خدا کے واسطے بتاؤ

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 26 مارچ 2014

ہر روز پانچ، دس یا 50 خاندان اپنے پیاروں کے مرنے پر ماتم کرتے ہیں اس سے بہتر تو یہ ہے کہ ہم سب 18 کروڑ لو گ ایک روز ایک ساتھ ماتم کر لیں ایک ساتھ روئیں ایک ساتھ اپنے آپ کو پیٹیں ایک ساتھ اپنے آپ کو کوسیں ایک ساتھ اپنے نصیبوں اور مقدر پر نوحہ پڑھیں جب ایک ساتھ لوگوں کی آہ و بکا ہو گی جب ایک ساتھ سب لوگ روئیں گے ماتم کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ خدا کو ہم سب پر رحم آ ہی جائے۔ ہو سکتا ہے کہ خدا ہم سب کے گناہ معا ف کر دے ہو سکتا ہے کہ خدا ہم سب پر اپنا فضل و کرم کر دے۔

اس کے علاوہ ان عذابوں، مصیبتوں سے چھٹکارے کی کوئی اور صورت دور دور تک نظر نہیں آ رہی ہے۔ بے بسی اور بے کسی کی اب تو حد ہو چکی ہے چاروں طرف گھپ اندھیرا چھایا ہوا ہے انسان انسا ن سے ڈر رہا ہے۔ خون کی وہ ہولی کھیلی جا رہی ہے جسے دیکھ کر موت بھی چیخ و پکار کر رہی ہے انسان اور انسانیت کی اس سے زیادہ تذلیل ممکن ہی نہیں ہے۔ انسانوں کی ایسی ذلت اور بے توقیری تو چنگیز خان اور ہلاکو خان کے ادوار میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ ایک طرف بھوک، غربت، افلاس، مہنگائی، قحط انسانوں کو زندہ نگل رہے ہیں تو دوسر ی طرف وحشی اور جنونی اپنی وحشت اور جنونیت میں پاگل ہو چکے ہیں اور دوسری طرف مشکل کشائی کے ذمے دار عیش و عشرت میں غرق ہیں لوٹ مار، کر پشن اور عیاشیوں کے بازار اس قدر گرم ہیں کہ جس کے آگے دوزخ کی گرمی شرما جائے۔ خلیل جبران کہتا ہے قابل رحم ہے وہ قوم جس کی آواز ماتمی جلوس کے سوا کبھی سنائی نہ دے جو اپنے کھنڈروں پر فخر کرتی ہو اور صرف اس وقت سنبھلنے اور ابھر نے کی کوشش کرے جب اس کا سر تن سے جدا کرنے کے لیے تلوا ر اور لکڑی کے درمیان رکھا جا چکا ہو۔ قابل رحم ہے وہ قوم جو غنڈے کو ہیرو بنائے قابل رحم ہے وہ قوم جو اپنے نئے حکمرانوں کا استقبال و الہانہ نعروں سے کرتی ہو اور پھر اسے صرف اس لیے رخصت کرتی ہو کہ ایک بار پھر نئے حکمرانوں کا والہانہ استقبال کرے، جب کہ جون ایلیا کہتے ہیں ہم ایک ہزار بر س سے تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔

دوسری طرف برک نے کہا ہے اقوام جن کی رہنمائی چھوٹے دماغوں، چھوٹے دلوں سے ہوتی ہے انھیںاپنے آپ کو صدموں، آفتوں اور خاتمے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ آج ہم جس جس عفریت کا سامنا کر رہے ہیں ان سب کے خالق ہم خود ہی ہیں، یہ سب ہماری اپنی ہی فخریہ پیشکش ہیں ہم اپنے قاتل خود ہی نکلے ہیں ماضی میں ہم اپنی دانست میں کچھ زیادہ ہی سمجھداری اور ہوشیاری کے مظاہرے کے مرتکب ہوئے لیکن دوسروں کی تباہی کا سامان اپنی تباہی کا سامان بن گیا۔ اب چیخنے چلانے رونے سے کیا فا ئدہ جس کا سو چا تھا وہ تو نہ ہو نا تھا اور نہ ہوا اور جس کا وہم و خیال بھی نہ تھا وہ سب کچھ ہو گیا ۔ ساری کی ساری سمجھداری اور ہوشیاری اپنے ہی گلے پڑ گئی اب گھر جل رہا ہے تو گھر کے رکھوالے آگ بجھانے کے بجائے مذاکرات مذاکرات کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں ہمارے کچھ لیڈروں کو بولنے کی بیماری لگ گئی ہے۔ بغیر سوچے سمجھے بولے ہی چلے جاتے ہیں حالانکہ وقت سب سے بڑی درس گا ہ ہوتا ہے لیکن وہ اتنے کند ذہن واقع ہو ئے ہیں کہ عقل کو استعمال کرنا گناہ کبیرہ سمجھ بیٹھے ہیں۔

مشہور کہاوت ہے کہ جب ایک طالب علم حصول تعلیم کے لیے آمادہ اور تیار ہو جاتا ہے تو استاد بھی خود آن مو جود ہوتا ہے 66 سال کسی بھی ملک کو مستحکم اور خو شحال ہونے اس کے اداروں اور نظام کو مضبوط ہونے اس کے لیڈروں کو بلو غت پر پہنچنے کے لیے کافی ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے جیسے جیسے ہماری عمر بڑھ رہی ہے ہمارا ذہنی سفر آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی سمت میں رواں دواں ہے نااہلی اور بدعنوانی میں ہم نے ایتھوپیا کے لیڈروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اور پھر بھی بضد ہیں کہ ہم زند ہ قوم ہیں جناب عالی زندہ چیزیں اپنا احسا س دلا تی ہیں ان کا وجود چیخ چیخ کر اپنے ہونے کا یقین دلاتا ہے جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم دیمک زدہ قوم میں تبدیل ہو چکے ہیں بے حسی میں ہمارا ثانی کوئی نہیں کر پشن، لوٹ مار کے ہم بے تاج بادشاہ ہیں انتشار، نفسا نفسی، بے یقینی، عدم برداشت، عدم رواداری ہمارے قومی نشانات بن چکے ہیں۔ انتہا پسندی، شدت پسندی، دہشت گردی کی وجہ سے پوری دنیا میں ہماری مشہوری کا کوئی نعم البدل نہیں باتیں کرنے میں ہم سے کوئی جیت نہیں سکتا ہٹ دھرمی، بے شرمی، ہمار ے خون کے ساتھ رگوں میں رواں دواں ہے پھر بھی ہم زندہ قوم ہیں ہم سے بڑا تماش بین دوسرا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

تماشا کرنے اور تما شا دیکھنے کے ہم عادی مجرم بن چکے ہیں پھر بھی ہم زندہ قوم ہیں۔ جہالت، بنیاد پرستی، رجعت پرستی، قدامت پرستی ہمارے آبائو اجداد کی انمول نشانیاں ہیں۔ ان کو چھوڑنے کی بات پر ہم مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں کام کرنے، غور و فکر سے عقل و دانش سے ہمیں نفرت ہے سوچنے سے ہماری طبیعت خراب ہونے لگتی ہے پھر بھی زندہ قوم ہیں۔ حالانکہ ہمیں دفن ہوئے سالوں بیت چکے ہیں قبر تک کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا ہے پھر بھی ہم زندہ قوم ہیں دنیا میں تقریباٍ 197 خود مختار ممالک ہیں جن میں اسلامی ممالک کی تعداد 57 ہے۔ ان میں ایران، بنگلہ دیش، افغانستان، پاکستان سمیت عرب اسلامی ممالک اور مغربی افریقہ کے اسلامی ممالک شامل ہیں یہ تمام اسلامی ممالک اپنے آپ کو جمہوریہ کہلوانے میں فخر محسو س کرتے ہیں جب کہ صرف پاکستان کو مملکت خداداد کہلوانے کا فخر حاصل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں عقل کل ہونے کا اعزازی اعزاز بھی حاصل ہے۔

مجال ہے کسی میں کہ ہم میں کوئی خامی نکال سکے ایسی ریاست جو اپنے شہریوں کو پینے کے لیے صاف پانی تک مہیا نہ کر سکے جہاں80 فیصد لوگ غربت کی سطح سے نیچے گر چکے ہوں۔ جہاں مہنگائی کا یہ عالم ہو کہ لوگ فاقوں پر مجبور ہوں اپنے لخت جگروں اور اپنے جسموں کے اعضاء چند کوڑیوں کے عوض بیچنے پر مجبور ہوں۔ جہاں اندھیرے مقدر بنے ہوئے ہوں جہاں ہر گھر میں ماتم برپا ہو اور نوحے پڑھے جا رہے ہوں جہاں فتوئوں کی ایسی بارش ہو رہی ہو کہ فرشتے بھی آتے ہوئے ڈریں کہ کہیں ان کے لیے کوئی فتوی جاری نہ ہو جائے۔ جہاں انسان خدا کی عبادت کرتے ہوئے کانپتا ہو تو پھر خدا کے واسطے بتائو ہمیں ایٹمی ریاست ہونے پر کیوں کر فخر ہو سکتا ہے، اس احساس تفاخر کی عوامی بنیاد کیا ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو زندہ قوم کہلوانا کیوں کر اچھا لگ سکتا ہے۔ خدا کے واسطے بتائو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔