زمبابوے سے تو جیت جاتے

سلیم خالق  جمعـء 28 اکتوبر 2022
دونوں نے اپنی انا کے چکر میں ٹیم کا بیڑا غرق کر دیا، اگر سلیکشن درست ہوتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

دونوں نے اپنی انا کے چکر میں ٹیم کا بیڑا غرق کر دیا، اگر سلیکشن درست ہوتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کراؤڈ نہ قطاریں، میلبورن کے برعکس پرتھ میں ماحول بالکل مختلف نظر آیا،وہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، یہاں 61 ہزار کی گنجائش والااسٹیڈیم 20 فیصد بھی نہیں بھرا ہوا تھا۔

ظاہر ہے زمبابوے سے پاکستان کا مقابلہ ورکنگ ڈے میں دیکھنے کون آتا، میں اپنے دوست ذیشان کے ساتھ اسٹیڈیم آیا، ہم نے کراؤن ہوٹل کے سامنے کار پارک کی، وہیں پر پاکستان ٹیم بھی قیام پذیر ہے، درمیان میں ایک پارک ہے وہاں سے پیدل اسٹیڈیم کی جانب رواں ہوئے۔

راستے میں ایک پاکستانی فیملی ملی جس نے قومی پرچم تھاما ہوا تھا، وہاں سے تقریبا15،20  منٹ کی واک کر کے ہم اسٹیڈیم پہنچ گئے، وہاں چند ہی شائقین نظر آئے،البتہ بعد میں تعداد تھوڑی بڑھ گئی جس میں زمبابوین بھی شامل تھے، میں نے کافی عرصے بعد پاکستانی ٹیم کے کسی انٹرنیشنل میچ میں ایسا ماحول دیکھا جس میں کراؤڈ کو زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔

میزبان آسٹریلیا کے سری لنکا سے مقابلے میں بھی آدھے سے زیادہ اسٹیڈیم خالی تھا تو پاکستان کے میچ میں زیادہ کراؤڈ کا سوال ہی نہیں تھا، میڈیا سینٹر پاکستان کے کسی وینیو کی طرح لگا جس میں بیشتر صحافی ہم وطن ہی تھے اس وجہ سے اچھا ماحول بنا رہا، بازید خان سے بھی سلام دعا ہوئی، وہ کمنٹری پینل میں شامل واحد پاکستانی ہیں۔

جب میچ شروع تو شاہین کے ہاتھ میں گیند دیکھ کرپاکستانیوں نے نعرے لگانا شروع کر دیے البتہ وہ تھوڑا آف کلر دکھائی دیے،ایک صحافی نے ان کی بولنگ دیکھ کر کہا کہ ’’شاہین مکمل فٹ نہیں ہیں نجانے کیا سوچ کر انھیں کھلایا جا رہا ہے‘‘۔

میچ کے دوران ایک نوجوان جرنلسٹ نے مجھ سے کہا کہ ’’سلیم بھائی اگر آپ بْرا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں‘‘میں نے ہاں میں جواب دیا تو اس کا اگلا جملہ تھا کہ ’’آپ یہاں کیسے آ گئے،پی سی بی نے ایکریڈیڈیشن کیسے ہونے دی،ایشیا کپ میں تو کارڈ نہیں بننے دیا تھا‘‘اس پر میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ بھائی ورلڈکپ آئی سی سی کا ایونٹ ہے۔

گزشتہ برس جب بورڈ نے مجھے ورلڈکپ کیلیے کارڈ جاری نہ کرنے کا کہا تو میں نے کونسل کے اعلیٰ افسران کو ای میل سے حقائق بتائے جس پر چند گھنٹوں میں منظوری مل گئی تھی،اس بار تو شکر ہے کوئی مشکل نہیں ہوئی، رہی بات پی سی بی کی تو یہ بات درست ہے ایشیا کپ کی ایکریڈیڈیشن رکوا دی تھی لیکن پھر بھی میں نے اسٹیڈیم ہی جا کر میچ کور کیے تھے۔

بورڈ والے کہتے تھے کہ ہماری سخت شرائط و ضوابط مان کر ہوم سیریز کی ایکریڈیڈیشن کروا لو ایشیا کپ کا کارڈ بھی بن جائے گا، میرا موقف تھا کہ ہر شہر میں ہمارے نمائندے موجود ہیں لہٰذا فی الحال ضرورت نہیں، ویسے بھی اتنی سخت شرائط تو امریکی ویزے کیلیے بھی نہیں ہوتیں،ہمیں کارڈ بنوانا ہے کوئی کسی کی غلامی تھوڑی کرنا ہے،جب میں نے مناسب سمجھا خود درخواست دے دوں گا،خیر چھوڑو یہ باتیں چلو چائے پیتے ہیں، یہ کہہ کر میں وہاں سے چلا گیا۔

حارث رؤف کا شائقین نے ْپرجوش انداز میں استقبال کیا مگر وہ زیادہ کامیاب نہ رہے،البتہ محمد وسیم جونیئر نے چار وکٹیں اڑا کر صلاحیت ثابت کر دی جس پر یہ بات درست لگنے لگی کہ بھارت کیخلاف اگر وسیم کو کھلایا جاتا تو شاید صورتحال مختلف ہوتی، پاکستان کی جوڑی نمبر ون اس میچ میں بھی ناکام رہی، بابر اعظم نہ ہی محمد رضوان بڑی اننگز کھیل سکے،افتخار احمد بھی اس بار توقعات پر پورا نہ اترے۔

شان مسعود کو میچ جتوانا چاہیے تھا مگر وہ اہم موقع پر وائیڈ گیند پر اسٹمپڈ ہو گئے،شاداب خان نے جب ایک چھکا لگا لیا تھا تو کیا ضرورت تھی کہ اگلی گیند پر بھی ایسی کوشش کرتے، انھیں ذمہ داری لیتے ہوئے میچ فنش کرنا چاہیے تھا،حیدر علی کے بارے میں تو اب کچھ کہنا ہی فضول ہے، وہ مسلسل ناکامیوں کے باوجود کھیل رہے ہیں،ایسا صرف پاکستان میں ہی ہو سکتا ہے۔

محمد نواز اور وسیم جونیئر کو میچ فنش کرنے کا اچھا موقع ملا لیکن دونوں دباؤ کا شکار ہو گئے، شاہین اگر مکمل فٹ ہوتے تو آخری گیند پر دوسرا رن بھی مکمل کر کے میچ فنش کرا سکتے تھے،ٹیم کی فیلڈنگ بھی عجیب رہی، جہاں شاداب خان اور بابر نے غیر معمولی کیچز تھامے وہیں افتخار احمد، حارث اور حیدر نے حریف بیٹرز کو مواقع بھی دیے۔

مایوس کن شکست کے بعد میڈیا کانفرنس میں پہنچا تو حسب سابق بابر اعظم مختلف جواز ہی دے رہے تھے، ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر مسلسل سوال اٹھ رہے ہیں، بیٹنگ میں بھی وہ دونوں میچز میں کچھ نہ کر سکے،محمد رضوان کی خامی بھی حریف ٹیموں نے پکڑ لی ہے، انھیں لیگ اسٹمپ پر گیند نہ ملے تو مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

میں نے پریس کانفرنس میں میڈیا منیجر کو غور سے دیکھا مگر وہ کسی بھی اینگل سے روہت شرما نہیں لگے، ہمارے صحافی دوست کئی بار ’’ٹومچ‘‘ ہو جاتے ہیں، میڈیا منیجر کو بھی اپنی تشہیر کے بجائے اپنے کام پر توجہ دینا چاہیے،افسوس اس بات کا ہے کہ پی سی بی کی توجہ ویوز کیلیے صرف ویڈیوز بنانے پر ہے، فیک تقریروں والی ویڈیوز کا کیا فائدہ، اصل کام خاموشی سے میدان میں پرفارم کرنا ہے اسی پر مکمل توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔

ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق موٹیویشنل اسپیکر زیادہ لگتے ہیں،یہ ان کے لیول کا کام نہیں ہے، انھیں بولنگ کوچ تک ہی محدود رکھنا چاہیے، اصل سوال تو رمیز راجہ اور محمد وسیم سے پوچھنے چاہیئں، دونوں نے اپنی انا کے چکر میں ٹیم کا بیڑا غرق کر دیا، اگر سلیکشن درست ہوتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، شاید اب سیمی فائنل سے قبل ہی ٹیم کو گھر واپس جانا پڑ جائے،میں خود تو وطن واپسی کا سفر شروع کر رہا ہوں۔

اب باقی میچز پاکستان میں ٹی وی پر ہی دیکھوں گا، ابھی واپس جاتے ہوئے اسٹیڈیم کے باہر شائقین نظر آ رہے ہیں،کوشش ہو گی کہ ان سے کچھ بات کروں جس سے کل آپ کو آگاہ کروں گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔