بدی پر ابدی فتح ممکن نہیں

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 28 اکتوبر 2022
فوٹو: ایکسپریس نیوز

فوٹو: ایکسپریس نیوز

دستوفسکی عقیدے کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کرتا تھا وہ کراما زوف برادران میں لکھتا ہے کہ نیکی اور شیطان بر سر پیکار ہیں اور ان کی جنگ کا میدان انسانی دل ہے ، یہ ہی تصور اس کے ناول The Doubleمیں ظاہر ہوا۔

ٹالسٹائی نے بھی اپنے اعترافات میں کچھ یہ ہی موقف اختیار کیا ہے ، مگر اسی بیسویں صدی میں کامیو نے اس نوع کے عمل کو فلسفیانہ خود کشی کا نام دیا۔ کامیو کے نزدیک ابدی مسرت کی جستجو واقعتا درپیش ابسر ڈٹی سے گریز اور دانشورانہ موت ہے۔ مذہب کے بغیر دنیا اور مذہب کے ہمراہ دنیا دونوں تصورات کا اثر جدید ادب پر پڑا ہے۔

اسکاٹ لینڈ کے Robert Stevenson Louis نے اپنے ناول Dr.Jekyll and Mr. Hyde میں بھی زندگی کے اس اصل کو پیش کیا ہے جس سے یا توگریزکیا جاتاہے یا جس کا انکار کیا جاتاہے یا جسے ترفع دینے کی سعی کی جاتی ہے۔ مسٹر اٹرسن نام کے وکیل کی زبانی پیش کی گئی ، یہ کہانی ڈاکٹر جیکل کی ہے۔ کہانی کا مقام لندن ہے۔

سب کردار اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جیکل امیر والدین کا تعلیم یافتہ بیٹا ہے۔ اس کا تعلیم و تہذیب اور اس کی ذات کے تاریک رخ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جیکل دیانت داری سے محسوس کرتا ہے کہ وہ جس قدر شائستگی اختیارکرتا ہے اس کے اندر بدی کی آرزو اسی قدر بیدار ہوتی ہے وہ اس الجھن میں مبتلا ہے کہ آخر اس نیکی کی سعی، اس کے اندر بدی کو کیوں مہمیز کرتی ہے؟

اگر چہ وہ مذہب ، سماج ، انسانی رویوں اور زندگی کی سفاک حقیقتوں کے سلسلے میں حساس ہوتا ہے ، مگر اس الجھن سے نکلنے کے لیے نہ تو وہ مابعد الطبعیاتی منطق میں قدم رکھتا ہے کہ نیکی وبدی کے ماخذ کیا ہیں اور نہ اس فلسفیانہ سوال پر توجہ کرتا ہے کہ کسی عمل کو نیک و بد قرار دینے کی منطق کہاں سے آتی ہے۔ وہ اس سچائی کو بس پوری سادگی کے ساتھ قبول کر لیتا ہے کہ نیک بننے کی کوشش کے تناسب ہی سے اس میں بدی پیدا ہوتی ہے۔

چنانچہ جیکل دہری زندگی جینے لگتا ہے۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کے پاس دو راستے ہیں یا تو وہ باقیوں کی مانند ریا کاری پر مبنی زندگی جئے یا دہری زندگی کی کشکمش سے آزاد ہونے کا چارہ کرے۔ وہ یہ جان چکا ہے کہ اندر کی بدی پر ابدی فتح ایک التباس ہے۔

بدی پر فتح کی کوشش میں وہ نیک بننے کی ریاضت کرتا ہے تو بدی کی طاقت اور بڑھ جاتی ہے اس سے اس کی الجھن اور کشکمش بھی بڑھ جاتی ہے وہ اپنی کشمکش سے آزاد ہونے کا راستہ اختیارکرتا ہے وہ بدی کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کر لیتا ہے وہ ایک ایسی دوا ایجاد کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جس کو پینے سے اس کی بدی باہر آجاتی ہے ، مسٹر ہائیڈ کی شکل میں۔ جسے دیکھتے ہی ہر آدمی اس سے لازماً نفرت کرتا ہے جب دوائی کے اثرات زائل ہوتے ہیں تو وہ واپس ڈاکٹر جیکل بن جاتا ہے۔

ہیگل کا کہنا ہے کہ مصر میں انسان خیر و شر کے درمیان جاری متحرک کشمکش سے اور زیادہ باخبر ہوگیا تھا مصریوں نے اپنے اس شعور کو اپنے قومی فن کے اعلیٰ ترین چیتان ابوالہول کی صورت دی ہے ، ابو الہلول کسی شے کی علامت ہے ؟ ہیگل کا موقف یہ ہے کہ یہ وحشی درندے سے انسان کے برآمد ہونے کی علامت ہے ، انسان تگ و دو کر رہا ہے مگر ابھی وہ کامیاب نہیں ہوا ہے سچ تو یہ ہے کہ ابو الہلول بیک وقت انسان ہے اور درندہ ہے۔ کوئی بھی اس قدر سیانا نہیں کہ وہ اس امرکی قیاس آرائی کرسکے کہ ان دونوں انسان اور درندہ کی فطرتوں میں سے کون سی چیز حاوی ہے۔

عظیم فلسفی بروچ سپائی نوزا کہتا ہے کہ ہر انسانی جسم خدا کے وجود کا حصہ ہے اور ہر خیال خدائی ذہن کا جزو ہے لیکن ٹھہریے۔ ایک لمحے کے لیے رک جائیے کہیں یہ نہ ہو کہ جلد بازی میںہم اپنی ادنیٰ و حقیر عقل کو خدا کی بے انت عقل سے گڈ مڈ کردیں ۔ دنیا کا نظام ہماری انفرادی خواہشوں کے مطابق نہیں چلایا جا رہا۔ یہ نظام خدا کی ہر شے کو گھیرے میں لینے اور ہر شے کو سمجھنے والے منصوبے کے مطابق چلایا جا رہا ہے۔

خدا نے جو کہانی تمثیل حیات کے رو پ میں پیش کی ہے وہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ، لہذا ہم خدائی کھیل پر فیصلہ سنانے کے مجاز نہیں ہیں ، اگر ہمارا خیال یہ ہوکہ یہ دنیا اس لیے بنائی گئی ہے کہ انسان اس سے لطف اندوز ہوتو یہ ویسی ہی دلیل ہے جیسی یہ کہ ہاتھ اور پائوں اس لیے بنائے گئے ہیں کہ مچھر ان پرکاٹیں یا یہ کہ ناک اس لیے بنائی گئی ہے کہ عینک کو اس سے سہارا مل سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایک انسان ہو یا پوری انسانی نسل وہ خدا کے لامحدود منصوبے کا ایک معمولی ساحصہ ہے۔ ہماری پوری دھرتی خدا کی تخلیق کا اس قدر چھوٹا خلیہ ہے کہ صرف خورد بین کے ذریعے ہی اس کو دیکھنا ممکن ہوگا ، جبکہ ارسطو کا کہنا ہے انسان تو بس ایک ہی مقصد کے لیے پیدا ہوتا ہے اور وہ ہے خوش ہونا۔ اچھا مگر خوشی ہے کیا ؟ یہ ذہن کی وہ کیفیت ہے جو مسلسل اچھے کام کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔

دوسری طرف افلاطون جرم و گناہ اور بدی کو جہالت کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ جب کوئی فرد کسی جرم و بدی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کی مناسب طور پر تعلیم و تربیت نہیں ہوتی۔ اس کی تعلیم و تربیت میں کوئی نہ کوئی نقص رہ جاتا ہے ، لہذا جرم و بدی کرنے والا فرد اصل میں قابل رحم مخلوق ہے وہ جانتا ہی نہیں کہ اس کے مفادات کیا ہیں اور اس کے ساتھی انسانوں کے مفادات کیا ہیں۔ وہ بے علم ہے تو اسے علم دنیا چاہیے ، وہ سچائی سے بے خبر ہے تو اسے سچائی سے آگاہ کرنا چاہیے۔

یہ بات تو طے ہے کہ بدی پر ابدی فتح ممکن نہیں ہے۔ سچ ، حقیقت ، علم انسان کے پاس موجود وہ ہتھیار ہیں جس کی مدد سے وہ اپنے اندر کی وحشت ، لاعلمی ، بدی ، درندگی پن پر مسلسل گہرے وار لگاتا رہتا ہے اور اس کی اپنے آپ سے لڑائی آخری دم تک جاری رہتی ہے۔ ڈیوڈ اومیکے کی تعلیم کے مطابق ’’ زندگی کی عظیم ترین جنگیں روزانہ روح کے خاموش نہاں خانوں میں لڑی جاتی ہیں‘‘ ْ اپنے ذہن کی یوں تربیت کرنا کہ وہ خود اپنا تجزیہ کرسکے انتہائی ضروری ہوتا ہے۔

کردار ایک مستقل اور لمبے عمل کے بغیر تشکیل نہیں پاسکتا۔ جب تک آپ اپنے آپ سے لڑ کر ’’ روزانہ کی ذاتی فتح ‘‘ حاصل نہیں کر یں گے۔ آپ زندگی کے اصل مقصد ، معنی ، سچائی سے بے خبراور لاعلم ہی رہیںگے۔ مسائل اور بدیاں کبھی باہر نہیں ہوتیں بلکہ ہمیشہ اندر ہوتی ہیں ، اپنا کنٹرول ہمیشہ اپنے پاس رکھیں۔ کبھی بھی بدی کی قوتوں کے حوالے نہ کریں تو پھر آپ کبھی بھی مسٹر ہائیڈ نہیں بن سکتے۔ پھر بدیاں کبھی آپ کو بہلا پھسلا یا بھٹکا نہیںسکیں گی۔

آپ کا دنیا میں آنا بے مقصد یا بے معنی نہیں ہے۔ اسے مقصد اور معنی دیں۔ اپنے لیے ، اپنے بچوں کے لیے۔ پھر آپ کواپنے بچوں سے آخری وقت یہ کہہ کہنے کہ ضرورت نہیں پڑے گی کہ آپ میری طرح زندگی مت گذارنا۔ؒ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔