تنازع کشمیر اور فلسطین ،حل کب نکلے گا ؟

ایڈیٹوریل  جمعرات 27 اکتوبر 2022
اقوام متحدہ کے مختلف فورمزپربھی دہائیوں سے ان دونوں تنازعات پربات ہوتی چلی آرہی ہے مگرہنوزیہ دونوں تنازعات حل طلب ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

اقوام متحدہ کے مختلف فورمزپربھی دہائیوں سے ان دونوں تنازعات پربات ہوتی چلی آرہی ہے مگرہنوزیہ دونوں تنازعات حل طلب ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

فلسطین کا تنازع نیا نہیں ہے‘ جس طرح کشمیر کا تنازع نیا نہیں ہے بلکہ دہائیوں سے فلسطینی اور کشمیری دونوں اپنی آزادی کے حق کے لیے جدوجہد کرتے چلے آ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مختلف فورمز پر بھی دہائیوں سے ان دونوں تنازعات پر بات ہوتی چلی آ رہی ہے مگر ہنوز یہ دونوں تنازعات حل طلب ہیں۔ تنازع کشمیر کیوں پیدا ہوا‘اس کے محرکات کیا تھے اور اس کے حل کے لیے اب تک کیا کوششیں ہوئی ہیں، اس کے بارے میں بھی پوری دنیا آگاہ ہے اور اقوام متحدہ بھی قطعی طور پر لاعلم نہیں ہے۔

تنازع کشمیر پیدا ہونے کے بعد بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں وعدہ کیا کہ کشمیر میں استصواب رائے کرایا جائے گا اور کشمیر کے لوگ پاکستان یا بھارت جس کے بھی ساتھ الحاق کرنا چاہیں وہ اپنے فیصلے میں آزاد ہوں گے۔

ان کی مرضی کے مطابق مسئلے کا حل نکالا جائے گا لیکن بھارت نے عالمی فورم پر وعدہ کرنے کے باوجود کبھی اس پر عمل نہیں کیا اور مسلسل استصواب رائے کا حق دینے سے انکاری چلا آ رہا ہے‘ یہ تنازع آج بھی اقوام عالم کے سامنے جوں کا توں موجود ہے۔

پاکستان نے شروع دن سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی سیاسی اور سفارتی حمایت کی ہے اور پاکستان آج بھی کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتا ہے۔

اسی طرح فلسطینیوں کا تنازع دہائیوں پرانا ہے‘ سرزمین عرب پر اسرائیل کا قیام کیسے ہوا اور کیوں ہوا‘ اس بحث میں پڑے بغیر فلسطین کے تنازع کا جائزہ لیا جائے تو فلسطینیوں کا مقدمہ خاصا مضبوط ہے۔ دنیا تسلیم کرتی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی زمین پر قائم کیا گیا ہے اور فلسطینی اس سرزمین پر ہزاروں برس سے آباد چلے آ رہے ہیں۔

آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے فلسطینیوں کی جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ایک آزاد ریاست کے قیام کے لیے انھوں نے بڑے پیمانے پر قربانیاں دی ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ پاکستان نے آزاد فلسطین ریاست کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔

فلسطینیوں کے ساتھ امریکا اور اسرائیلی حکومت نے متعدد بار معاہدے کیے لیکن اسرائیلی حکومت نے کبھی ان معاہدوں کی پاسداری نہیں کی اور وہ اب بھی بڑی ڈھٹائی سے فلسطینیوں کی زمینوں پر یہودی بستیاں آباد کرنے میں مصروف ہے۔

اس وقت فلسطین اتھارٹی کے نام سے ایک خود مختار خطہ موجود ہے اور اس کے صدر محمود عباس ہیں جو مرحوم یاسر عرفات کے بعد فلسطینی ریاست کے صدر بنے تھے۔آج کل اسرائیلی فورسز مقبوضہ مغربی کنارے میں کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

اگلے روز کی خبروں کے مطابق اسرائیلی فوج کی کارروائی کے دوران 6فلسطینی شہید اور 21زخمی ہوئے ہیں۔ واقعات کے مطابق مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج نے چھاپہ مار کارروائیوں کے بہانے فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔ جارحیت پسند فوج نے اندھا دھند فائرنگ کرکے چھ نوجوانوں کو شہید اور 21 کو زخمی کردیا۔

بتایا جاتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے نابلس میں سرچ آپریشن کے دوران گھر گھر چھاپے مارے اور متعدد فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔ اسی دوران اسرائیلی فوج نے ایک مقام پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے چھ فلسطینی نوجوان شہید اور 21 زخمی ہوگئے۔

شہید اور زخمی ہونے والوں کی عمریں 14 سے 34 سال کے درمیان ہیں اور یہ سب نہتے تھے۔ فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ زخمی ہونے والوں کی حالت تشویشناک ہے۔ اسرائیلی فوج نے گولی لگے زخمی نوجوانوں کو مرنے کے لیے سڑک پر چھوڑ دیا۔ اگر انھیں بروقت اسپتال لایا جاتا تو نوجوانوں کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں لیکن اسرائیلی فورسز نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم یائر لیپڈ نے بتایا کہ فوجی کارروائی میں فلسطینی جنگجوؤں کے نئے اتحاد ’عرین الاسود‘ کے سربراہ ودیع الحوح اور ان کے ساتھیوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی اس کھلی جارحیت پر بڑی تعداد میں فلسطینی سڑکوں پر نکل آئے اور اسرائیلی فورسز کے مظالم کے خلاف شدید احتجاج کیا۔

ادھر انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے غزہ میں ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے غزہ پٹی میں اسرائیل کے غیر قانونی حملوں میں ممکنہ جنگی جرائم کی بین الاقوامی فوجداری عدالت سے تفتیش کرانے کی اپیل کی ہے۔

اسرائیل کی فوج فلسطینیوں کے ساتھ ہی مصروف جنگ نہیں ہے بلکہ اس نے اپنے ہمسایہ عرب ملکوں پر جارحیت کر کے ان کے علاقوں پر بھی قبضے کر رکھے ہیں اور انھیں اسرائیلی ریاست کا علاقہ ڈکلیئر کر دیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل جب شام میں انتشار پھیلا اور وہاں خانہ جنگی شروع ہوئی تو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل کی فورسز نے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ شام کی سرکاری فوجیں چونکہ باغیوں کے ساتھ لڑائی میں مصروف تھیں۔

اس لیے وہ گولان کی پہاڑیوں کے دفاع کے لیے آگے نہ بڑھ سکیں اور اسرائیلی فورسز نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے شام کے علاقے پر زبردستی قبضہ کر لیا اور بعد میں غزہ کی پہاڑیوں کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہی نہیں اسرائیلی فورسز نے اردن کے علاقے پر بھی قبضہ کر رکھا ہے جب کہ مصر کے ساتھ جنگ ہوئی تو اسرائیل نے مصر کے علاقے صحرائے سینا پر قبضہ کر لیا اور کئی برس تک یہ قبضہ برقرار رہا۔

بعد میں مصر کے اس وقت کے صدر انور السادات کے دور میں ایک معاہدے کے بعد اسرائیل نے سرائے سینا کا علاقہ خالی کر کے مصر کے حوالے کر دیا۔

اسرائیل نے لبنان جیسے پرامن اور خوشحال ملک میں مسلسل مداخلت کی‘ وہاں مختلف قسم کے اختلافات کو ہوا دی اور اس پرامن اور خوشحال ملک کو خانہ جنگی اور انتشار کے سپرد کر دیا‘ لبنان آج بھی اسرائیل کے لگائے ہوئے زخموں سے نڈھال ہے اور وہاں ابھی تک مثالی امن قائم نہیں ہو سکا۔ اسرائیل کے پھیلاؤ اور جارحیت کی بنیادی وجہ عرب ملکوں کے باہمی اختلافات بھی ہیں اور عالم اسلام کی کمزور حیثیت بھی ہے۔

تنازع کشمیر پر بھی غور کیا جائے تو صورت حال ملتی جلتی نظر آتی ہے۔ بھارت نے کشمیر پر فوج کشی کر کے اس کے ایک حصے پر قبضہ کر رکھا ہے اور اب اس نے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ریاست کا درجہ دے دیا ہے۔

کشمیری 70برس سے زیادہ عرصے سے بھارتی تسلط سے آزاد ہونے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور ان کی یہ جدوجہد اپنے بل بوتے پر ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت نے اپنی بساط کے مطابق کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت کی ہے۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم پر بھی کئی بار فلسطین اور کشمیر کے تنازع پر قراردادیں پاس ہو چکی ہیں لیکن بھارت اور اقوام متحدہ نے کسی کا کوئی اثر نہیں لیا۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے۔

اس وقت دنیا بھر کے مسلمان ملکوں کا جائزہ لیا جائے تو کسی ایک کو بھی ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ مسلمان ملکوں کی معیشتیں انتہائی پسماندہ ہیں‘ یہ معیشتیں درحقیقت درآمدی معیشتیں ہیں‘ صنعتی ترقی میں بہت پیچھے ہیں جب کہ زرعی حوالے سے بھی پسماندگی سب کے سامنے ہے۔

مسلمان اکثریتی آبادی والے ملکوں میں ملائیشیا‘ ترکی اور مراکش کسی حد تک بہتر ملک قرار دیے جا سکتے ہیں لیکن امریکا اور مغربی یورپ‘ جاپان وغیرہ سے ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اسی طرح سعودی عرب‘ کویت‘ قطر‘ عمان‘ یو اے ای اور بحرین امیر ملک ضرور ہیں لیکن صنعتی اور سائنسی طور پر ترقی یافتہ نہیں ہیں۔

پاکستان کی طرف نظر دوڑائیں تو یہ ایٹمی طاقت ہے جو یقیناً ایک بہت بڑا کارنامہ ہے لیکن پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی برسوں سے انتہائی خراب چلی آ رہی ہے‘ زرعی شعبہ بھی زوال کا شکار ہے‘ ملک توانائی کے بحران میں مبتلا ہے‘ موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

اسی طرح پاکستان پانی کی کمی والے ملکوں میں شامل ہے اور یہاں زیرزمین پانی کی سطح مسلسل کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی ریاست معاشی طور پر مضبوط نہ ہو تو وہ اقوام عالم میں بھی اپنا وزن کھو بیٹھتی ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ تنازع فلسطین اور تنازع کشمیر حل نہ ہونے کی وجہ معاشی زوال کے پیمانوں میں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔