ہلاہل اورچندہ

سعد اللہ جان برق  بدھ 26 اکتوبر 2022
barq@email.com

[email protected]

جناب احسن اقبال یاشایدکسی اورممتاز رہنما نے کہاہے کہ عمران خان سیلاب زدگان کے لیے جمع کیے ہوئے ’’چندے‘‘سے جلسے کررہا ہے۔

ہمیں نہ ’’ اس ‘‘ سے کوئی تعلق ہے نہ ’’ اس ‘‘ سے کوئی دلچسپی اور نہ ہی بیانوں سے ۔کہ ان دونوں بیانات کی ایک منڈی سی لگی ہوئی ہے یا بڑے بڑے نقارے بج رہے ہیں، توپیں چل رہی ہیں، بم پھوڑے جارہے ہیں، کلاشن کوفیں ڈزا ڈز کر رہی ہیں اور ہماری حالت اس شخص کی سی ہو رہی ہے جس کی دو بیویاں تھیں اور درمیان میں وہ پھنسا ہوا تھا۔کسی نے اس سے پوچھا کہ دونوں میں سے کونسی اچھی ہے تو اس نے کہا۔

بیخ دے اوزی یوتربلہ

نہ’’آشہ‘‘ خہ دہ نہ گلہ

یعنی خدا غارت کرے دونوں کو۔نہ آشہ اچھی ہے نہ گلہ

کسی نے اونٹ سے پوچھا کہ ’’خشکی‘‘ اچھی ہے یا ’’تری‘‘ تو اس نے کہا، خدا تینوں کو غارت کرے، پوچھنے والوں نے کہاکہ ہم نے تو دو یعنی خشکی اور تری کے بارے میں پوچھا، یہ ’’تیسری‘‘ کیا ہے، اونٹ نے کہا کہ میں نے ’’کیچڑ‘‘ کو بھی شامل کردیاہے۔

مطلب یہ کہ بیان اور بیائنے تو چلتے رہتے ہیں اور آج کل تو اتنے زیادہ چل رہے ہیں کہ دیواریں بھی بیانات دے رہی ہیں حالانکہ دیواروں کے صرف کان ہوتے ہیں، زبان نہیں، یوں سمجھئے کہ پاکستان آج کل ’’بیانستان‘‘ بنا ہوا ہے۔لیکن ہمیں اس بیان میں جس چیز نے نہال کردیا، وہ ہے لفظ ’’چندہ‘‘ کیا میٹھا اور مرغن نام ہے کہ صر ف نام لینے ہی سے پروین شاکر یادآجاتی ہے۔

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا

روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی

اورساتھ ہی ڈاکٹر رشید جہاں بھی

کس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا

دل کے رخسار پہ اس وقت تیری یاد نے ہاتھ

یہ چندے کا لفظ اتنا میٹھا ہے کہ زبان پر آتے ہی سب کچھ میٹھا ہوجاتاہے ۔چندہ ایک ایسا دھندہ ہے جو کبھی مندہ نہیں ہوتا،چاہے وہ کسی دینی سلسلے میں ہو یا دنیاوی میں ۔

حمزہ شینواری کے بقول۔گڑ کی ڈلی کو کسی بھی طرف سے ’’چکھو‘‘میٹھی ہی ہوتی ہے

اور اگرعمران خان ،سیلاب زدگان کا چندہ جلسوں پر خرچ کررہاہے تو اس میں بھی تعجب کی کوئی بات نہیں کہ وہ خود بھی تو سیلاب ہی ہے بلکہ سونامی ہے۔ چندے کا دھندہ ہی تو وہ مبارک دھندہ ہے جس کے طفیل وہ اس مقام تک بلکہ بہت سارے مقامات تک پہنچے ہوئے ہیں۔چندے یا گڑکی اس ڈلی کی کچھ صورتیں ہمیں بھی یاد ہیں۔

ہمارے علاقوں میں مخصوص مذہبی ایام میں چندہ سمیٹنے کی کچھ سرگرمیاں ہوتی ہیں، ان میں ایک سرگرمی ’’درنجے‘‘کی بھی ہوتی تھی،اس لفظ کاکچھ بھی پتہ نہیں کہ کس زبان کا ہے یا اس کے معنی کیا ہیں لیکن لڑکوں کی کچھ ٹولیاں بن جاتی تھیں،وہ ٹولی کسی گھر کے دروازے پر جاکرکھڑی ہوجاتی جس میں ایک لڑکا نیم ترنم میں بولتا تھا اور باقی لڑکے کورس کی صورت میں درنجے بولتے تھے۔

چارپائی سے اٹھو، چھلنی اٹھاؤ ،کندو (غلے کا ذخیرہ) کے پاس جاؤ ،چھلنی کو بھر لاؤ اور پھر مسلسل درنجے درنجے ہوتا تھا ،جس کے دوران خاتون خانہ کچھ نہ کچھ لاکر دے دیتی تھی، اکثر صورتوں میں چھلنی بھر گندم ہوتی تھی ، جب اچھا خاصا چندہ جمع ہوجاتا تو نوجوان لڑکے کی ٹولی کچھ مرغن سرگرمی کرلیتے تھے ، آخری دور میں حلوہ پکا کر اڑالیتے تھے اور پھر فلم دیکھ لیتے تھے ،وی سی آر کے آنے پر وی سی آر کا پروگرام بمع حلوہ کے ہوتاتھا۔

ایک اور صورت چندے کی موسم کے مطابق چلتی تھی جسے ’’ہلاہل‘‘ کہتے تھے، گرمی کے دنوں میں بارش ہونے کی دعاکے طور پر لڑکے راستوں پر کھڑے ہوکر آنے جانے والوں پر ہلاہل کہہ کر پانی پھینکتے تھے ،آنے جانے والے پیدل ہو یا کسی سواری میں، پانی سے بچنے کے لیے کچھ دے دیتے تھے اور وہ گروپ اس کمائی کو جمع کرکے پارٹی یا فلم دیکھنے کا پروگرام بنا لیتے تھے۔

اب اگرکچھ لوگ سیلابوں ،زلزلوں، مسجدوں، مدرسوں ، پارٹیوں وغیرہ میں درنجے ، ہلاہل یاچلے کرتے ہیں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔