نظام انصاف میں اصلاحات کی ضرورت

مزمل سہروردی  بدھ 26 اکتوبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

جوڈیشل کمیشن نے بالا ٓخر سپریم کورٹ میں تین ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سپریم کورٹ تعیناتی کے لیے متفقہ فیصلہ ہوا۔ جوڈیشل کمیشن کے تمام ممبران نے ان کی تعیناتی کے حق میں ووٹ ڈالا۔

آپ دیکھیں ان پر سب متفق نظر آئے۔ جبکہ باقی دو تعیناتیوں پر تقسیم نظر آئی ہے۔ لاہو رہائی کورٹ کے جج جسٹس شاہد وحید اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس سید حسن اظہر رضوی کی تعیناتی پانچ کے مقابلے میں چار ووٹ سے ہوئی۔ حکومت نے اپنے ووٹ ان دونوں کو دیے تو یہ تعیناتیاں ممکن ہوئیں۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جوڈیشل کمیشن میں سپریم کورٹ کے باقی ججز نے ان دونوں تعیناتیوں سے اتفاق نہیں کیا ۔ جوڈیشل کمیشن کے اس ہنگامی اجلاس کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے مستعفیٰ ہونے کی خبریں بھی سامنے آئی ہے۔

شنید یہی ہے کہ وہ بھی جونیئر ججز کے حق میں ووٹ نہیں ڈالنا چاہتے تھے لیکن مجبور تھے، اس سے پہلے اٹارنی جنرل کے مستعفی ہونے کی خبریں بھی آئی تھیں۔ جسٹس شفیع صدیقی کے نام پر نہ تو اتفاق ہو سکا اور نہ ہی انہیں اکثریتی ووٹ مل سکے، اس لیے ان کا نام موخر کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ کے تین سنیئر ججز جسٹس قاضی عیسیٰ ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے حالیہ اجلاس میں بھی جونیئر ججز کی سپریم کورٹ تعیناتی کی مخالفت کی۔

ان کے ساتھ سابق جج جسٹس شائق عثمانی نے بھی یہی موقف لیا۔ بار کونسل کے رکن نے بھی جونیئر ججز کی تعیناتی کی مخالفت کی۔ تین ماہ قبل جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں حکومت کے دونوں ارکان وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے بھی یہی موقف لیا تھا تاہم حالیہ اجلاس میں حکومت اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئی اور حکومت نے اپنے دونوں ووٹ چیف جسٹس عمر عطاء بندیا ل کی نامزدگیوں کو دے دیے۔ اگر حکومت کے دونوں ووٹ پرانے موقف پر قائم رہتے تو یہ تعیناتیاں پھر موخر ہوجاتیں ۔

اگر دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل اپنی نامزدگیاں جوڈیشل کمیشن سے منظور کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ لیکن اعظم نذیر تارڑ کا استعفیٰ اور اس سے قبل اٹارنی جنرل کا استعفیٰ بہت سی کہانیاں چھوڑ گئے ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ پاکستان میں عدالتی ریفارمز ناگزیر ہو چکی ہیں۔

عام آدمی کا اعتماد ہی نظام انصاف کی بنیاد ہوتا ہے۔ اصلاحات ہوتی رہیں تو نظام انصاف جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر توانا سے توانا ہوتا جاتا ہے۔

عام آدمی کو جلد انصاف کی فراہمی کے لیے بھی جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہونا چاہیے سکے، جوڈیشل ریفارمز پر بھی اجلاس ہونا چاہیے۔ ہمارے نظام انصاف کو عام آدمی کے مقدمات کا بھی سوچنا چاہیے اور اسے سستا انصاف ملنا چاہیے لیکن ابھی یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ ابھی ہمارا نظام انصاف جن مسائل میں الجھا نظر آرہا ہے ، اس میں عام آدمی کہیں بھی نظر نہیں آرہا۔

ہم نے دیکھا ہے کہ ماضی میں سو موٹو کا کلچر بہت حاوی رہا۔ دو سابق چیف جسٹس صاحبان افتخار چوہدری اور ثاقب نثار نے تمام مسائل کا حل سو موٹو کو ہی سمجھ لیا تھا۔ بڑے سے بڑے مسئلہ اور چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ پر بھی سو موٹو دیکھا گیا۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ قانون دان ہی نہیں بلکہ عوامی رائے عامہ بھی سوموٹو کے حق میں نہ رہی۔ پھر ہم نے دیکھاکہ عدلیہ کے اندر سے بھی سوموٹو کلچر کے خلاف آوازیں سنائی دیں۔ عدلیہ نے خود احساس کیا کہ سوموٹو نظام انصاف کا کوئی مثبت پہلو نہیں ہے۔

اسی لیے بعد میں آنے والے چیف جسٹس صاحبان نے اس اختیار کو بہت محدود کردیا۔ اور آج ہم سوموٹو کلچر کا خاتمہ دیکھتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحبان سوموٹو لینے سے اجتناب کرتے ہیں۔ ورنہ آج بھی سوموٹو لینے کا اختیار اسی طرح موجود ہے۔ لیکن اب استعمال کرتے وقت احتیاط نظر آتی ہے۔کل سوموٹو کی وجہ سے جو مسائل ہیں، آج بنچ کی تشکیل کے حوالے سے باتیں ہوتی ہیں۔

جوڈیشل ایکٹوازم نظام انصاف کے لیے ایک حد تک ہی فائدہ مند ہوسکتا ہے ۔

عدلیہ نے ملک میں میرٹ کی حفاظت کرنی ہے۔ میرٹ کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، اگر ملک میں کسی سے بھی میرٹ سے ہٹ کر کچھ ہوتا ہے تو وہ عدلیہ کا دروازہ ہی کھٹکھٹانے پر مجبور ہوتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ہائی کورٹ کا ہر جج سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل ہوتا ہے، سب برابر ہوتے ہیں۔ اہل لوگ ہی ہائی کورٹ کے جج بنتے ہیں۔ جو ہائی کورٹ کا جج بن سکتا ہے وہ سپریم کورٹ کا جج بھی بن سکتا ہے۔

اس لیے جو جج بنے ہیں ان کی اہلیت پر کوئی ابہام نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی سنیارٹی کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ جب سب اہل ہیں تو پھر کس کو ایلیویٹ کیا جائے،اس کا بھی کوئی سسٹم ضرور ہونا چاہیے۔ بہر حال ہمارا نظام انصاف جس طرح سو موٹو اور دیگر مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب ہواہے، موجودہ مسائل کا حل بھی نکل آئے گا۔ ۔ عدلیہ کی تاریخ میں جوڈیشل کمیشن کا یہ اجلاس اپنی اہمیت رکھے گا۔ اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔