ہزاروں خواہشیں ایسی!

مقتدا منصور  منگل 25 مارچ 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

غالب نے کہا تھا کہ:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارماں، مگر پھر بھی کم نکلے

یہ حقیقت ہے کہ ان گنت خواہشیں ایسی ہوتی ہیں، جن کی تکمیل ہماری زندگی کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔اظہارِ رائے کی آزادی ہر باشعور انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے۔زمانہ ماقبل از تاریخ بھی انسان کی یہی خواہش تھی۔اسی خواہش نے انسان کو سائنسی ترقی اور سماجی ارتقاء پر اکسایا۔جمہوریت اسی خواہش کا ثمر ہے،جو صنعتی انقلاب کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا۔ یوںسولہویں صدی کے بعد سے جمہوریت اس کرہ ارض پر آبادتمام متوشش انسانوں کا فکری، سماجی اورسیاسی مطمع نظر بن گئی۔گو کہ آج بھی دنیا کے کئی معاشروں میں پشتینی بادشاہتیں، شخصی و فوجی آمریتیں قائم ہیں۔لیکن اس کے باوجود دنیا کے ہرکونے میں موجود ہر انسان کے سینے میںآزادیِ اظہار کی شکل میںجمہوریت کے لیے آرزو موجود ہے۔ وطن عزیزسیاسی جدوجہدکے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا۔ اس کا وجود جمہوریت سے وابستہ ومشروط ہے۔ مگر کبھی قومی سلامتی کے نام پر طالع آزماء جرنیلوں نے اس پر قبضہ جمایا،تو کبھی جمہورکے نام پر سفید پوش لٹیروں نے اس کا مال اڑُایا۔

کروڑوں فاقہ مست، مفلوک الحال،غربت و افلاس کی چکی میں پسے انسان جن کی آنکھوں میں ایک روشن مستقبل کے خواب سجے تھے جو معاشی ناہمواری کے خاتمے اور سماجی انصاف کے حصول کے ساتھ آزادی، مساوات اور اخوت جیسے اعلیٰ تصورات کی ترویج کے خواہاں تھے ،کبھی جمہوریت کے نام پر ان لٹیروں کے ہاتھوں کھلونا بنے ،توکبھی سفید پوشوں سے تنگ آ کر خاکی وردی والوں کے جال میں پھنسے۔ مگر افسوس صد افسوس 66برس گذر گئے، نہ سفید پوش ان کا مقدر سنوار سکے اور نہ خاکی والے اماں دے سکے۔پھر کہیں عقیدہ،تو کہیں نسلی ولسانی جذبات کے ذریعے غریبوں اوربے سہارا لوگوں کو تقسیم کیا۔ دودھ کا جلاچھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتاہے۔یہ بھی کہاوت ہے کہ کمتر برائی قابل قبول ہوتی ہے۔ آمریتوں نے اس ملک پہ جو ستم ڈھائے انھوں نے سیاسی اشرافیہ کی چیرہ دستیاں بھلانے پر مجبورکردیا۔آمروں نے جوکیا اس پر بہت کچھ لکھا گیا ، مگر سفید پوشوں کے گناہوں پر دانستہ پردہ ڈالا گیا۔ تو آئیے آج سفید پوشوں کی زیادتیوں پر بات کرتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ ایک بار پھر خاکیوں کی خواہش ہے، بلکہ اس لیے کہ شاید انھیں خودکو تبدیل کرنے کا احساس ہو جائے اور وہ18ویں صدی میں جرمنی کے بسمارک کی طرح ازخود تبدیل ہونے کا تہیہ کرلیں۔

تاکہ اس ملک کے 90فیصد غریب، مفلس اور مفلوک الحال  انسانوں کی زندگی میں بھی خوشیوں کے لمحات آسکیں۔ پاکستان کا قیام Indian Independence Act 1947کی شق8کے تحت عمل میں آیا تھا۔برطانیہ نے جاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جب تک آزاد ہونے والی دونوں مملکتیں اپنا آئین تشکیل نہیں دے لیتیں،وہ برطانیہ کی ڈومینین رہیں گی اورانڈیا ایکٹ1935 کے تحت ان ریاستوں کا انتظام چلایا جائے گا۔ بھارت نے آزادی کے فوراً بعد ڈاکٹر امبیدکرکی سربراہی میں ایک 200رکنی کمیٹی قائم کردی۔جس نے دو برس کی انتھک محنت کے بعد ایک آئینی مسودہ بھارتی پارلیمان میں منظوری کے لیے پیش کردیا۔طویل بحث ومباحثہ اور پارلیمان سے منظوری کے بعد 26 جنوری1950 کو آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی بھارت ایک مکمل آزاد ریاست بن گیا۔جب کہ پاکستان میں یہ عمل مسلسل تاخیر کا شکار رہا۔ حالانکہ قیامِ ملک سے تین روز قبل اس کی دستور ساز اسمبلی نے حلف اٹھا لیا تھا ۔بابائے قوم نے افتتاحی تقریر میں قانون سازوں کو آئین کی بنیادی جزئیات سے آگاہ کیا اور نئے ملک میں نظمِ حکمرانی کے اہداف واضح کیے۔وہ ہمہ دینیت پر مبنی ایک متحمل مزاج اور وسیع البنیاد معاشرے کے قیام کے خواہشمند تھے، جو ایک جدید جمہوریہ ہو۔

مگر 7برس کے عرصہ میں یعنی 1947 سے1954 تک اس دستور ساز اسمبلی کے کل156اجلاس منعقد ہوئے۔ جس میں سوائے قرارداد مقاصد کو منظور کرنے کے کوئی اور ٹھوس کام نہیں ہوا۔جب ایک آئینی مسودہ تیار ہوکر اسمبلی میں پیش کرنے کا وقت آیا تو گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اسمبلی ہی کو تحلیل کر دیا۔اس کے بعد ایک بار پھر آئین سازی کا کام شروع ہوا۔ 23مارچ 1956کو بہر حال آئین منظور ہوکر نافذ ہوا۔لیکن یہ آئین ڈھائی برس سے زیادہ نہیں چل سکا اور7 اکتوبر1958 کو مارشل لاء کے نفاذ کے ساتھ ہی منسوخ کردیا گیا۔ 1958 کو لگنے والے مارشل لاء تک 11برس کے عرصہ میں7وزرائے اعظم اقتدار میںآئے۔ اس عہدے پر سب سے طویل عرصہ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان فائز رہے،جن کا دور 4سال 2ماہ اور2دن پر محیط تھا۔جب کہ سب سے مختصرترین عرصہ (59دن)کے لیے آئی آئی چندریگر اس عہدے پر فائز رہے۔ باقی وزرائے اعظم میں کسی کی مدتِ اقتدار دو برس سے زائد نہیں رہی ۔اس کی بنیادی وجہ گورنر جنرل ہائوس اور ایوانِ وزیر اعظم میں شروع ہونے والاچوہے بلی کا وہ کھیل تھا،جو قائداعظم کی رحلت اور قائد ملت کی شہادت کے بعد شروع ہوگیا تھا۔

اس کھیل نے پاکستان میں نظمِ حکمرانی کو ایک تمسخر بنا دیا۔اس کی بنیادی وجہ سیاستدانوں کی کوتاہ بینی تھی،جس نے سول اور ملٹری بیوروکریسی کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے  مقاصد کی تکمیل کرسکیں۔اگر ان خرابیوں اور کوتاہیوں کا شمار کیا جائے جو آج مسائل ومصائب کا سبب بنی ہوئی ہیں، تو اندازہ ہوگا کہ ان میں سے ہر ایک کا آغاز سیاسی حکومتوں نے کیا اور انھیں انجام تک آمریتوں نے پہنچایا۔اول، بنگالی وزیراعظم کوکمزور کرنے کے لیے بعض مغربی پاکستانی سیاستدانوں نے معاملات کو اس حد تک بگاڑا کہ چند شہروں میں مارشل لاء لگانا پڑا۔یہ مارشل لاء دراصل فوج کو اقتدار میں آنے کی ترغیب تھی۔دوئم،بنگالیوں کو ان کے جمہوری حق سے محروم کرنے کے لیے ون یونٹ قائم کیا،جس نے ملک کی وفاقی اساس پرضربِ کاری لگائی۔سوئم،امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدے کرکے سوویت یونین کو خوامخواہ ناراض کیا ۔لیکن وہ اہداف بھی حاصل نہ ہوسکے، جن کے لیے یہ معاہدے کیے تھے۔ چہارم، 1957 میں اس وقت کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے امریکی صدر کے ساتھ خفیہ معاہدہ میں بڈابیر کا ہوائی اڈا امریکا کے حوالے کیا،جس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کی رسوائی ہوئی۔

پنجم،بھٹو دور اور پھر بعد کے دور میں شکارگاہوں کے نام پر لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو لیز پر دی۔جب کہ اس کے عوض ملنے والے معاوضہ کی عوام کو ہوا تک نہیں لگنے دی گئی۔یہی کچھ معاملہ شمسی ائیر بیس کا معاملہ ہے،جسے1992 میں 20برس کے لیے ایک برادر خلیجی ملک کولیز پر دیاگیا۔اس کے بارے میں عوام کو اسوقت علم ہوا، جب امریکا نے ڈرون حملوں کے لیے اسے استعمال کیا۔ ایک بردار اسلامی ملک کو ایک لاکھ ایکڑ زرعی زمین لیز پر دیے جانے کی بھی شنید ہے۔ اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں، یہ ابھی تک واضح نہیں۔خدشہ ہے کہ  اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان ان اختلافات کا حصہ بننے پر مجبور ہوگا، جومسلم دنیا میں دانستہ گہرے کیے جا رہے ہیں۔یہ تمام معاہدے ایک ایسی سویلین حکومت کررہی ہے، جو ایک جانب بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی خواہش مند ہے، جب کہ دوسری طرف بعض خلیجی ممالک کے دبائو میں آکر شدت پسند عناصر کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ ان رویوں سے موجودہ حکومت کے دہرے معیار کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔