جمہوریت کا بہروپ

نواز حسین عسکری  بدھ 26 اکتوبر 2022
ہمارے ملک میں جمہوریت کبھی بھی اپنے حقیقی روپ میں نہیں آئی۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے ملک میں جمہوریت کبھی بھی اپنے حقیقی روپ میں نہیں آئی۔ (فوٹو: فائل)

1530 میں بابر کی موت کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں ہندوستان کا بادشاہ بنا۔ بادشاہ بننے کےلیے اس کے کچھ بھائیوں نے مدد کی اور کچھ کے ساتھ جنگ ہوئی۔ خلیل مرزا کو خراج تحسین پیش کرنے کےلیے اس کا مزار ہمایوں نے شروع کروایا۔ مگر پھر شیر شاہ سوری نے جنگ میں اسے شکست دی اور سب سے پہلے جاری پراجیکٹ پر کام رکوایا۔ ہمایوں فارس چلا گیا، جہاں سے اس نے فوج اکٹھی کی اور کچھ منصوبہ بندی کرکے 1555 میں عادل شاہ سوری کو ہرایا اور تخت پر قبضہ کرلیا۔ عادل شاہ اس جنگ میں مرگیا اور اس کے ساتھ کچھ گناہگار اور بے گناہ بھی مارے گئے۔ کچھ فصلیں بھی تباہ ہوئیں اور املاک کا نقصان بھی ہوا۔

اسی طرح شاہ جہاں کے چار بیٹوں میں اقتدار کےلیے جنگ ہوئی۔ باپ کو بیٹے نے قید کروا دیا اور بھائیوں کے ساتھ جنگ کی۔ کئی جانیں ضائع ہوگئیں۔ کئی فصلیں تباہ ہوئیں۔ درست یا غلط کی بحث سے دور، دارا شکوہ پر مرتد ہونے کا الزام بھی لگا اور اسے بھی مروا دیا گیا۔ اورنگزیب تخت نشین ہوگیا۔ 50 برس تک حکمران رہا۔ کام اچھے کیے یا برے، یہ موضوع بحث نہیں۔ اس کو کیسے ہٹایا جائے؟ اس کےلیے طاقت چاہیے۔ جنگ کرنی پڑے گی، جس میں جانی و مالی نقصان ہوگا اور ملک میں بدامنی بھی پھیلے گی۔

کیا ایسا صرف مغلیہ خاندان میں ہوا؟ نہیں ایسا نہیں بلکہ یورپ، ترکی، ایران اور افغانستان سمیت سب جگہوں پر یہ ہی ہوا۔ تمام بادشاہوں، حکمرانوں اور سلطانوں کے جانے کے بعد اسی طرح جنگیں ہوتیں اور طاقتور بادشاہ بن جاتا۔ تخت نشینی کے بعد زیادہ وقت دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے، ان کے خلاف سازشیں کرنے اور بغاوتوں کو کچلنے میں لگ جاتا۔ ان بغاوتوں اور سازشوں میں جو کامیاب ہوجاتا، حکومت کرتا اور جو کمزور ہوتا وہ کسی دوسرے علاقے میں بھاگ جاتا، منصوبہ بندی کرتا، سازش کرتا، بادشاہ کے بندے اپنے ساتھ ملاتا اور کسی مناسب وقت پر اپنی قوت دکھا دیتا۔ پھر سے مقابلہ ہوتا۔ مضبوط جیت جاتا، کمزور ہار جاتا۔ اس طرح حکومتیں چلتی رہتیں۔

حکمران سارا وقت ان سازشوں اور خطرات سے نمٹنے میں لگا دیتے اور اپنے عوام کی فلاح کےلیے کچھ نہ کرپاتے۔ عوام کی فلاح کسی کو مقصود تھی نہ ان کی صحت، تعلیم و تربیت۔ کیونکہ ان لوگوں کی وجہ سے نہ وہ حکمران بنے تھے اورنہ ہی ان کی خوشحالی اقتدار کو دوام بخش سکتی تھی۔ اس لیے عوام ثانوی نہیں بلکہ آخری ترجیح ہوتے تھے۔

ضرورت ایجاد کی ماں کے مصداق، لوگوں نے اس کے حل میں جمہوریت کو جنم دیا۔ آئین اور انتخابات کی صورت میں جمہوریت کی شاخیں نکلیں اور آئین میں حکمران بنانے اور نکالنے کے طریقے لکھے گئے تاکہ ایک مخصوص طریقہ کار کے مطابق حکمران آئے اور ایک خاص مدت کے بعد چلا جائے۔ اس مدت کے دوران بھی اسے ہٹانے کے طریقے لکھے گئے اور اس کی موت، استعفے اور بیماری کو بھی ملحوظ رکھ کر طریقے وضع کردیے گئے تاکہ لوگ جنگ وجدل کی نسبت اس طریقے پر عمل کریں۔ متعین وقت پر اپنے آپ کو وزارت و صدارت کےلیے پیش کریں۔ جیتنے والا عوام کی خدمت کرے اور ہارنے والا اگلے وقت کا امن اور چین کے ساتھ انتظار کرے تاکہ بدامنی سے بچا جاسکے۔ بے گناہوں کے خون سے فصلوں کی آبیاری کا سلسلہ بند ہوسکے۔

یہ تجربہ دنیا کے بہت سے ممالک میں کامیاب بھی ہوگیا مگر ہم جیسے آج بھی پرانے طریقے پر چل رہے ہیں کہ ایک شخص حکمران بنا تو مخالف امیدوار کو وہ اہل نہ لگا اور اس نے اپنی طاقت کےلیے دھرنے دیے اور جائز و ناجائز طریقے سے تخت پر بیٹھنے کی تگ و دو کی۔ ان دھرنوں اور جلسوں میں لوگ بھی مروائے اور املاک کا نقصان بھی ویسے ہی ہوا جیسا سیکڑوں سال پہلے بادشاہوں کی جنگ میں ہوتا تھا۔ اب پہلا حکمران، ایوان اقتدار سے نکل کر عوام میں نہیں بلکہ ملک سے باہر جاتا ہے جیسے ہمایوں اور دیگر بادشاہ جایا کرتے تھے۔ کسی ملک میں پناہ لینا، سیاسی چالوں، سازشوں، حریف کے بندہ حلیف بنا کر اور قوت دکھا کر دوسرے کو باہر نکالنا اب پہلے جیسا کام ٹھہرا۔ وہ ہی بدامنی، جلوس اور گھیراؤ جلاؤ۔

موت کا رقص اور بھوک کا ناچ ویسے ہی ہے جیسے بادشاہتوں کی جنگوں کےلیے پانی پت میں ہوتا تھا۔ بالکل ویسے ہی حالات۔ پچھلے پروجیکٹ بند کروانا۔ عوام کی فلاح کا سوچے بغیر سازشیں کرنا اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کےلیے کام کرنے کے بجائے دشمن کو ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا تو ملوکیت میں تھا۔

تو یہ آئین اور جمہوریت کا راگ کیوں؟ عوام کا پیسہ انتخابات کی مشق پر ضائع کیوں کیا جاتا ہے؟ جب انتخابات کے بعد دھاندلی کا شور ہی مچنا ہے تو الیکشن کمیشن جیسے ادارے کی کیا ضرورت ہے؟ پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی نہیں ہوسکتی تو اس بلڈنگ کو کسی اور کام کےلیے کیوں استعمال نہیں کیا جاسکتا؟

ہم کیوں جمہوریت کا لبادہ اوڑھنا چاہتے ہیں جبکہ حکومت تو جتھوں سے تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ جمہوریت نما بادشاہت یا بادشاہت نما جمہوریت میں باپ کے بعد اس کے بیٹے نے ہی تخت پر بیٹھنا ہے۔ حکومت سے نکل کر کسی دوسرے ملک میں ہی پناہ لینی ہے اور حکومت لینے کےلیے لوگ ہی مروانے ہیں۔ درختوں کو آگ بھی لگانی ہے اور املاک کو بھی نقصان پہنچانا ہے تو یہ انتخابات کا ڈرامہ کیوں؟ اس بدامنی میں عوام کےلیے کچھ ہے ہی نہیں تو کیوں نہ ہم جمہوریت کا ناٹک بند کرکے بادشاہ کے ذریعے اپنی قسمت آزمائی کرلیں یا ہم دنیا کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر جمہوریت کو اس کی روح کے مطابق لاگو کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔