بدلتے ہوئے حالات

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 28 اکتوبر 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پی ٹی آئی کے چیئرمین، جناب عمران خان، نے ہفتہ قبل اعلان فرمایا تھاکہ وہ جمعہ (آج) کو جناب شہباز شریف کی قیادت میں بروئے کار اتحادی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کریں گے۔

اُنہوں نے مگر بروز منگل، بتاریخ 25اکتوبر ہی کو لانگ مارچ کا اعلان کر کے سرپرائز دے ڈالا ہے ؛ چنانچہ اعلان کے مطابق خان صاحب کا لانگ مارچ آج بروز جمعہ بتاریخ 28اکتوبر کو لاہور کے لبرٹی چوک سے شروع ہورہا ہے۔حُسنِ اتفاق ہے کہ عمران خان کا مبینہ ’’آزادی مارچ‘‘بھی ’’آزادی چوک‘‘ سے روانہ ہورہا ہے۔

خان صاحب کے لانگ مارچ کی شروعات ایسے حساس ایام میں ہو رہی ہیں جب(1) وطنِ عزیز کے ایک معروف صحافی کو کینیا میں بیدردی سے قتل ہُوئے صرف پانچ دن ہُوئے ہیں(2)جب وزیر اعظم شہباز شریف کو سعودی ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان، اپنے شاہی محل میں نہایت شاندار اسلوب میں خوش آمدید کہہ رہے ہیں(3) جب ایک حساس ادارے کے ڈی جی نے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا لشکریوں کے سنگین الزامات کے ردِ عمل میں نہایت شائستگی اور دلیل کے ساتھ اپنا موقف سامنے رکھا ہے اور شہباز حکومت سے کچھ مطالبات کیے ہیں کہ اداروں کے خلاف تازہ بے بنیاد الزام تراشی کرنے والوں کو ذرا بلا کر پوچھا تو جائے (4) جب کینیا میں مقتول پاکستانی صحافی کے لیے حکومتِ پاکستان ایک ہائی لیول انکوائری و تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے جا رہی ہے جس میں استفسار کے لیے خان صاحب کو بھی ممکنہ طور پر بلایا جا سکتا ہے(5) اور جب وزیر اعظم شہباز شریف چند دن بعد ہی دَورئہ چین پر  روانہ ہونے والے ہیں؛ چنانچہ سابق وزیر اعظم، شاہد خاقان عباسی، نے بجا سوال اُٹھایا ہے کہ جب بھی چین سے تعلقات بہتر ہونے کے امکانات روشن ہوتے ہیں، عمران خان لانگ مارچ شروع کر دیتے ہیں۔ کیوں؟

خان صاحب کے کئی خواب بھی چکنا چُور ہُوئے ہیں۔ اس کا اُنہیں شدید رنج ہے۔ وہ طیش اور مایوسی کے ملغوبہ احساسات کے زیر اثر ہیں ۔ اب اُنہوں نے اتحادی حکومت کے سر پر لانگ مارچ کی تلوار گرا ہی دی ہے، جو پچھلے چند مہینوں سے مسلسل، ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ، لٹکائی جا رہی تھی ، حریفوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے۔

خان صاحب نے سیاسی حریف بھی تو بہت بنا لیے ہیں ۔اپنے خلاف بہت سے محاذ بھی کھول رکھے ہیں۔ لانگ مارچ کا، بالآخر، اس لیے اعلان فرمایا ہے کہ شہباز شریف کی اتحادی حکومت ، خان صاحب کے مطالبے اور خواہش کے برعکس، جلد انتخابات کے انعقاد پر راضی نہیں ہے ۔

اِس دوران پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے لشکریوں نے یہ بے پر کی اُڑائے رکھی کہ اہم اداروں اور خان صاحب کے درمیان ’’اچھے ماحول ‘‘ میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ تمنا یہ تھی کہ خان صاحب نے معاملات کو اپنے ڈھب پر لایا جا سکے ۔ ایسا نہ ہو سکا تو صدرِ مملکت، جناب عارف علوی، کی زبانی بین السطور یہ کہلوایا گیا کہ’’ہاں، فریقین کو وسیع تر ملکی مفاد میں اکٹھا بٹھانے کی کوشش توہے۔‘‘ ۔

اب تو خان صاحب نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ بیک ڈور مذاکرات ہو رہے تھے( لیکن ناکام ہو گئے ہیں) سوال مگر یہ ہے کہ اگر بیک ڈور حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان کہیں مذاکرات ہو بھی رہے تھے تو انہیں عوام کی نظروں اور کانوں سے بچائے رکھنے میں کیا حکمت کارفرما تھی ؟ آخر یہ پاک بھارت خفیہ مذاکرات تو ہر گز نہیں تھے۔ ایسے میںخان صاحب کے بڑے حریف، وزیر اعظم شہباز شریف، کا یہ کہنا سیاسی ماحول سے عین مطابقت رکھتا ہے کہ ’’ ملکی بہتری کے لیے سب سے بات کرنے کے لیے تیار ہُوں۔‘‘

مطلب یہی ہے کہ خان صاحب سے مکالمے کے لیے اتحادی حکومت کے دل اور دروازے کھلے ہیں ۔ اِن دروازوں کو مقفّل کرنے میں بنیادی کردار درحقیقت عمران خان ہی کا ہے جنہوں نے خاص طور پر اقتدار کے چار برسوں کے دوران نوازشریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری اور حضرت مولانا فضل الرحمن سے بات چیت کی بجائے انہیں دل آزار ناموں سے پکارنے کے سوا کوئی تعمیری قدم نہیں اُٹھایا۔

اِسی لیے تو شہباز شریف بجا طور پر کہتے ہیں :’’ جو شخص ہمیں چار سال گالیاں دیتا رہا ہے ، ہمیں ڈاکو چور کہتا رہا ، وہ اب ہم سے مذاکرات اور مکالمے کی خواہش رکھتا ہے تو یہ دو عملی نہیں چلے گی۔‘‘

شہباز شریف غلط نہیں کہتے ہیں۔ جناب عمران خان ملکی معیشت کی بہتری اور مضبوطی کے لیے شہباز شریف کی مل بیٹھنے (میثاقِ معیشت) کی آفر کو بھی بار بار مسترد کرتے رہے۔خان صاحب اپنے اقتدار کے چار برسوں میں اپنے مذکورہ حریفوں کے خلاف جو زبان اور لہجہ استعمال کرتے رہے، کوئی عام آدمی بھی اِسے برداشت نہیں کر سکتا۔

بد قسمتی سے خان صاحب یہی لہجہ بیرونِ ملک جا کر بھی اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف بروئے کار لاتے رہے۔ وہ اپنے تئیں اِس قابلِ اعتراض لہجے سے عوامی مقبولیت حاصل کررہے تھے لیکن فی الحقیقت اپنے بارے میں نا پسندیدگی کے پہاڑ کھڑے کر رہے تھے۔

خان صاحب نے اپنے سیاسی مخالفین پر گولہ باری کرنے میں حد ہی کر دی ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو نیچا دکھانے کے لیے جن الفاظ و القابات سے پکارتے تھے، آج ECP کی طرف سے فیصلہ آنے کے بعد، اُنہی الفاظ و القابات سے عمران خان کو بھی یاد کیا جا رہا ہے ۔

ایسے میں عمران خان سے بیک ڈور اور فرنٹ ڈور مذاکرات کامیاب ہوں تو کیونکر؟ خان صاحب کے اپنے کردار و افعال آج اُنہیں بند گلی میں لے آئے ہیں۔ قدرت نے اُنہیں ملک و قوم کی خدمت کرنے کا ایک زریں موقع دیا تھا لیکن خان صاحب نے اپنی زبان کے ہاتھوں یہ سنہری موقع بھی کھو دیا۔ اُن کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے قول کے پکے اور سچے نہیں رہے ۔ کہہ مکرنی اُن کا عمومی تعارف بن چکا ہے ۔ وہ یو ٹرن لینے پر فخر کرتے ہیں۔

اِیسے اسلوب سے سیاستدان کا اعتبار اور وقار جاتا رہتا ہے ۔ اِس سے بڑا خسارہ کسی سیاستدان کے لیے کوئی اور نہیں ہو سکتا ہے کہ جب وہ سیاسی میدان میں اپنا اعتبار کھو ڈالے ۔ خان صاحب نے لانگ مارچ کا آغاز تو کر دیا ہے، مگر حالات بہرحال بتا رہے ہیں کہ خان صاحب کے خفی و جلی منصوبوں کی کامیابی کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔