خود ساختہ مفروضوں پر ملک نہیں چلتے!

زاہدہ حنا  منگل 25 مارچ 2014
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ہم نے بعض مفروضے قائم کیے اور ان پر 60 سال گزار دیے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ طے کرلیا گیا کہ چونکہ ہم نے اسلام کے نام پر ایک ملک بنایا ہے، لہٰذا پوری دنیا ہمیں برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ یہود، ہنود اور مغرب کو یہ خوف لاحق ہے کہ پاکستان طاقت ور ہوگیا تو پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوجائے گا لہٰذا اس کو پس ماندہ رکھا جائے تاکہ وہ خطرہ نہ بن سکے۔ ان خود ساختہ مفروضوں کو لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے گئے۔ سیاسی اور مذہبی رہنمائوں نے نفرت انگیز تقریریں کیں۔ مساجد کے خطبوں میں ان مفروضوں کو بار بار دہرایا گیا۔

نصابی کتابوں میں نفرت انگیز مواد شامل کر کے بچوں کے ذہنوں میں خوف اور نفرت پیدا کی گئی۔ آمروں اور ان کے ہم نوا دانش وروں اور سیاست دانوں نے اس پیغام کو عام کیا کہ ملک کی سلامتی خطرے میں ہے، آمروں کی اطاعت کی جائے، وہ ہماری جغرافیائی اور نظریاتی  سرحدوں کے محافظ ہیں۔ ان خود ساختہ مفروضوں پر عمل کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ درجنوں ملک جو چند دہائیوں قبل ہر شعبہ حیات میں ہم سے پیچھے تھے آج ان کا شمار ترقی یافتہ اور ہمارا پس ماندہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی تاریخ کے 65 سال اگر ایک جمہوری نظام میں گزارے ہوتے تو صورتحال اتنی درد ناک نہ ہوتی۔ جمہوری نظام سے سیاسی استحکام پیدا ہوتا اور معیشت تیزی سے ترقی کرتی۔ قانون کی حکمرانی ہوتی۔ اختلافات گولیوں سے نہیں مکالمے سے طے کیے جاتے، نسلی، لسانی منافرت اور مذہبی فرقہ واریت کہیں نظر نہ آتی۔

پچھلے کچھ عرصے سے یہ خوش آیند اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں نے سیاسی عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق کو تسلیم کرنا شروع کردیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ، دونوں نے خود ساختہ اور غلط مفروضوں سے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا۔ بھٹو صاحب نے ہندوستان سے ہزار سال جنگ کا نعرہ لگایا، عالم اسلام کو مغرب کے خلاف صف آرا کرنے کی بات کی۔ میاں صاحب نے بھی سیاست کی ابتداء  ایک  آمر کے دور میںکی جس نے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ دونوں جماعتوں کو اسٹبلشمنٹ نے جب چاہا اپنے مفاد میں استعمال کیا۔ اب حالات قدرے مختلف ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ گزشتہ 10 برسوں کے دوران کافی تبدیل ہوئی ہیں۔ دونوں کا اتفاق رائے ہے کہ اقتدار میں آنے کے لیے فوج کا کندھا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ دونوں جماعتیں خارجہ پالیسی پر بھی اتفاق کرتی ہیں جس کا بنیادی نکتہ مغرب کے علاوہ پڑوسی ملکوں کے ساتھ بھی بہتر تعلقات استوار کرنا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بارے میں دونوں کا موقف مکمل نہیں تو بڑی حد تک یکساں ہے۔

دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی سوچ میں مثبت تبدیلیاں ضرور رونما ہوئی ہیں لیکن پچھلے 60 سالوں میں عوام کے ذہنوں میں ایک سوچے سمجھے عمل کے ذریعے خوف، نفرت اور عدم تحفظ کے جس احساس کو راسخ کردیا گیا ہے اب بھی موجود ہے۔ اس کو ختم ہونے میں وقت لگے گا۔ وہ سیاسی، مذہبی اور نظریاتی عناصر جو اب تک عوام کو خود ساختہ مفروضوں اور جعلی خوف میں مبتلا رکھ کر مخصوص مفادات حاصل کرتے رہے ہیں وہ نہیں چاہیں گے کہ عوام کو خوف اور عدم تحفظ کی فضا سے آزاد کیا جائے۔ 2008 کے بعد سے مسلسل یہ کوشش جاری ہے کہ جمہوری حکومتوں کے خلاف عوام کو گمراہ کیا جائے تاکہ ان پر دبائو رہے اور وہ معیشت، خارجہ تعلقات اور داخلی سلامتی جیسے اہم شعبوں سے متعلق پالیسیوں کو تبدیل نہ کرسکیں۔ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو ،اسٹیٹس کو کی حامی قوتوں نے بے پناہ دبائو میں رکھ کر ریاستی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں کرنے سے باز رکھا جس کی وجہ سے پی پی پی حکومت قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکی اور 2013 کے عام انتخابات میں اس کو انتخابی شکست کی صورت میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔

نواز شریف کے برسراقتدار آنے کے بعد عام طور پر یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ مغرب نواز شریف کو مذہبی انتہا پسندوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والا رہنما سمجھتا ہے لہٰذا امریکا اور یورپ کی جانب سے ان کی پرجوش حمایت سے گریز کیا جائے گا۔ اسی طرح چین کے بارے میں خیال تھا کہ تاریخی طور پر فوجی حکمرانوں کے ساتھ چین کے تعلقات بہت مضبوط رہے ہیں۔ وہ اقتصادی شعبے کے بجائے سیاسی اور فوجی شعبوں میں تعاون کا زیادہ خواہاں ہوگا، اس لیے نواز شریف  حکومت کے لیے اس کی جانب سے غیر معمولی معاشی تعاون کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔ ہندوستان کے بارے میں یقین کی حد تک یہ خیال پایا جاتا تھا کہ وہ معاشی مشکلات اور دہشت گردی کے عذاب میں گھرے پاکستان کے خلاف دبائو بڑھا کر اپنی شرائط منوانے کی کوشش کرے گا لیکن یہ تمام تجزیے غلط ثابت ہوئے۔ عالمی اور علاقائی طاقتوں نے انتہائی مختصر عرصے میں جمہوری حکومت کو جو حمایت فراہم کی  اس سے یہ حقیقت عیاں ہوگئی ہے کہ اس خطے میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے دنیا نے ایک مضبوط جمہوری پاکستان پر انحصار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

جون 2013میں نئی منتخب حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ امریکا چند مہینے کچھ تذبذب کا شکار رہا، ڈرون حملے بڑھے اور عالمی مالیاتی اداروں نے بھی اپنا رویہ خاصا سخت رکھا۔ تاہم، امریکا نے نواز شریف کے ابتدائی اقدامات اور بیانات کا جائزہ لے کر اپنی حکمت عملی کو تیزی سے تبدیل کیا۔ پہلے ڈرون حملوں میں کمی آئی، پچھلے چند مہینوں سے یہ حملے مکمل طور پر معطل ہیں، سلالہ جیسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، کولیشن سپورٹ فنڈ کی ادائیگی جاری ہے، امریکی اہل کاروں کی جانب سے ماضی کی طرح پاکستان پر پابندیاں لگانے کی دھمکیاں بھی سنائی نہیں دیتیں، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تحفظ پر اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے، امریکا کی جانب سے پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے اربوں ڈالر کے چھوٹے بڑے منصوبوں کا آغاز کردیا گیا ہے اور نوجوانوں کو امریکی یونی ورسٹیوں میں تعلیم کے لیے وسیع پیمانے پر وظائف جاری کیے جا رہے ہیں۔ طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل میں بھی امریکا نے کوئی رخنہ اندازی نہیں کی ہے۔

یورپی ممالک نے بھی امریکا کی طرح پاکستان میں جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کی سہولت دینا ایک غیر معمولی اقدام ہے۔ اس سے پاکستان کی معیشت کو بے پناہ فائدہ حاصل ہوگا۔ آیندہ 10 سال تک یورپی یونین کی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی درآمدات پر کوئی ٹیکس یا ڈیوٹی عائد نہیں ہوگی۔ اس سہولت کا فائدہ پاکستان کے صنعت کاروں کو ہوگا اور دنیا کے کئی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کر کے یورپی منڈیوں تک اپنی مصنوعات کی رسائی حاصل کریں گے جس سے پاکستان میں بے پناہ سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہوں گے۔ امریکا اور یورپ کی طرح چین نے بھی پاکستان سے فوجی شعبے کے علاوہ صنعتی و تجارتی شعبوں میں بھرپور تعاون کا فیصلہ کرکے واضح کردیا ہے کہ اب وہ بھی پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے لیے دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح بھرپور کردار ادا کرے گا۔

وزیراعظم کو چین کی پالیسی میں اس تبدیلی کا پہلے سے علم تھا لہٰذا انھوں نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد اپنے پہلے سرکاری دورے کے لیے ماضی کی روایت سے ہٹ کر سعودی عرب کے بجائے چین کا انتخاب کیا۔ یہ دورہ اس امر کا علامتی اعلان تھا کہ پاکستان ماضی کی اس خارجہ پالیسی کو تبدیل کررہا ہے جس کا محور محض فوجی امداد یا تعاون کا حصول تھا۔ اب خارجہ تعلقات میں معاشی روابط اور تجارت کو بنیادی اہمیت حاصل ہوگی۔ چین کا دورہ انتہائی سود مند ثابت ہوا۔ اگلے 7 سے 8 برسوں میں چین نے پاکستان میں 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے جس پر رواں سال سے عمل درآمد شروع ہوجائے گا۔

ہندوستان اور افغانستان بھی بالآخر اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ اس خطے میں دیرپا امن کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی جمہوری حکومت کے بہتر اقدامات کا مثبت جواب دیا جائے۔ موجودہ حکومت نے واضح کردیا کہ افغانستان کے بارے میں کوئی بھی  فیصلہ وہاں کے عوام کریں گے۔ حکومت کی طرف سے واشگاف الفاظ میں اعلان کردیا گیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ گزشتہ کئی مہینوں سے دونوں پڑوسی ممالک کی جانب سے پاکستان کے بارے میں اشتعال انگیز بیانات سے گریز کیا گیا ہے۔ بعض عرب ممالک باالخصوص سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے خوشگوار دیرینہ تعلقات ہیں جن میں اب مزید وسعت آرہی ہے۔ ایران اور امریکا کے درمیان دوریاں کم ہورہی ہیںاور ایران مستقل معاہدے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ اس صورتحال سے سعودی عرب اور بعض دیگر عرب ممالک خود کو تنہا محسوس کررہے ہیں۔ پاکستان کی جمہوری حکومت ایران اور عرب بادشاہتوں کے درمیان مفاہمت اور اعتماد سازی کے عمل میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب ریاستیں پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مزید گرم جوشی کی خواہاں ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کو سرکاری طور پر جو مالی امداد دی گئی ہے اسے بھی اسی تناظر میں دیکھا جاناچاہیے۔

وقت کا تقاضہ ہے کہ حقیقت پسندی کے سفر کو جاری رکھا جائے اور ہر چیز میں ’’سازش‘‘ تلاش نہ کی جائے۔ خود ساختہ مفروضوں پرکہیں ملک چلا کرتے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔