حوالے سے ہم نے عدالتی رٹ کر رکھی ہے۔ اس پر سیکرٹری ہیلتھ سے میٹنگ بھی ہوئی ہے، امید ہے ڈینگی کے حوالے سے اقدامات میں مزید بہتری آئے گی۔ مہنگائی کے اس دور میں علاج لوگوں کیلئے مشکل ہے۔

ڈینگی کے حوالے سے ٹیسٹ کے ریٹس کم ہونے چاہئیں۔ تمام مریضوں کا بروقت اور مکمل علاج یقینی بنایا جائے۔ گورننس کے مسائل کی وجہ سے موثر طور پر پالیسیوں پر عملدرآمد نہیں ہو پاتا۔ آئین کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق حکومتیں پابند ہیں کہ وہ مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرے، اس سے مقامی سطح پر ہی ڈینگی جیسے مسائل کا خاتمہ کر لیا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے لوکل باڈیز سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں مسائل کا سامنا ہے، ڈینگی کے حل کیلئے کمیونٹی بیسڈ حل کی طرف جانا ہوگا۔ 1983ء سے اب تک ہم ڈینگی سے متاثر ہورہے ہیں، 2010ء سے 2013ء تک حالات سنگین رہے، اموات بھی زیادہ ہوئی۔ ڈینگی کے تدارک کے لیے انفرادی، سماجی اور حکومتی سطح پر اقدامات کرنا ہونگے، اداروں کو کمیونٹی کے درمیان روابط اہم ہیں، مل کر کام کرنا ہوگا۔

ڈینگی کے تدارک کیلئے سپرے لازمی ہونا چاہیے۔ ڈینگی کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے لوگ سروے ٹیم سے تعاون نہیں کرتے، اس کی وجہ سے اعتماد کا فقدان ہوتا ہے لہٰذا اگر ڈینگی ٹیم کا یونیفارم بنا دیا جائے تو اس سے فائدہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔