بے اصول سیاست کی انتہا

محمد سعید آرائیں  جمعرات 27 اکتوبر 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ’’وزیر اعظم کی حیثیت سے ذمے داری میری تھی ، مگر حکمرانی کسی اور کی تھی اگر مجھے آدھا اقتدار بھی ملتا تو میں شیرشاہ سوری سے مقابلہ کرتا۔‘‘

عمران خان کے اس اعتراف پر ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ہمارے سیاستدان تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے ، ہم مدت سے یہی دیکھ رہے ہیں اور بے شمار وزرائے اعظم یہی بات کہہ چکے ہیں جو اب عمران خان نے کی ہے۔

اس لیے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ اقتدار کے لیے حکومت نہ لیا کریں جن لوگوں کو اختیارات کے استعمال کا حق ہے انھیں ہی حکومت کرنے دیا کریں۔

پروگرام میں عمران خان کے سابق معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بیان پر ہنسی بھی آ رہی ہے اور رونا بھی کیونکہ وہ اپنے آپ کو اصول پسند کہتے ہیں تو اختیارات نہ ہونے پر مستعفی کیوں نہیں ہوئے گئے تھے؟

ایک سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بیان پر میں بھی کنوینس ہوں کہ ذمے داری کسی اور کے پاس ہوتی ہے جب کہ اقتدار کسی اور کے پاس ہوتا ہے اب عمران خان کا یہ بیان باعث حیرت ہے انھیں اس وقت اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرکے حکومت چھوڑ دینی چاہیے تھی جب وہ وزیر اعظم تھے۔

سینئر صحافیوں نے بھی جاوید چوہدری کے پروگرام میں کہا کہ عمران خان نے اپنے مخالفین کے لیے ہزاروں باتیں کیں اور انھوں نے ان ججز کو بھی نہیں بخشا جن سے انھیں زیادہ سہولت نہیں ملی۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی کیا کچھ نہیں کہا اور انھیں یہ ساری باتیں اقتدار کے دنوں میں کیوں یاد نہیں آئیں؟ جو اب اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد وہ کر رہے ہیں۔

عمران خان کوتوقع ہی نہیں تھی کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔ پہلے تووہ تحریک عدم اعتماد کا تمسخر اڑاتے رہے جب کہ ان کے وزراء انھیں یقین دلاتے رہے کہ اول تو اپوزیشن تحریک لائے گی نہیں اور لائے بھی تو تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی ہی نہیں۔

عمران خان نے تحریک مسترد کرانے کے لیے اسپیکر قیصر سے کہا مگر وہ غیر آئینی اقدام سے ڈر گئے اور نااہلی کے خوف سے مستعفی ہوگئے اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے تحریک غیر آئینی طور پر مسترد کردی جس پر عمران خان نے قومی اسمبلی توڑ کر مزید تین ماہ نگران وزیر اعظم رہنے کے لیے نئے الیکشن کی سمری صدر مملکت کو بھیج دی اور پی ٹی آئی کے صدر مملکت نے فوراً اسمبلی توڑ دی۔

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ نے غلط تو قرار دی مگر غیر قانونی اقدام پر قاسم سوری کے خلاف کوئی بھی ایکشن نہ لیا اور قومی اسمبلی میں کرائے جانے والے تمام اقدامات کی ناکامی پر بااختیار وزیر اعظم کو گھر جانا پڑا۔ سابق وزیر اعظم کے بے اختیاری کے بیان پر پی ٹی آئی کے سوا کوئی بھی یقین نہیں کر رہا اور سب اس پر ہنس رہے ہیں اور جھوٹ قرار دے رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ عمران خان نے پوری طاقت سے حکومت کی اور اب بے اختیاری کا رونا رو رہے ہیں۔ پورا ملک جانتا ہے کہ عمران خان ایک مکمل بااختیار وزیر اعظم تھے جنھوں نے اپوزیشن کو کچھ سمجھا ہی نہیں بلکہ اسے پوری قوت سے کچلا اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے تمام اہم رہنماؤں کو گرفتارکرا کر جیلوں میں بھی ان کو زیر عتاب رکھا۔

سابق صدر آصف زرداری ہوں یا اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کسی کو نہیں بخشا گیا اور سب کو چور، ڈاکو قرار دے کر دنیا بھر میں بدنام کرایا۔عمران خان اگر اصول پرست سیاستدان اور بے اختیار وزیر اعظم تھے تو انھوں نے اقتدار میں رہنے کے لیے سائفر کا حربہ کیوں استعمال کیا۔

عمران خان نے اقتدار میں رہنے کے لیے اپنے تمام حربے استعمال کیے ، اتحادیوں کی بلیک میلنگ برداشت کی۔ ملک کو دنیا میں اپنی غلط پالیسیوں سے تنہا کردیا اور اپنے تمام تر حکومتی اختیارات صرف اپوزیشن کو کچلنے کے لیے استعمال کرتے رہے اگر وہ بے اختیار تھے تو اقتدار سے کیوں چمٹے رہے اور انھوں نے استعفیٰ کیوں نہیں دیا تھا۔

انھیں چاہیے تھا کہ وہ اصول پرستی دکھاتے اور اقتدار خود چھوڑتے اور عوام سے نیا مینڈیٹ لیتے عوام میں آ کر انھیں اپنی بے اختیاری کے حقائق بتاتے تو ان کی اب کی جانے والی باتیں قابل اعتبار ثابت ہوتیں مگر تحریک کی کامیابی کے بعد انھیں یہ سب کچھ کیوں یاد آیا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔