معاشی استحکام، حکومت کی کوششیں

ایڈیٹوریل  بدھ 26 اکتوبر 2022
ہمیں اکنامک روڈ میپ بنا کر ایکسپورٹ کو100ارب ڈالر تک لیجانا ضروری ہے ورنہ ہم سروائیو نہیں کرسکیں گے (فوٹو: فائل)

ہمیں اکنامک روڈ میپ بنا کر ایکسپورٹ کو100ارب ڈالر تک لیجانا ضروری ہے ورنہ ہم سروائیو نہیں کرسکیں گے (فوٹو: فائل)

پاکستان اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے درمیان ڈیڑھ ارب ڈالر قرض کے پروگرام کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے گفتگو کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اے ڈی بی کا 1.5 بلین ڈالر کا قرض پاکستان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے میں مدد دے گا۔

دوسری جانب وفاقی وزیر تجارت و سرمایہ کاری سید نوید قمر نے برسلز میں یورپی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے بین الاقوامی تجارت کے چیئرمین سے ملاقات کی ، وزیر تجارت نے اس بات پر زور دیا کہ تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات یورپی یونین کے ساتھ پاکستان کے کثیر جہتی تعلقات کا کلیدی جز ہیں۔

بلاشبہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں موجودہ حکومت کی کوششیں لائق تحسین ہیں کیونکہ تسلسل سے یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ پاکستانی دیوالیہ ہونے والا ہے ، لیکن انتہائی سخت شرائط پر پورا اترتے ہوئے پاکستان نے نہ صرف آئی ایم ایف سے کامیاب معاہدہ کر کے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا بلکہ دیگر عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد بھی حاصل کیا۔

دوست ممالک نے بھی پاکستان کی دل کھول کر مدد کی اور حالیہ دنوں میں ایک اور بڑی کامیابی فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنا ہے ، جس کے ملکی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوںگے۔ یورپی ممالک سے تجارت کی راہیں کھل جائیں گی۔

ملک میں تیار شدہ مصنوعات کو ہم با آسانی برآمد کرسکیں جس کے بدلے میں ہمیں کثیر زرمبادلہ حاصل ہوگا جس سے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں بہت زیادہ مدد ملے گی۔ ہمیں برآمدات کی شرح بڑھانے کی از حد ضرورت ہے ، اس کے لیے حکومت کو ہر ممکن قدم اٹھانا چاہیے۔

گزشتہ دو سے تین ہفتوں کے دوران دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ مستحکم ہوا ہے، ساتھ ہی پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں حالات بہتر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ سیاسی معاملات کی کروٹ بھی بہتری کا اشارہ دے رہی ہے۔ سیاسی معاملات بھی تحریک انصاف کی اسمبلی میں واپسی کے عندیہ سے بہتری کی طرف گامزن نظر آرہے ہیں۔ یہ جملہ معاملات بہرحال اسحاق ڈار کے لیے معاون ثابت ہوں گے۔

اس کے باوجود یہ ان کے لیے کڑے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اپنے سابق ریکارڈ کے مطابق کارکردگی دکھا سکیں اور عوام کو ریلیف دے سکیں اب ان کی کامیابی سے حکومت کی کامیابی اور آیندہ انتخابات کا انحصار ہو گا۔ سابقہ حکومت کی معاشی پالیسی نہ ہونے اور منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث نئی حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، جن کے حل کے لیے واضح روڈ میپ کے ساتھ انتھک محنت، سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

موجودہ وزیر خزانہ سے اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہ معاشی صورت حال کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ ماضی میں بھی ایسا کر چکے ہیں۔

حکومت کو دو کام در پیش ہیں جب کہ مشکل یہ ہے کہ ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں وہ مقامی کرنسی کو نیچے لانا ہے اور دوسرا مالیاتی اسپیس یعنی گنجائش پیدا کی جائے اس آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کرنسی کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑ دیا گیا ہے اور اسٹیٹ بینک یا حکومت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی جب کہ سیلاب کی وجہ سے ہارڈ انفرا اسٹرکچر پر کام نہیں ہو سکتا۔

ان مشکلات کے سبب اور آئی ایم ایف پروگرام کی موجودگی میں پورا ہونا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ مہنگائی میں کمی لانا نئے وزیر خزانہ کی اولین ترجیح ہے، یہ تو ہم نے بات حکومتی ترجیحات کی اب اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر وہ کونسے شعبہ جات جن پر تمام تر توجہ مرکوز کرکے ہم ملکی معیشت کی بحالی کے کام کرسکتے ہیں۔

سب سے پہلے تو مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فعال کرنا ہوگا تاکہ معیشت کا پہیہ رواں ہوسکے۔ ایڈم اسمتھ کہتا ہے کہ ’’یہ سونا اور چاندی نہیں جو کسی ملک کو امیر بناتے ہیں بلکہ اس کے لوگوں کی پیداواری صلاحیت کسی ملک کو امیر بناتی ہے۔‘‘

اگر کسی ملک کے پاس اشیاء تیار کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو وہ غریب ہو جائے گا۔ ایک ملک غریب ہو سکتا ہے تاہم اگر اس کے پاس اپنی کھپت سے زیادہ قیمتی اشیا تیار کرنے کی طاقت ہو تو یہ امیر ہو جاتا ہے لہٰذا دولت پیدا کرنے کی طاقت خود دولت سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

مینوفیکچرنگ کسی بھی ملک کی پیداواری صلاحیت کے لیے جدید ذرائع تشکیل کرتی ہے۔ زراعت اور مینوفیکچرنگ انتہائی اہم شعبے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پیداواری زراعت کا انحصار مینوفیکچرنگ صنعتوں کے ذریعہ فراہم کردہ معلومات کے معیار اور مقدار پر ہوتا ہے۔ درحقیقت کسی بھی معیشت کی فعالیت و ترقی و نمو کے لیے مختلف شعبوں کے درمیان تعلقات اہم ہوتے ہیں۔

1950 کی دہائی میں چین نے زراعت اور صنعت کے درمیان فاصلے کو کم کیا اور اِن دونوں شعبوں کے درمیان ایک رابطہ قائم کیا جس سے پیداوار کو فروغ ملا اور زرعی مشینری کے لیے علیحدہ وزارت کا قیام عمل میں آیا۔ مشینوں کے ذریعے زراعت کو ’’ مینوفیکچرنگ زراعت ‘‘ کہا جاتا ہے۔

کوئی بھی قوم یا قوموں کا گروہ جس میں اس مینوفیکچرنگ زرعی صلاحیت کی کمی ہو وہ دیگر ممالک کے رحم و کرم پر ہوتا ہے کیونکہ اِس کی اپنی پیداواری صلاحیت کم ہوتی ہے۔

پاکستان میں صنعتی اور دیگر شعبوں کے درمیان تعلق قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بامعنی پیداواری صلاحیت کے فقدان سے اِس شعبے کی ترقی اور اَفزودگی کے اِمکانات محدود ہو جاتے ہیں۔

پیداواری صلاحیت کا ڈھانچہ تشکیل دینے والی سب سے اہم صنعتیں جو پیداواری مشینری بناتی ہیں ، یہ وہ سازوسامان ہوتا ہے جو صنعتیں تقریبا تمام اشیا اور خدمات بنانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی اہم صنعتیں انتہائی ناقص اور کم ترقی یافتہ ہیں جس کی وجہ سے وہ جدید ترقیاتی حرکیات سے محروم ہیں۔

مثال کے طور پر پاکستان کو توانائی کا بحران درپیش ہے جس کا حل شمسی توانائی جیسے کئی ایک متبادل ذرائع سے وابستہ ہے لیکن متبادل ذرائع سے توانائی بنانے والی ٹیکنالوجی پاکستان میں تیار نہیں ہوتی اور اِسے برآمد کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اِس کی لاگت زیادہ ہے۔

مقامی طور پر پیدا ہونے والی کیپیٹل گڈز انڈسٹریز پر مبنی نسبتا خود مختار پیداواری ڈھانچہ کی ترقی بہترین ثابت ہوگی جس کے نتیجے میں پاکستان کو اپنی معیشت پر مزید اختیارات اور کنٹرول حاصل ہوگا اور اس کے نتیجے میں مقامی طور پر پیدا ہونے والی ملازمتوں کے مواقعوں میں بھی اضافہ ہوگا جبکہ آمدنی اور کھپت بڑھے گی۔ جس کے نتیجے میں قومی دولت میں اضافہ ہو گا جو جی ڈی پی کی شرح نمو سے ظاہر ہوتی ہے۔

پاکستان کی معاشی ترقی کے سوال پر ماہرین ِمعاشیات میں اِختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان کو کوریا کی مثال سامنے رکھنی چاہیے اور ماضی میں 1960 سے 1965 کے پانچ سالہ دور میں ایسا کرنے کی ایک کوشش بھی کی گئی ہے۔

ماہرین معاشیات کا دوسرا طبقہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کو خدمات کے شعبے کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے لیکن اگر خدمات کسی معیشت کی بنیاد ہوں جیسا کہ ٹرانسپورٹ اور مواصلات ، خوردہ اور تھوک ، صحت کی خدمات ، کاروباری خدمات (کمپیوٹر ، اِنٹرنیٹ وغیرہ) حکومت اور انتظامی امور یہ سب براہ راست یا بالواسطہ طور پر اشیاء کی پیداوار پر منحصر ہیں۔ اس کا سب سے واضح مظاہرہ فنانس ، انشورنس اور رئیل اسٹیٹ صنعتوں سے ہوتا ہے۔ یہ باقی معیشت کے ذریعہ پیدا ہونے والی اشیاء کو مختلف شعبوں میں منتقل کرتے ہیں۔

حکومت نے صنعتی یونٹوں کے لیے انرجی ٹیرف19.99 روپے دیا جو ایک بہتر اقدام ہے کیونکہ بجلی مہنگی ہونے سے اخراجات بڑھ گئے ہیں، 70 فیصد ٹیکسٹائل ایکسپورٹ اب جیسے لیز پر چلی گئی ہے، ملکی ایکسپورٹ متاثر ہونے اور کساد بازاری کا خدشہ ہے۔

ہمیں اکنامک روڈ میپ بنا کر ایکسپورٹ کو100ارب ڈالر تک لیجانا ضروری ہے ورنہ ہم سروائیو نہیں کرسکیں گے، ملک میں ڈالرز آنے چاہئیں لیکن اس کے لیے ایکسپورٹ بڑھانی ہوگی۔

مہنگائی کی شرح بھی بہت زیادہ بلند ہوچکی ہے ، عام آدمی کے لیے کچن کا خرچہ پورا کرنا بھی ناممکن ہوتا جارہا ہے، حکومت کو ڈسٹرکٹ کی سطح پر قائم سرکاری ادارے کو فعال کرنا ہوگا ،  جو کہ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزی کرنیوالے والوں کیخلاف موثر کارروائی کرسکیں۔ مہنگائی پر قابو پانا حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے جو اسے قبول کرنا چاہیے، تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔

نئی حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، جن کے حل کے لیے واضح روڈ میپ کے ساتھ انتھک محنت، سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کی بحالی کو ممکن بنایا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔