زود پشیماں کا پشیماں ہونا

جمیل مرغز  جمعـء 28 اکتوبر 2022
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک ’’انسٹی ٹیوٹ آف سٹڈیز‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق!۔ گزشتہ برس 15اگست سے اس برس 14اگست تک کابل میں طالبان کے بر سر اقتدار آنے کے ایک برس کے دوران سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 51فی صد اضافہ ہواہے۔

سوال یہ ہے کہ گزشتہ برس کابل پر طالبان کے قبضے سے پہلے کیے گئے ان سرکاری دعووں کا کیا ہوا ‘کہ اس بار آنے والے پناہ گزینوں کو سرحد کے نزدیک قائم خصوصی کیمپوں میں رکھا جائے گا اور ان کی نقل و حرکت محدود رہے گی ‘اب بڑی تعداد میں جو پناہ گزین آئے ہیں وہ کہاں پر ہیں؟اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق ‘اقوام متحدہ کی رائے میں ‘اس بات کے کوئی آثار نہیں کہ افغان انتظامیہ ملک میں پہلے سے موجود دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کی سرحد پار سرگرمیوںمیں سنجیدگی سے رکاوٹ ڈالنے کی خواہش رکھتی ہو‘ایمن الزواہری کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت ‘اس بات کا ثبوت ہے کہ کابل میں القاعدہ موجود ہے۔

اس کے علاوہ اسلامک مومنٹ آف ازبکستان (IMU)‘ایسٹ ترکستان اسلامک مومنٹ (ETIM)‘تحریک طالبان پاکستان(TTP)اور داعش سمیت کئی تنظیمیں وہاں موجودہیں‘چین طالبان کی مدد کے لیے بہت سرگرم تھا لیکن (ETIM)کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے میں طالبان کی عدم دلچسپی سے اب دونوں ملکوں میں ابتدائی گرمجوشی تیزی سے کم ہونے لگی ہے۔

طالبان انتظامیہ کی عالمی تنہائی میں چین کاہمدردانہ رویہ اوراقتصادی سرمایہ کاری کے امکانات ‘کابل انتظامیہ کے مبہم پالیسی کی وجہ سے سرد خانے میں جا چکے ہیں۔ افغان طالبان صرف داعش کے خلاف سرگرم ہیں کیونکہ وہ ان کی رٹ کو مسلسل چیلنج کررہے ہیں۔ قبل از وقت شادیانے بجانے والوں نے کہا تھا کہ جب افغانستان پر طالبان قابض ہوںگے‘ تو اس کے بعد وسطی اورجنوبی ایشیاء میں ‘خاص کر پاکستان میں ‘سرحد پار سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی کیونکہ اقتدار کے حصول میں پاکستان نے طالبان کی بڑی مدد کی ہے۔

کسانوں کا وطیرہ ہے کہ جب فصل کٹ جاتی ہے تو زرعی اوزار مثلاً درانتی ‘کرپہ وغیرہ گودام میں رکھ دیتے ہیں ‘اسی طرح جب دوبارہ ضرورت ہو تو ان اوزاروں کو نکال کر صاف کرکے کام میں لاتے ہیں‘اسی طرح حکومت پاکستان نے نیشنل ایکشن پلان (NAP)کو گودام میں پھینک دیا تھا‘اب جبکہ دہشت گردی بڑھ گئی تو ان کو “NAP”اور” “NACTAکی یاد آگئی ہے۔

14اکتوبر 2022کی ایک خبر کے مطابق‘ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ‘نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اہم اجلاس میں انسداد دہشت گردی کے ادارے (NACTA) (National) Counter Terrorism Authority) کو فعال بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ‘جس میں ملک میں امن و امان کی مجموعی صورت حال کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس میں کہا گیا  کہ شہدا کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دی جائیں گی ‘شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے قوم اور ریاستی ادارے یک جان اور ایک آواز ہیں‘ پاکستان کی جغرافیائی سا لمیت کی حفاظت کے لیے قوم اور ریاستی عمل داری کے لیے بھی قوم اور ریاستی ادارے یک جان اور ایک آواز ہیں‘اجلاس میں سوات اور ملک کے دیگر علاقوں میں امن وامان کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس میں مرکزی سطح پر اپیکس کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا ‘اپیکس کمیٹی کی صدارت وزیر اعظم کریں گے ‘انسداد دہشت گردی کے ادارے (نیکٹا)کو فعال بنایا جائے گا‘نیکٹا صوبائی سطح پر انسداد دہشت گردی کے محکموں سی ٹی ڈی(CTD)کے اشتراک عمل سے کام کرے گا‘اجلاس میں انسداددہشت گردی کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر نظام کو ازسرنو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اجلاس میں آرمی چیف اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں نے بھی شرکت کی ‘عوام اور تجزیہ نگاروں کا صرار تھا کہ سانحہ پشاور کے بعد تمام سٹیک ہولڈر کے متفقہ رائے سے (NAP) کی پالیسی بنائی گئی ‘اس میں سب سے اہم ادارہ نیکٹا کا تھا ‘بدقسمتی سے اس ادارے کو نظر انداز کیا گیا‘ جس کی وجہ سے دہشت گردوں کو فائدہ ہوا ‘اب جب کہ دوبارہ دہشت گردی  کے خطرات منڈلانے لگے ہیں تو حکومت کواس ادارے کی فعالیت کا خیال آیا‘ بقول شاعر ۔

؎ہائے اس زود پشیمان کا پشیمان ہونا

اب بھی اگر سنجیدگی سے کوشش کی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیر آید ‘درست آید۔کیو نکہ برٹینڈرسل کا مشہور قول ہے کہ ’’جنگ میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون صحیح تھابلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ جیتا کون؟‘‘نیشنل ایکشن پلان کے 20اہم نکات تھے۔جن میں چندکی تفصیل ۔

(1)۔دہشت گردی کے جرائم میں سزا یافتہ مجرمان کی سزائے موت پر عمل درآمد۔حکومت  نے بہت سے دہشت گرد گرفتار کیے گئے ہیں‘وہ کہاں ہیں اور ان کا کیابنا؟کچھ پتہ نہیں۔

(2)خصوصی فوجی عدالتوں کا قیام۔ان عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا ‘کچھ افراد کو سزائے موت بھی سنائی گئی ‘ سپریم کورٹ نے بھی بعض پابندیوں کے ساتھ ان عدالتوں کے قیام کو آئینی قرار دے دیا ‘ان عدالتوں کا قیام دو سال کے لیے  تھا‘ ان عدالتوں کی کارروائی بھی سست رہی تھی۔ پاکستان کا نظام فوجداری دہشت گردوں کو سزا دینے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے ‘یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی ایک نیا طریقہ واردات ہے اور ہماری پرانی ‘رشوت زدہ اور بوسیدہ عدلیہ اور پراسیکیوشن برانچ دونوں ہی اس مسئلے کہ ختم کرنے‘ مجرموں کو سزا دینے یا ان کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے ہیں ‘ہمارا نظام انصاف تو عام رہزن کو بھی سزا نہیں دے سکتا ‘تربیت یافتہ دہشت گرد تو بڑی بات ہے ‘اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظام انصاف کی بہتری کے لیے کچھ پراگرس نہیں ہوئی۔

(3)۔مسلح اور دہشت گرد گروپوں کو کام کرنے کی ممانعت۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کا مقصد ان گروہوں اور تنظیموں کو ختم کرنا تھا جو انتہا پسندی ‘دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ملوث ہیں‘ لیکن کیا واقعی ایسا ہوا ہے ، اس کے بارے میں حالات سب کچھ بتا رہے ہیں۔

(4)نیکٹا(NACTA)۔نیشنل کائونٹر ٹیررزم اتھارٹی کو مضبوط اور فعال بنایا جائے گا‘ NAPکا یہ بہت اہم نقطہ ہے ‘2016میںلاہور کے المناک واقعے کے بعد‘ پنجاب کے آئی جی ایک پرائیویٹ چینل پر کہہ رہے تھے ‘کہ دہشت گردی کے خلاف نیکٹا کا ادارہ فعال نہ ہوسکا ‘جو قابل افسوس ہے‘ہم پولیس والے اپنے وسائل اور صلاحیت کے مطابق دہشت گردی اور عام جرائم کے خلاف بر سر پیکار ہیں‘ یہ حقیقت ہے کہ بلند بانگ دعوے ایک طرف‘ لیکن دہشت گردی کے خلاف سب سے اہم اداروںبشمول نیکٹا اور پولیس کو حکومت کی طرف سے سرد مہری کا سامنا ہے ‘جب کہ آ ٓج بھی مختلف انٹلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کا شدید فقدان ہے ‘سب سے اہم ادارہ یعنی نیکٹا‘جو چندسال قبل بنایا گیا تھا ‘اور دسمبر 2014میں بنائے گئے NAPکے بعد اس کو فعال ہونا تھا ‘اس کو حکومت مسلسل نظر اندا زکر رہی ہے۔ ‘ کاغذات میں نیکٹا کا ایک طاقتور اور با اختیار بورڈ آف ڈائرکٹر موجود ہے ‘قانونی پابندی ہے کہ بورڈ کا اجلاس ہر تین مہینے کے بعد ہونا لازمی ہے یعنی سال میں چار مرتبہ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔نیکٹا کے بورڈ کی ساخت ‘اور قانون کے مطابق اس کے اختیارات‘ اس ادارے کو ‘دہشت گردی کے خلاف پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل درآمد کا سب سے زیادہ فعال اور طاقتور ادارہ بناتے ہیں‘بد قسمتی سے یہ ادارہ موجودہ اورسابقہ حکومت کی ترجیحات میں سب سے نچلے درجے پر ہے۔ملک کے تمام باشعور حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ ‘تمام خفیہ ایجنسیوں اور سیکورٹی کے اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون بڑھانے کے لیے ایک منظم سسٹم کی ضرورت ہے‘ اس کے باوجود ایساکوئی منظم اور مربوط سسٹم موجود نہیں کہ تمام ایجنسیوں اور سیکورٹی کے انفرادی کاموں کو جمع کرکے ایک مکمل اور بہترین لائحہ عمل کے ذریعے ان سے صحیح کام لیا جاسکے‘آخر ہمارا سسٹم کب ٹھیک ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔