سی پیک؛ پاکستان کا 18.5 ارب ڈالر کے پانچ منصوبوں پر کام تیز کرنے کا مطالبہ

شہباز رانا / حسیب حنیف  جمعـء 28 اکتوبر 2022
3,100 میگاواٹ کے بجلی منصوبے بھی شامل،سابق حکومت نے منصوبوں کو متنازع بنایا،احسن اقبال (فوٹو: فائل)

3,100 میگاواٹ کے بجلی منصوبے بھی شامل،سابق حکومت نے منصوبوں کو متنازع بنایا،احسن اقبال (فوٹو: فائل)

اسلام آباد: پاکستان نے چین سے سی پیک کے 18.5 ارب ڈالر کے پانچ منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کرنے کا مطالبہ کردیا ساتھ ہی 3,100 میگاواٹ کے بجلی منصوبوں پر بھی کام کی رفتار بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

گزشتہ روز سی پیک کی جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا 11واں اجلاس ہوا جس کی صدارت وفاقی وزیرمنصوبہ بندی پروفیسراحسن اقبال اورچین کے وائس چئیرمین این ڈی آر سی لن نین شیو نے وڈیو لنک کے ذریعے مشترکہ طور پر کی۔

اجلاس میں کسی نئے منصوبے کا اعلان نہیں کیا گیا بلکہ اب تک آٹھ سال سے تاخیر کا شکار منصوبوں پر کام میں تیزی لانے کا جائزہ لیا گیا۔

پاکستان نے جن منصوبوں پر کام کی رفتار تیزکرنے پرزور دیا ان میں 10ارب ڈالر کا ریلوے کا ایل ایم ۔I منصوبہ،1.2ارب ڈالر کا کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ،1.6 ارب ڈالر کا آزاد پتن ہائیڈروپاور پراجیکٹ،2.5 ارب ڈالر کا کوہالہ پاورپراجیکٹ اور تین ارب ڈالر کا تھرکول بلاک ون پراجیکٹ شامل ہیں۔یہ مصوبے برسوں سے تاخیر کا شکار ہیں۔پاکستان نے چین سے 584 ملین ڈالر کے گوادر پاورپلانٹ کی منتقلی کی بھی درخواست کی۔

وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال نے خصوصی اقتصادی زونز کے قیام سمیت کچھ عرصہ سے نظر انداز کیے گئے بعض منصوبوں کی نشاندہی کی اور چین سے درخواست کی وہ پاکستان کے ریل سسٹم کو بچانے کیلئے پاکستان کی مددکرے کیونکہ گزشتہ ایک سال سے ریلوے سسٹم میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی،اگر اسے نظر اندازکیا جاتا رہا تو ایک سال میں پورا ریل سسٹم بیٹھ سکتا ہے۔

اجلاس کا کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ساری تفصیلات وزیراعظم شہبازشریف کے یکم نومبرکوشروع ہونے والے دو روزہ چین کے دوران جاری کی جائیں گی۔

سفارتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے اس دورے میں انفراسٹرکچر اور انرجی کے کچھ منصوبے پائپ لائن میں ہیں،اس کے علاوہ چین کو پاکستان کی زرعی مصنوعات کی برآمدات میں سہولت بھی پیدا کی جائے گی۔ وزیراعظم شہبازشریف کے دورہ میں آئی ٹی اور خصوصی اقتصادی زونزکے قیام سمیت کیپسٹی بلڈنگ اور دفاعی تعاون میں فروغ کے معاہدے کیے جائیں گے۔

اجلاس کے بعد وفاقی وزیراحسن اقبال نے گفتگوکرتے ہوئے کہا اگر ہم اس اجلاس کے فیصلوں کا اعلان کردیتے ہیں تو وزیراعظم کے دورہ کی ساری باتیں کھل جائیں گی۔

انہوں نے کہا 2013ء میں شروع ہونے والے سی پیک میں اب تک18.8 ارب ڈالر کے 28 منصوبے مکمل کیے جاچکے ہیں جبکہ 34 ارب ڈالر کی اسکیمیں یا تو زیرتکمیل ہیں یا ابھی تک ان کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

ذرائع کے مطابق اس جے سی سی اجلاس میں پاکستان نے چین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ سی پیک فریم ورک میں طے کیے گئے ٹیکسوں اور انرجی کے ٹیرف کا قائم رہے گا۔پاکستان نے چین سے حب اور گوادر کے درمیان بجلی کی بلارکاوٹ ترسیل کیلئے نئی ٹرانسمیشن لائن بچھانے میں تعاون کی بھی درخواست کی ہے۔

پاکستان10ہزار میگاواٹ کی سولر انرجی کی پیداوار میں بھی چین کے تعاون کا متمنی ہے۔ اجلاس میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کیلئے تعاون پربھی بات چیت کی گئی۔پاکستان ،چین اور سعودی عرب گوادر میں آئل ریفانری بھی قائم کریں گے۔اس کے علاوہ چین کے ایسٹ سی گروپ نے گوادر فری زون میں پانچ ملین ٹن کی ایک دوسری ریفائنری قائم کرنے پربھی آمادگی ظاہرکی ہے۔

جے سی سی اجلاس میں بابوسر ٹاپ ٹنل کی فیزیبلٹی،کراچی حیدرآباد موٹر وے کی بحالی ،ساگو روڈ پراجیکٹ اور مظفرآباد مانسہرہ روڈ کی تعمیرکا بھی جائزہ لیا گیا۔

اجلاس کے بعد وفاقی وزیراحسن اقبال نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ حکومت نے سی پیک منصوبوں کو متنازعہ بنایا،اس سے سی پیک کی رفتار متاثر ہوئی ،2018 تک سی پیک جے سی سی کے 7 اجلاس ہوئے،گزشتہ 4 سالوں میں بدقسمتی سے صرف 3 اجلاس ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو سی پیک منصوبوں کی رفتار بڑھانا ترجیح تھی،ہم نے سی پیک منصوبوں پر تحفظات دور کیے،چند نئے شعبوں کی سی پیک کے فریم ورک میں نشاندہی کی گئی،سی پیک میں واٹر ریسورسز مینجمنٹ کو بھی شامل کیا گیا،آبی وسائل پرتوجہ دینا ضروری ہوگیا ہے تاکہ سیلاب سے بچنے کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت سے بچا جا سکے۔امید ہے اس تعاون سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔

وفاقی وزیراحسن اقبال نے کہا کہ آئی ٹی میں چین پاکستان کی کمپنیوں میں تعاون کو فروغ دیں گے۔چین سے کمپنیوں کو پاکستان میں ریسرچ سینٹرز کیلئے مدعوکر رہے ہیں،چین کے ساتھ سینڈک اور تھرکول مائننگ میں کامیاب ہوئے،پاکستان معدنی وسائل سے مالامال ہے مائننگ میں بھی ورکنگ گروپ قائم کیا۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ایکسپورٹس بڑھانے کیلیے چین سے ٹیکنیکل معاونت مانگا ہے۔اگر ہم نے اگلے پانچ سال میں ایکسپورٹ100 ارب کر لی تو مستقبل اور ہے اور دس سال میں کی تو مستقبل اور ہے۔پاکستان میں زرعی شعبے کو بھی فروغ دیا جائے گا،گوشت اور سبزیاں ایکسپورٹ کی کیپسٹی بڑھانے کیلئے چین سے مدد مانگی ہے۔

انہوں نے کہا عمران خان نے پاکستان کے ہر ادارے کو نشانے پر رکھا ہوا ہے،قوم کو اداروں سے لڑانے والے سیاست دانوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے،پاکستان کے مستقبل سے کھیلنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔

احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان نے پاکستانی فوج کیخلاف جو مہم چلائی ہے وہ کوئی پاکستانی برداشت نہیں کر سکتا ،اب پتہ چلا ہے کہ آپ رات کی تاریکی میں فوج سے ملتے تھے،اگر پاکستان میں امپائر نیوٹرل ہے توآپ کو تکلیف ہے، ثابت ہوتا ہے آپ کے سپانسرز نے پاکستان میں آپ کو انتشار پیدا کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے۔آپ پاکستان کے عوام کو پاکستانی فوج سے لڑانا چاہتے ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس لمحہ فکریہ ہے،یہ نہایت گھناؤنا کھیل عمران خان کھیل رہے ہیں،مجھے جس بنیاد پر خان صاحب ڈاکو کہتے تھے اسے عدالتوں نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔آپ کو شرم آنی چاہیے،آپ نے جو ڈاکے ڈالے اور چوری کی اس کا حساب کون دیگا؟

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کا آئندہ دورہ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں اہم ہو گا جب چین کے صدر شی جن پنگ تیسری بار چین کے رہنما منتخب ہو چکے ہیں اور یہ پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔