کھانے پینے کے سنن و آداب

فرزانہ خورشید  جمعـء 28 اکتوبر 2022
آج کا مسلمان آقا کریمؐ کی پیاری زندگی کے خوش نما اصول سے غفلت برت رہا اور نقصان اٹھا رہا ہے فوٹو: فائل

آج کا مسلمان آقا کریمؐ کی پیاری زندگی کے خوش نما اصول سے غفلت برت رہا اور نقصان اٹھا رہا ہے فوٹو: فائل

آپؐ رحمت اللعالمین بنا کر بھیجے گئے، تمام انسانیت کے لیے اُسوہ رسول اکرمؐ نعمت ہے۔

آپؐ کی سیرت مبارکہ سے انسانی زندگی کے ہر پہلو، شعبے اور ہر حال کے متعلق راہ نمائی ملتی ہے، بلاشبہ! ایک کام یاب اور خوش و خرم زندگی آقا کریم ﷺ کی اتّباعِ سنت میں رکھ دی گئی ہے۔ ہر دور میں آپؐ کی سیرت، سنت، کردار و اخلاق چاہے وہ سماجی، معاشی، گھریلو، کاروباری اور جہادی زندگی میں سامنے آتا ہو، ہمارے لیے عمدہ مثال ہے۔

آپؐ نے جن چیزوں کو جن طریقوں سے کرنے کا حکم دیا اور خود کر کے دکھایا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہوسکتا۔ بس یہ ہماری بدنصیبی اور کم عقلی ہے کہ جانتے بوجھتے بھی آج کا مسلمان غیروں کی تقلید کو باعثِ فخر سمجھ بیٹھا ہے اور آقا کریمؐ کی پیاری زندگی کے خوش نما اصول سے غفلت برت رہا اور نقصان اٹھا رہا ہے۔

یوں تو آپؐ کی تمام تعلیمات، احکامات اور ارشادات کی پیروی میں ہم انسانوں کی کام یابی کا راز پنہاں ہے۔ لیکن آج کے مضمون میں آنحضرت ﷺ کی زندگی کے کھانے پینے کے متعلق ان اصولوں کو بیان کیا جا رہا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ناصرف اپنی صحت کو برقرار رکھا جاسکتا ہے بلکہ یہ ربِ تعالی کی خوش نودی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ آئیے! ان پر عمل کریں اور اپنی زندگی میں ڈھیروں خیر و برکت سمیٹ لیں۔

کھانا تناول فرمانے میں آپؐ کا بیٹھنے کا اندازِ مبارک: آپؐ ٹیک لگا کر کھانا تناول نہ فرماتے، آپؐ میں عاجزی اتنی تھی کہ آپؐ فرماتے تھے: ’’میں بندہ ہوں اور بندوں کی مانند بیٹھتا ہوں اور ایسے ہی کھاتا ہوں جیسے بندے کھاتے ہیں۔‘‘

ابن قیمؒ نے بیان کیا ہے کہ حضور اکرمؐ تواضع و ادب کی خاطر بائیں قدم کے اندر کی جانب کو داہنے قدم کی پشت پر رکھتے تھے۔ (مدارج النبوۃ)

کھانے یا پینے کی چیز میں حضور ﷺ کبھی پھونک نہیں مارتے اور اس کو بُرا جانتے۔ آپؐ کھانے کو کبھی نہیں سونگھتے اور اس کو بُرا جانتے۔ آپؐ کھانے میں کبھی عیب نہ بتاتے تھے، اگر چاہا تو کھا لیا ورنہ چھوڑ دیا، اور یہ کبھی نہ فرمایا کہ یہ کھانا بُرا ہے، ترش ہے، نمک زیادہ ہے یا کم ہے، شوربہ گاڑھا ہے یا پتلا ہے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کھانے کے بعد پانی نوش نہ فرماتے کیوں کہ مضرِ ہضم ہے جب تک کھانا ہضم کے قریب نہ ہو پانی نہ پینا چاہیے۔ آپؐ نے کھڑے ہو کر پینے کو منع فرمایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی پانی پیے تو پیالے میں سانس نہ لے بلکہ پیالے سے منہ ہٹالے۔ آپؐ نے فرمایا: پانی چوس چوس کر پیو اور غٹ غٹ کرکے نہ پیو۔ آپؐ پانی پینے میں تین بار سانس لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس طرح سے پینا زیادہ خوش گوار ہے اور خوب سیر کرنے والا ہے اور حصولِ شفاء کے لیے اچھا ہے۔ (شمائل ترمذی)

آپؐ کھانا کھاتے ہی سو جانے کو منع فرماتے تھے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر لیٹ جانا بھی مسنون ہے۔ (زادالمعاد) آپؐ رات کا کھانا بھی تناول فرمایا کرتے تھے، اگرچہ کھجور کے چند دانے ہی کیوں نہ ہوں، فرمایا کرتے تھے کہ رات کا چھوڑ دینا بڑھاپا لاتا ہے۔

آپؐ تقلیلِ غذا کی رغبت دلایا کرتے اور فرماتے تھے کہ معدے کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لیے، اور ایک تہائی پانی کے لیے، اور ایک تہائی خود معدے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔

حضرت اسماء رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ کے پاس گرم کھانا لایا جاتا تو آپ اس کو اس وقت تک ڈھانپ کے رکھتے جب تک اس کا جوش نہ ختم ہوجاتا اور فرمایا کہ میں نے حضور اکرمؐ سے سنا ہے کہ سرد کھانے میں عظیم برکت ہے۔ (دارمی)

حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے کچا لہسن کھانے سے منع فرمایا ہے مگر جب اس کو پکا لیا جائے تو اس کا کھانا درست ہے۔ ( ترمذی، ابوداؤد، مشکوٰۃ)

کھانا کھاتے ہوئے کھانے کی چیز یا لقمہ نیچے گر جائے تو اس کو اٹھا کر صاف کر کے کھا لینا چاہیے شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔ (ابن ماجہ، مسلم) دسترخوان پہلے اٹھا لیا جائے اس کے بعد کھانے والے اٹھیں۔ ( ابن ماجہ)

کھانے سے پہلے یہ نیت ہوکہ اﷲ تعالی کے حکم کے تحت اس کی عبادت پر قوت حاصل ہونے کے لئے کھاتا ہوں۔ (الترغیب و الترہیب)

آپؐ کھانے سے پہلے ہاتھ دھوتے اور سیدھے ہاتھ سے، اپنے سامنے سے کھانا شروع کرتے۔ (زادالمعاد)

حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ کھانے سے قبل اور کھانے کے بعد وضو ( ہاتھ منہ دھونا) برکت کا سبب ہے۔ ( شمائل ترمذی)

کھانا اگر برتن کی چوٹی (اوپر) تک ہوتا تو آپ چوٹی سے کھانا شروع نہ فرماتے، بلکہ اپنے سامنے نیچے کی جانب سے شروع کرتے اور فرماتے کہ کھانے میں برکت چوٹی ہی میں ہوتی ہے۔ (خصائل نبوی، نشر الطیب، ترمذی، ابنِ ماجہ، مشکوٰۃ)

کھانا اگر ایک قسم کا آپؐ کے سامنے ہوتا تو آپؐ صرف اپنے ہی سامنے سے تناول فرماتے اور اگر مختلف قسم کا کھانا ہوتا چاہے برتن ایک ہی ہوتا تو بلاتامل دوسری جانب بھی ہاتھ بڑھاتے۔ (زادالمعاد)

جب کھانا پاس آتا تو فرماتے، مفہوم: ’’اے اﷲ! آپ نے ہمیں جو رزق عنایت فرمایا ہے اس میں ہمیں برکت عنایت فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا، اﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔‘‘

جو شخص بسم اﷲ پڑھے بغیر کھانا شروع کر دیتا تو آپ اس کا ہاتھ پکڑ لیا کرتے اور اس کو بسم اﷲ پڑھنے کے لیے تاکید فرماتے۔

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی کھانے کے شروع میں بسم اﷲ پڑھنا بھول جائے تو درمیان میں، یا بعد میں، یاد آنے پر اس طرح پڑھے: بسمِ اللّٰہِ اَوَّلَہْ وَآخِرَہْ۔ (زادالمعاد، شمائلِِ ترمذی)

بسم اﷲ کو آواز سے پڑھنا اولیٰ ہے تاکہ دوسرے ساتھی کو اگر خیال نہ رہے تو یاد آجائے (خصائلِ نبوی) جس نعمت کے اول بسم اﷲ اور آخر میں الحمدﷲ ہو اس نعمت سے قیامت میں سوال نہ ہوگا۔ (ابنِ حبان) آپؐ نے دائیں ہاتھ سے کھانے اور دائیں ہاتھ سے پینے کا حکم فرمایا کیوں کہ بائیں ہاتھ سے شیطان کھاتا اور پیتا ہے۔ جب آپؐ کھانا تناول فرما چکے ہوتے تو فرماتے: ’’سب تعریفیں اﷲ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور مسلمان بنایا۔‘‘

حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ جل جلالہ بندے کی اس بات پر بہت رضامندی ظاہر فرماتے ہیں کہ جب ایک لقمہ کھانا کھالے یا ایک گھونٹ پانی پیے تو حق تعالیٰ شانہ کا اس پر شکر ادا کرے۔‘‘ (شمائل ترمذی)

جب دسترخوان اٹھ جاتا تو آپ ارشاد فرماتے:

’’سب تعریفیں اﷲ کے لیے سزاوار ہیں جو بہت ہی عمدہ بڑی بابرکت انداز میں ہو، اے ہمارے رب! ہم اس دسترخوان کو اٹھا رہے ہیں، ایسا نہیں کہ یہ کھانا ہمیشہ کے لیے ہمیں کافی ہوگیا ہو، اور نہ ہم اس کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ رہے ہیں، اور نہ ہم آپ کی اس نعمت سے کبھی مستغنی ہو سکتے ہیں۔‘‘

کھانے کے بعد ہاتھ دھوتے اور ہاتھوں پر جو تِری ہوتی اس کو ہاتھوں، چہروں اور سر مبارک پر مل کر خشک کر لیتے ایک روایت میں اعضاء وضو پر ہاتھ پوچھنا بھی آیا ہے۔

( ابنِ ماجہ) (ماخوذ از کتاب اسوہ رسول اکرمؐ از ڈاکٹر محمد عبدالحی عارفی)

کھانا ہر شخص اپنی زندگی میں روز تین وقت کھاتا ہے۔ کیا خوب ہو کہ اگر ہمارا کھانا نبی رسول اکرم ﷺ کی بابرکت سنتوں کی اتباع کے مطابق ہوجائے۔ جس کے نتیجے میں ہمارا رب ہم سے راضی ہوجائے اور روزِ محشر ہمیں اپنے نبیؐ کی شفاعت کا حق دار قرار دے دیا جائے۔

اﷲ ہمیں عمل کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔