بلدیاتی انتخابات، ایک سوال

ڈاکٹر توصیف احمد خان  منگل 25 مارچ 2014
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کیا سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہونگے اور نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کا نظام نافذ ہوگا؟ سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے لیے حکومتِ سندھ کی حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دے کر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے لیے راستہ ہموارکردیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی کی قیادت میں فل بینچ نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر قانون سازی کر کے الیکشن کمیشن کو قانون سازی کا اختیار دیں۔ فاضل عدالت نے الیکشن کمیشن کو پابند کیا ہے کہ 45 دنوں میں حلقہ بندیوں کا معاملہ نمٹا دے، یوں انتخابی شیڈول کا اعلان 15 نومبر 2014 تک مکمل ہوجائے گا۔ بلدیاتی انتخابات گزشتہ 6 برسوں سے التواء کا شکار ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے گزشتہ سال منتخب بلدیاتی اداروں کے قیام کا بیڑا اٹھایا تھا۔ عدالت نے ازخود نوٹس کے اختیار کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کرانے پر مجبور کرنے کی کوشش کی تھی۔ سپریم کورٹ کے حکم پر کنٹونمنٹ بورڈ ،پنجاب، خیبر پختون خواہ، بلوچستان ،سندھ اور وفاق کی حکومتیں بلدیاتی نظام کے قیام کے لیے قانون سازی پر مجبور ہوئیں۔ پنجاب میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔

سندھ میں ایک کمزور بلدیاتی قانون منظور کیا گیا اور سندھ حکومت کے ڈویژنل کمشنروں کی زیرِ نگرانی اور محکمہ ریونیو کے اہلکاروں سے بلدیاتی حلقہ بندیوں کرائی گئیں۔ ان حلقہ بندیوں نے نہ صرف شہری اور دیہی تفریق کو بڑھادیا بلکہ سندھ میں حزبِ اختلاف میں شامل تمام جماعتوں نے بھی ان حلقہ بندیوں کو مسترد کردیا۔  متنازعہ حلقہ بندیوں کا معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج ہوا۔ سندھ ہائی کورٹ نے حلقہ بندیوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیدیا۔ حکومتِ سندھ نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، یوں یہ معاملہ طویل ہوتا چلا گیا نتیجتاً پیپلز پارٹی کی حکومت کو مزید انتخابات نہ کرانے کا موقع مل گیا۔ یہ تاریخ کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں منتخب بلدیاتی نظام کو قبول کرنے کو کسی صورت میں تیار نہیں ہیں۔

یہ صورتحال صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ پنجاب اور خیبرپختون خواہ میں بھی ہے۔صرف بلوچستان میں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے بلدیاتی انتخابات کرائے مگر انتخابات ہوئے مہینوں گزر گئے، منتخب نمایندوں میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب نہیں ہوسکا۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کا منظور کردہ بلدیاتی نظام بہت زیادہ بااختیار نہیں، صرف پختون خواہ اسمبلی میں منظور کیے جانے والے قانون کو ایک بہتر قانون قرار دیا جارہا ہے مگر وہاں انتخابات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ سابق صدر پرویز مشرف کا دورِ حکومت اس لحاظ سے منفرد حیثیت کا حامل ہے کہ ملک میں پہلی دفعہ ایک مکمل بااختیار بلدیاتی نظام کا تصور حقیقی حیثیت اختیار کرگیا۔ اس نظام میں ایک طرف ٹاؤن اور سٹی گورنمنٹ کے ناظمین اپنے اختیارات کے لیے بیوروکریسی کے شکنجے سے آزاد ہوئے تو دوسری طرف نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کا عمل بھی شروع ہوا۔ اس نظام میں خواتین، اقلیتوں، مزدوروں اور کسانوں کو یونین کونسل کی سطح سے سٹی گورنمنٹ کی سطح تک نمایندگی حاصل ہوئی۔ پھر اربوں روپوں کے فنڈز بلدیاتی اداروں کو منتقل ہوئے۔

اس نظام کی ایک بنیادی خرابی یہ تھی کہ یہ نظام براہِ راست وفاق سے منسلک تھا۔ صوبائی حکومتوں کا کوئی زیادہ کردار اس میں نہیں تھا۔ یوں اسلام آباد سے براہِ راست کنٹرولنگ اتھارٹی ہونے کی بناء پر صوبائی خودمختاری بے معنی رہ گئی۔ سندھ میں جہاں شہری اور دیہی خلیج خاصی گہری ہونے کا معاملہ بھی سنجیدہ تھا۔ اس نظام کے ذریعے بڑے شہروں خاص طور پر کراچی، حیدرآباد، لاہور، ملتان اور فیصل آباد وغیرہ میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ سندھ میں ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات کا متحدہ قومی موومنٹ نے بائیکاٹ کیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی نے اس میں بھرپور حصہ لیا۔ کراچی کے ناظم کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کے رہنما تاج حیدر اور جماعتِ اسلامی کے نعمت اﷲ ایڈوکیٹ مد مقابل ہوئے۔ تاج حیدر معمولی ووٹوں سے شکست کھا گئے۔ نعمت اﷲ خان نے اپنی مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر کراچی کو ترقی کی راہ پر لگا دیا۔

نعمت اﷲ خان کے دور میں اوورہیڈ برج بنے، سڑکیں تعمیر ہوئیں، پانی کی فراہمی کے نئے منصوبوں پر کام شروع ہوا، پھر اس دور میں پہلی دفعہ یہ سوال ابھرا کہ شہر کا نظام چلانے کے لیے صرف ایک اتھارٹی یعنی سٹی گورنمنٹ ہونی چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے ناظمین اندورنِ سندھ مثلاً نواب شاہ، خیر پور، لاڑکانہ اور دیگر شہروں میں منتخب ہوئے۔  نئے انتخابات میں ایم کیو ایم کے نامزد کردہ مصطفی کمال کراچی کے ناظم منتخب ہوئے۔  شہر میں ہائی وے، جدید سڑکوں ، اوور ہیڈ برجز اور انڈر پاسز وغیرہ کا جال بچھ گیا۔اسی طرح شہر کے ٹریفک کے کنٹرول کرنے کے لیے وارڈن اور کمانڈ کنٹرول سسٹم قائم ہوا۔ کراچی میں زیادہ تر ترقی امراء اور متوسط طبقے کے علاقوں میں ہوئی۔ مگر دوسری طرف اندرونِ سندھ کے شہروں میں خاطرخواہ ترقی نہیں ہوسکی۔ نواب شاہ کی ناظمہ فریال تالپور، خیر پور کی ناظمہ ڈاکٹر نفیسہ شاہ منتخب ہوئیں مگر اربوں روپے کے فنڈز ریکارڈ میں درج ہونے کے باوجود اندرونِ سندھ کی سڑکیں موئن جودڑو کی سڑکوں سے زیادہ پسماندہ نظر آتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ترقی کے اس ماڈل کو بھی منفی انداز میں لیا۔

قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اپنے بنیادی فرائض کے بجائے نالیاں اور سڑکیں تعمیر کرنے، محکمہ تعلیم اور صحت وغیرہ میں بھرتیاں اور تبادلے اور تعیناتیاں کراکے اپنی کارکردگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اب انھیں صرف قانون سازی اور پالیسی بنانے تک محدود ہونا پڑے گا۔ سندھ میں نافذ یہ بلدیاتی نظام منسوخ ہوا۔ پیپلز پارٹی نے اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے برسوں مذاکرات کیے ، کئی دفعہ اعلیٰ اختیاراتی کمیٹیاں قائم ہوئیں مگر پیپلز پارٹی کی قیادت بلدیاتی نظام کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھی اس لیے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکا۔  اس مرحلے پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے کوشش کی کہ بلدیاتی نظام پر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں اتفاقِ رائے ہوجائے اور ان کی ذاتی کوششوں سے ایک قانون بھی سندھ اسمبلی سے منظور ہوا مگر ایم کیو ایم کی سندھ حکومت سے علیحدہ ہونے کی غلط حکمتِ عملی کی بناء پر پیپلزپارٹی میں موجود انتہاپسند غالب آگئے۔ یوں پھر کمشنری نظام نافذ ہوگیا۔

سپریم کورٹ کے حکم پر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک قانون بنایا، سندھ اسمبلی نے بغیر بحث کے اس قانون کو منظور کرلیا۔ اس قانون کے تحت بلدیاتی اداروں کو اسی طرح بیوروکریسی کی نگرانی میں دے دیا گیا جیسا کہ جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کے بلدیاتی قوانین میں تھا۔اب پھر پیپلز پارٹی کی قیادت ایم کیو ایم کو دوبارہ سندھ حکومت میں شامل کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ اگلے ہفتے ایم کیو ایم کے رہنما صوبائی وزارتوں کا حلف اٹھائیں گے مگر بلدیاتی نظام کو طے کرنے کا معاملہ اب بھی انتہائی اہم ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اپنی سابق چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید کی نگرانی میں تیار ہونے والے منشور میں نئے سماجی کنٹریکٹ کی شق پر غور کرنا چاہیے۔ اس نئے سماجی کنٹریکٹ کا مقصد نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کا نظام قائم کرنا تھا۔

بے نظیر بھٹو برطانیہ کے کاؤنٹی سسٹم کی اہمیت سے واقف تھیں، یوں وہ پاکستان میں یہ نظام قائم کرنا چاہتی تھیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو محض ایم کیو ایم کے تناظر میں فیصلے نہیں کرنے چاہئیں، ایم کیو ایم کی قیادت نے اپنے دورِ حکومت میں کراچی اور حیدرآباد کی سٹی گورنمنٹ کو اچھی طرز سے چلایا مگر وہ آبادی کے نچلے طبقات کی توقعات کی پاسدار ی نہیں کرسکی، یوں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے مواقعے موجود ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ منتخب قیادت کی عدم موجودگی کی بناء پر بلدیاتی اداروں کی کارکردگی پوری طرح متاثر ہوتی ہے۔ کراچی شہر مقتل بننے کے ساتھ ساتھ کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اندرونِ سندھ میں بھی صورتحال مایوس کن ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تھر میں غذائی قلات کی وجہ بدانتظامی ہی تھی ، اگر نچلی سطح کے بلدیاتی ادارے قائم ہوتے تو یہ صورتحال پیدا نہیں ہوتی۔ دو برس قبل سندھ میں آنے والے سیلاب کے دوران بھی امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ کی وجہ منتخب بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی قرار دی گئی تھی۔ کراچی میں پانی کی قلت کا خدشہ ہے اور گرمیوں میں یہ بحران مزید شدید ہوجائے گا۔ ان مسائل کا حل نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کا بلدیاتی نظام ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنے کے ساتھ جدید بلدیاتی نظام کے قانون کے مسودے پر بھی انتخاب کرنا چاہیے تاکہ سندھ کے شہر ترقی کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔