کراچی کا کچرا؛ حل کیا ہے؟

راجہ کامران  جمعرات 27 اکتوبر 2022
کچرا صرف کراچی کا نہیں بلکہ دنیا کے بڑے شہروں کا بھی مسئلہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

کچرا صرف کراچی کا نہیں بلکہ دنیا کے بڑے شہروں کا بھی مسئلہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

کچرا اور فضلہ جدید انسانی زندگی کےلیے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس کچرے کو جمع کرنے اور انسانی فضلے کو ٹھکانے لگانے کےلیے بڑے بڑے انفرااسٹرکچر قائم کیے گئے ہیں۔ جس شہر کا کچرے کو ٹھکانے لگانے کا نظام جتنا بہترین ہے، وہ شہر اسی قدر ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔

مگر اب دنیا تیزی سے انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسے طرز زندگی کو اپنا رہی ہے جس میں ایسا کچرا پیدا ہی نہ کیا جائے جس کو ٹھکانے لگانے میں اخراجات ہوں۔ اس لیے دنیا بھر میں لوگ ایسا طرز زندگی اپنا رہے ہیں جس سے وہ کم سے کم یا صفر کچرا پیدا کرتے ہیں۔

مگر کیا کچرا یا فضلہ بھی فائدہ مند ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب ہے جی ہاں! اگر یہ کہا جائے انسانی فضلے کی قیمت 3 ڈالر کے مساوی ہے تو آپ کیا کہیں گے؟ اب جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے نہ صرف انسانی فضلے کو ایندھن میں تبدیل کیا جارہا ہے بلکہ ساتھ ہی پودوں کےلیے کھاد بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ کوریا کی ایک یورنیورسٹی میں انسانی فضلے سے بائیو گیس اور نباتاتی کھاد بنائی جارہی ہے۔

یورنیورسٹی میں ایک آزمائشی بیت الخلا بنایا گیا، جس میں ہر بار رفع حاجت کرنے والے طالب علم کو ڈیجیٹل یونٹس ملتے ہیں، جن کے ذریعے وہ اپنی کیٹین سے کافی کا ایک کپ خرید سکتا ہے۔ بیت الخلا کے نیچے انسانی فضلے کو ایک ٹینک میں جمع کرکے وہاں بیکٹیریاز کے ذریعے وہی عمل کیا جاتا ہے جو کہ جانوروں کے فضلے کو بائیو گیس میں تبدیل کرنے کےلیے کیا جاتا ہے۔ جس سے کینٹین میں کھانا پکانے کےلیے گیس دستیاب ہوتی ہے۔

اس پروجیکٹ کو ڈیزائن کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایک انسان دن میں 500 گرام تک فضلہ خارج کرتا ہے، جس سے کئی لیٹر میتھین گیس حاصل ہوتی ہے۔ اس گیس سے بنائی گئی بجلی سے ایک کار کو ایک کلو میٹر تک چلایا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے ماہرین کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ انسانی فضلے کی قیمت 3 ڈالر تک ہوسکتی ہے۔

دنیا بھر میں جامعات اور کاروباری ادارے مل کر اپنے اپنے شہروں کے مسائل کا حل نکال رہے ہیں۔ مگر پاکستان اور خصوصاً کراچی میں نہ تو جامعات شہر کے بڑے مسائل پر کوئی تحقیقی حل پیش کررہی ہیں اور نہ ہی ملکی کاروباری اور صنعتی برادری شہر کے مسائل کو حل کرنے کےلیے کوئی سرمایہ کاری کرنے پر تیار نہیں۔ مگر ایسا نہیں کہ ملک میں کہیں بھی کوئی بہتری نہیں ہورہی۔ پاکستان میں ہی سیالکوٹ کے تاجروں اور صنعت کاروں نے اپنے آلودہ شہر کو نہ صرف بہتر بنایا بلکہ جب ریاست انہیں فضائی انفرااسٹرکچر فراہم کرنے سے معذرت کی تو اپنا ایئرپورٹ اور ایئر لائن بھی بنا ڈالی۔

کراچی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دنیا کے چند بڑے شہروں میں شمار ہونے کے باوجود کچرا اٹھانے اور فضلے کو ٹھکانے لگانے کا نظام ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہوتا جارہا ہے۔ جس سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ شہری، حکومت اور بلدیاتی اداروں کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں کہ وہ انہیں سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ مگر یہاں کی صورتحال پر اکنامک انٹیلی جنس کی جاری رپورٹ کے مطابق یہ شہر دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابل رہائش شہروں میں بھی سرفہرست ہے۔ جہاں کے شہریوں کو بنیادی بلدیاتی خدمات فراہم نہیں ہورہیں۔ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، فراہمی نکاسی آب، پارکس، عوامی سفری سہولیات، فضائی آلودگی اور اربن ہیٹنگ جیسے مسائل شامل ہیں۔

چند سال قبل عالمی بینک نے بھی کراچی کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ شہر کو قابل رہائش بنانے کےلیے تقریباً 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اور ہر گزرتے دن یہ لاگت بڑھ رہی ہے۔ صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کے سربراہان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سرمائے کی قلت ہے۔ جس کی وجہ سے وہ شہر کو مناسب سطح پر بلدیاتی خدمات فراہم کرنے سے معذور ہیں۔ فنڈز کی اسی کمی کو دور کرنے کےلیے حکومت سندھ نے بلدیاتی قانون میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میونسپل ٹیکس کو بجلی کے بلوں میں وصول کرنے کا قانون منظور کیا اور جب اس پر عملدرآمد کی کوشش کی تو عوام کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔

بلدیہ عظمیٰ کو بجلی کے بلوں میں ماہانہ 50 روپے سے 200 روپے، جس کا انحصار بجلی کے استعمال پر ہے، وصول کرنے ہیں۔ جس سے ایک اندازے کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کراچی کو سالانہ تین ارب روپے کی اضافی آمدنی ہونا تھی۔ اس ٹیکس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی بلدیاتی ٹیکس واٹر بورڈ کے بلوں میں ادا کررہے ہیں۔ مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو جس قدر بلدیہ عظمیٰ رقم مانگ رہی ہے، اس سے زائد رقم تو ہم اپنے گھر سے کچرا جمع کرکے لے جانے والوں کو دیتے ہیں۔ یہ سطور لکھتے وقت میں نے اپنے گھر سے کچرا اٹھانے والے کے چارجز کا پوچھا تو پتہ لگا کر وہ ماہانہ 200 روپے لیتا ہے جبکہ میرے بل میں 100 روپے میونسپل چارجز لگے تھے۔

کراچی میں قائم ہونے والی نجی سوسائٹیز نے اپنا چھوٹا سا ایک تھلگ بلدیاتی نظام قائم کیا ہوا ہے۔ کیونکہ ان سوسائٹیز کو بلدیہ عظمیٰ کراچی براہ راست سہولیات فراہم نہیں کرتی۔ ان سوسائٹیز میں ہر گھر سے 500 روپے سے لے کر 5 ہزار روپے ماہانہ تک مینٹی نینس چارجز وصول کیے جاتے ہیں۔ جبکہ فلیٹس میں جہاں لفٹ کی سہولت بھی دستیاب ہو، مینٹی نینس چارجز 10 ہزار روپے سے بھی تجاوز کرجاتے ہیں۔ جبکہ ساحل نظارہ پر بنائے گئے طبقہ اشرافیہ کے فلیٹس میں تو ایک عام شخص کی ماہانہ تنخواہ سے بھی زیادہ چارجز وصول کیے جاتے ہیں۔

سخی حسن سے کچھ فاصلے پر نیا ناظم آباد کی نجی سوسائٹی قائم کی گئی ہے بلکہ ایک پورا شہر تعمیر ہورہا ہے، جہاں 120 گز کے گھر سے ماہانہ 4500 روپے ماہانہ وصول کیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ مشہور زمانہ بحریہ ٹاون میں بھی کم سے کم 5 ہزار روپے ماہانہ مینٹی نینس چارجز وصول کیے جاتے ہیں۔ جس میں نکاسی آب، پارکس، حفاظت، سڑکوں کی صفائی، تعمیر و مرمت اور دیگر بلدیاتی خدمات شامل ہیں۔ بہرحال میرا آج کا موضوع میونسپل چارجز نہیں بلکہ شہروں کی تبدیل ہوتی بلدیاتی خدمات ہیں۔ اس میں سب سے پہلے کراچی کا جائزہ لے کر دنیا بھر میں اپنائے جانے والے نئے بلدیاتی رجحانات کا جائزہ لیا جائے گا۔

کراچی شہر میں سب سے بڑا مسئلہ یہاں پر کچرے کا ہے۔ اس حوالے سے سوئٹزرلینڈ کے ایک ادارے ایم ڈی پی آئی جو کہ معلومات رپورٹس کا اوپن سورس ہے، نے کراچی میں پیدا ہونے والے میونسپل ویسٹ کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہر میں اندازے کے مطابق تقریباً 12000 سے 15000 ٹن سالڈ ویسٹ پیدا ہوتا ہے۔ شہر میں نہ تو ری سائیکل کا انتظام ہے، نہ ہی اپ سائیکل یعنی متعدد مرتبہ استعمال کا بلکہ یہ تمام کچرا مکس کرکے لینڈ فل سائٹ پر پہنچانے کےلیے گھروں سے باہر پھینکا جاتا ہے۔

شہر میں کچرے کا بڑا حصہ زرعی اجناس پر مشتمل ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سبزی منڈی، مقامی سبزی کی دکانوں، پھلوں کے جوس کی دکانوں، ریسٹورینٹس اور گھروں سے تقریباً مجموعی کچرے کا 20 فیصد کچرا آرگینک یعنی زرعی ہوتا ہے۔

کچرا صرف کراچی کا نہیں بلکہ دنیا کے بڑے شہروں کا مسئلہ بھی ہے۔ بھارت کے دارالحکومت دلی میں صورتحال نہایت مخدوش ہے۔ دلی کے علاقے غازی آباد میں کچرے کا ڈھیر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اور یہ ڈھیر تاج محل سے بھی اونچا ہوچکا ہے۔ جس سے دلی کی فضائی اور زیر زمین پانی کی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ انسان اس کچرے سے نمٹنے کےلیے کیا کرے؟ اس کے بہت سے طریقہ کار وضع کیے گئے ہیں۔ سب سے پہلا اور اہم طریقہ کار ہے کہ ایسا کچرا پیدا ہی نہ کیا جائے جوکہ ازخود گل کر ختم نہ ہوسکے۔ دوسرا طریقہ جس کو اپ اسکیل کہا جاتا ہے، جس میں پلاسٹک، شیشہ اور ایسی اشیا جو کہ بار بار استعمال ہوسکیں، انہیں استعمال کیا جائے۔ تیسرا طریقہ ری سائیکلنگ کا ہے۔ جس میں اشیا کو دوبارہ صنعتی عمل سے گزار کر قابل استعمال بنایا جائے۔ چوتھا طریقہ ویسٹ ٹو انرجی ہے، جس میں کچرے کو جلا کر ختم کردیا جاتا ہے۔

ایک اور طریقہ لینڈ فل سائٹ کا ہے، جوکہ آہستہ آہستہ دنیا میں متروک ہورہا ہے۔ سنگاپور، ہالینڈ اور ڈنمارک میں لینڈ فل سائٹ کو یکسر ختم ہی کردیا گیا ہے۔ کیونکہ تینوں ملکوں میں زمین کی شدید قلت ہے اور وہ کچرے کو جمع کرنے کےلیے زمین کا بڑا حصہ ضائع نہیں کرسکتے اور پاکستان میں بھی زمین کی قلت پیدا ہورہی ہے، جس کی وجہ سے رہائش، تجارتی مراکز اور صنعتوں کے قیام کےلیے زمین کی دستیابی مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں پاکستان میں بھی مگر کراچی میں خصوصاً لینڈ فل سائٹ کے رجحان کو ختم کرنا ہوگا۔

امریکا میں زمین کی وافر دستیابی اور سستا ایندھن ہونے کی وجہ سے ویسٹ ٹو انرجی کا شعبہ ترقی نہیں کرسکا مگر یورپ میں ویسٹ ٹو انرجی پروگرام کامیابی سے جاری ہے۔ جس میں 1 کروڑ 80 لاکھ افراد کو بجلی اور 1 کروڑ 50 لاکھ کو ہیٹنگ کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ ویسٹ ٹو انرجی کا رجحان دنیا میں تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ سنگاپورجہاں زمین کی شدید قلت ہے، وہاں بھی لینڈ فل سائٹ کے بجائے پیدا ہونے والے کچرے کو جلا کر بھسم کردیا جاتا ہے اور باقی رہ جانے والی راکھ کو سمندر میں ڈال کر زمین ری کلیم کی جاتی ہے۔

کراچی میں کچرے کو ٹھکانے لگانے کےلیے سب سے پہلے نعمت اللہ خان کے دور میں گاربیج مینجمنٹ سسٹم قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ منصوبے کے مطابق شہر کے ہر ٹاؤن میں ایک گاربیج ٹرانسفر اسٹیشن قائم کیا جانا تھا۔ اس اسٹیشن میں سب سے پہلے کچرے کو الگ الگ تقسیم کیا جاتا اور اس کے حجم کو کمپریس کرکے کھلے ٹرکوں کے بجائے ڈھکے ہوئے کنٹینرز میں لینڈ فل سائٹ پر منتقل کیا جانا تھا۔ جہاں پر اس کچرے کو جلا کر بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ تھا۔ مگر اس تمام منصوبہ بندی کو نظر انداز کرتے ہوئے موجودہ سندھ حکومت نے لینڈ فل سائٹ پر دو کمپنیوں کو کچرے سے توانائی حاصل کرنے کےلیے پاور پلانٹس لگانے کی اجازت دے دی۔

جیسا کہ ایم ڈی پی آئی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہر میں پیدا ہونے والے کچرے کا 20 فیصد غذائی اور زرعی اجناس پر مشتمل ہوتا ہے۔ تو یہ بھی ویسٹ ٹو انرجی پلانٹ چلانے کےلیے میتھین گیس فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے بھارت میں ایک تجرباتی بائیو گیس پلانٹ لگایا گیا۔ اس میں غذائی اجناس کو پروسیس کرکے بائیوگیس بنائی جاسکتی ہے۔ اور اس گیس کو بھی ویسٹ ٹو انرجی پلانٹ میں بطور ایندھن استعمال کرنے کے علاوہ اس سے بچ جانے والے مادے کو بطور نباتاتی کھاد کاشت کاری کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

کراچی میں طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے کےلیے انسرونیٹرز لگائے گئے ہیں، جہاں اس کچرے کو جلا کر ختم کیا جاتا ہے۔ جس پر اسپتالوں اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے بھاری اخراجات آتے ہیں۔ اس کچرے کو بھی ویسٹ ٹو انرجی پاور پلانٹس میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

کراچی میں کچرے کے مسائل سے نجات کےلیے شہر میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انفرادی طور پر ہم سب کو کوشش کرنا چاہیے کہ کم سے کم ایسا کچرا پیدا کریں جو کہ نباتاتی طور پر تلف ہوسکے، اور اگر ہم کچرا پیدا بھی کریں تو اس کو سڑکوں کو پھینکنے کے بجائے اس کےلیے مخصوص جگہوں پر ڈالیں۔ جبکہ اداروں کےلیے کچرا ایک منفی مالیاتی حیثیت کے بجائے ایک نفع بخش کاروبار ہوسکتا ہے۔ یا پھر اس کچرے پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کےلیے شہر میں کچرے کو اٹھانے، اس کی چھانٹی کرنے اور اس کو توانائی پیدا کرنے کےلیے بروئے کار لانے کا ایک مربوط، منظم اور جدید خطوط پر استوار نظام قائم کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر شہر کے کچرے کے مسائل کو حل کرنا ایک خواب ہی رہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راجہ کامران

راجہ کامران

بلاگر سینئر اکانومی جرنلسٹ ہیں۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان سے ٹوئٹر ہینڈل @rajajournalist پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔