- کوئٹہ میں بارش اور برفباری کے بعد موسم سرد، زیارت میں منفی 3 ڈگری ریکارڈ
- پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر کا ’نشے کی حالت‘ میں طالب علم پر مبینہ تشدد، مقدمہ درج
- مودی سے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم کی نمائش پر 24 طلبا گرفتار
- پیٹرولیم مصنوعات میں ممکنہ اضافے پر پمپس اچانک بند، عوام رُل گئے
- گورنر سندھ کی سابق صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات
- بھارت نے 12پاکستانی ماہی گیروں کو رہا کر دیا،106 ماہی گیرتاحال بھارتی جیلوں مقید
- پرویزالہیٰ کے ڈرائیوراور گن مین سے شراب کی بوتلیں برآمد، مقدمہ درج
- لوگ بے روزگاری کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں، سندھ ہائی کورٹ
- عمران خان کا فواد چوہدری کے آئینی حقوق کیلیے چیف جسٹس کو خط
- شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، دہشت گرد کمانڈر ہلاک
- پاکستان سپر لیگ نے عالمی سطح پر اپنی شناخت بنالی ہے، نجم سیٹھی
- گلگت بلتستان میں 3 جدید سائنس لیبارٹریاں بنانے پر اتفاق
- سیالکوٹ میں شادی سے انکار پر پانچ بچوں کی ماں قتل
- حکومت اور اپوزیشن میں کوئی صلاحیت نہیں ہے، شاہد خاقان
- پیپلزپارٹی کا عمران خان کو قانونی نوٹس بھیجنے کا اعلان
- جعلی لیڈی ڈاکٹر بن کر ہراساں کرنے والا ملزم گرفتار
- ڈیرہ غازی خان میں سی ٹی ڈی کی کارروائی، دو دہشت گرد ہلاک
- کراچی میں اتوار کی صبح بوندا باندی کا امکان ہے، محکمہ موسمیات
- ای پاسپورٹ فیس میں اضافے کی خبریں بے بنیاد قرار
- متحدہ عرب امارات کے صدر پیر کو ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچیں گے
’ویل وومین کلینکس‘ بہتر نتائج کے لئے لائحہ عمل

تیسری دنیا کے معاشروں میں عورتوں کی صحت سماج کا سب سے نظر انداز کیا ہوا پہلو ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل
پاکستان میں ہمیشہ سے ادارہ جاتی باہمی تعامل اور تعاون ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔
اس تناظر میں زمینی حقائق پر مبنی ایک مزاحیہ مثال سماجی سطح پر بہت مشہور ہے کہ سڑک بننے سے قبل ٹیلی فون، گیس اور بجلی فراہم کرنے والے ادارے اپنا کام نہیں کرتے البتہ سڑک بننے کے بعد یکے بعد دیگرے ان سب محکموں کو یہی سڑک جگہ جگہ سے اکھاڑ کر، اپنا کام کرنا یاد آجاتا ہے۔ یہ مثال عدم تعاون کی تلخ سماجی حقیقت کی انتہائی سطح کو بیان کرتی ہے۔
اگر مختلف ادارے ایک دوسرے سے تعاون کریں اور سول سوسائٹی آگے بڑھ کر کچھ ذمہ داریاں رضاکارانہ طور پر خود اٹھانے کو تیار ہوجائے تو کم و بیش سبھی شعبوں میں حکومتوں کے ڈیلیور کرنے کا تناسب بہت بہتر ہوسکتا ہے۔
تیسری دنیا کے معاشروں میں عورتوں کی صحت سماج کا سب سے نظر انداز کیا ہوا پہلو ہوتا ہے۔ تقریباً ایسی ہی صورت حال ہمارے یہاں بھی ہے۔تاہم امسال سندھ میں محکمہ صحت نے اپنے اصلاحاتی پروگرام میں معمول سے ہٹ کر اس نظرانداز شدہ پہلو پر خصوصی توجہ مرکوز کی اور صوبے بھر سے ہیلتھ پروفیشنلز کا انتخاب کرکے خواتین کی صحت سے متعلق ورکشاپ کا انعقاد کیا۔
محکمہ صحت نے صوبہ بھر میں THQ’s اور DHQ’s کی سطح پر Well Woman Clinic کے قیام سے قبل “Early Detection of CA Breast & CA Cervix and Early Detection and Management of Diabetes in Pregnancy” کے عنوان سے ہیلتھ پروفیشنلز کے لیے کئی بیچز میں ایک پانچ روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا جس میں جدید ترین تحقیقات کی روشنی میں سکریننگ کی مہارتوں سے متعلق بھرپور شعور دیا گیا ۔
بتایا گیا کہ ویل وومین کلینکس کیا ہوتے ہیں ؟ اسی طرح ویل وومین کلینکس کے بہتر انداز میں کام کرسکنے کے لیے متعلقہ لوگوں کو تکنیکی امور سے بھی مکمل آگہی فراہم کی گئی۔ بعدازاں ہسپتالوں میں Well Woman Clinic کے نام سے جگہیں مختص کیں اور ابتدائی مرحلہ پر پہلے سے موجود ہیومن ریسورسز میں سے ہی بعضکو علیحدہ ذمہ داریاں سونپیں اور IT Gadgets وغیرہ دے کر کام شروع کردیا گیا۔
یہ سب یقینا کافی نہیں ہے البتہ ایک بڑی منزل پر پہنچنے کے لیے سفر کا درست انداز میںآغاز ضروری ہے جسے پلاننگ اور ڈیویلپ منٹ ہر دو پہلوؤں کے اعتبار سے بہتر سے بہتر کرنے کی ضرورت رہتی ہے ۔ اگر ’ ویل وومین کلینکس ‘ کی موجودہ صورت حال دیکھی جائے تو شعبہ گائنی میں معمول میں آنے والے مریضوں کو ڈاکٹرز خود ہی ’ ویل وومین کلینک ‘ کی طرف ریفر کرتے ہیں۔
مریض کے عوامی سطح پر کسی آگہی کی بنا پر اپنے مسئلہ کے لیے براہ راست ویل وومین کلینک پر آنے کا تناسب ابھی انتہائی کم ہے۔ اگر حمل یا کسی دوسری تکلیف کی وجہ سے کوئی عورت شعبہ گائنی میں نہ آئے تو اپنی صحت کی جانچ پرکھ اور سکریننگ کے لیے ویل وومین کلینک تو کجا ہسپتال آنے کا بھی کوئی تصور معاشرے میں نہیں پایا جاتا اور یہ عدم توجہی ویل وومین کلینکس کی افادیت کو محدود کردیتی ہے۔
ان کلینکس سے زیادہ بہتر انداز میں کام کیسے لیا جاسکتا ہے؟ یہ حقیقت میں تو ایک تھنک ٹینک کی سطح کا کام ہے ، البتہ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل چند پہلو ہوسکتے ہیں جن کے مفید ہونے کا اندازہ کرنے کیلئے ابتدائی سطور میں تعامل اور تعاون کے تناظر میں مذکور مثال ذہن میں تازہ کرنا ہوگی۔ اگر یہ چند باتیں ازبر ہوجائیں تو میرے نزدیک موجودہ صورتحال کی ویل وومین کلینکس سے عوام کو پہنچنے والا فائدہ کئی گنا بڑھ سکتا ہے:
٭ محکمہ صحت کی نگرانی میں الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ایک بھرپور اور موثر مہم ویل وومین کلینکس کے تعارف،کام اور افادیت کے بارے میں چلائی جائے۔٭
ہر تحصیل اور ضلع کی سطح پر موجود گرلز کالجز پر لازم کیا جائے کہ وہ کم از کم سہ ماہی بنیادوں پر اپنے متعلقہ THQ اور DHQ Hospital کے ویل وومین کلینک کے ڈاکٹرز کی ورکشاپس کا انتظام کریں جہاں سے آج کی نوجوان لڑکیوں اور مستقبل کی ماؤں کی مسلسل ذہن سازی ہوکہ ورکشاپس میں بتائی گئی ہدایات اور معلومات کی روشنی میں اپنی صحت پر نہ صرف توجہ دیں بلکہ ضرورت پڑنے پر ڈاکٹرز سے رجوع بھی کریں۔٭
شہروں میں قائم کمیونٹی سینٹرز پر آگاہی مہم چلائی جائے۔٭ دیہات میں چلنے والی ویکسی نیشن کی مہم کے دوران گھر گھر پمفلٹس کی تقسیم سے بغیر کسی اضافی HR کی فراہمی کے اس مہم کو بہت فائدہ مند بنایا جاسکتا ہے۔
٭ شہروں اور دیہاتوں کی سطح پر مساجد کے آئمہ سے تعاون کی اپیل کی جائے کہ وہ بھی کم از کم سہ ماہی بنیادوں پر صحت اور تندرستی کی اہمیت کا تذکرہ ضرور کریں جس میں خواتین کی صحت کا خیال رکھنے کو ایک سماجی ذمہ داری کے طور پر پیش کیا جائے۔٭ سول سوسائٹی کے نامور لوگوں کو متوجہ کیا جائے کہ وہ اس سلسلہ میں آگاہی واکس کا اہتمام کریں۔
اگر یہ چند کام کر لیے جائیں تو قوی امید ہے کہ ’ویل وومین کلینکس ‘ کی افادیت بغیر کسی اضافی فنڈنگ اور HR کی فراہمی کے کئی گنا بڑھائی جاسکتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔