بائیو گیس کا اَمرت دھارا

اسلم خان  ہفتہ 15 ستمبر 2012
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

بائیو گیس ہمارے کسانوں، کھیتوں اور کھلیانوںکے لیے امرت دھارا ہے۔ دم توڑتی زرعی معیشت کو صرف اس کے ذریعے بچایا جا سکتا ہے۔

اندھیروں میں ڈوبا ہوا پاکستان ایک بار پھر بائیو گیس کی روشنی سے جگمگا سکتا ہے لیکن سرسبز و شاداب مارگلہ کے دامن میں بسنے والے اسلام آباد کے باسی اُن گرد آلود گلیوں کو کب کا بھلا چکے جہاں سے اُن کا اپنا خمیر بھی اُٹھا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ دن کے اُجالوں میں بھی روشن رہنے والی وفاقی دارالحکومت کی شاہراہوں کی فلڈ لائٹس کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

ایک طرف تو فاقہ مستی کا یہ عالم کہ بجلی خواب ہوئی، خیال ہوئی، پنج دریائوں کی دھرتی کے باسی پانی کو ترسیں اور دوسری طرف قومی وسائل کا ایسا بے دریغ اور سنگدلانہ استعمال کہ معمولی درجے کے سرکاری اہلکاروں کو دن کے اُجالوں میں شاہراہوں کی برقی روشنیاں بند کرنے کی فرصت نہیں، طرفہ تماشا یہ کہ کوئی انھیں روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں!

جب کہ دیہات میں بسنے والے ستر فیصد بے نوا انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ، روز مرہ استعمال کا گھریلو ایندھن اور پینے کا صاف پانی ہے۔ مدتوں بعد عید کی چھٹیوں پر کامل ایک ہفتہ گائوں میں گذارا، گوجرانوالہ کے گرد بنائے جانے والے بائی پاس سے صرف پندرہ کلو میٹر پر واقع میرا گائوں بڈھا گورائیہ اب ایک بڑا تجارتی مرکز اور قصبہ بن چکاہے۔

جسے اب قدرتی گیس کی سہولیات سے مزین کرنے کے لیے تازہ بنی ہوئی سڑک کو کناروں سے اکھاڑ کر پائپ بچھائے جا رہے ہیں۔ بجلی آئی تو اپنے ساتھ تن آسانی بھی لائی۔ اکثرگھروں سے پانی کے ہینڈ پمپ رفتہ رفتہ غائب ہوتے چلے گئے اور کسی نے انھیں بروئے کار رکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ اب جب بجلی کا بحران اپنی انتہا ئوںکو چھو گیا تو اُجالوں سے اندھیروں کے سفر میں پینے کے پانی کی عدم دستیابی سب سے بڑا مسئلہ بن گئی۔ جن چند گھروں میں پانی کے ہینڈ پمپ چالو رہ گئے ہیں وہاں پیاسوں کی قطاریں لگتی ہیں۔ واہ میرے مالک تیرے رنگ نیارے۔ پنچ دریائوں کی دھرتی پینے کے پانی کو ترستی ہے۔

شہروں میں لوڈشیڈنگ کا عذاب اس طرح سے نازل نہیں ہوا جیسے دیہی آبادی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ عید کی طویل چھٹیوں کے بعد واپس شہر پہنچا تو ایک میٹنگ میں روا روی میں کہہ گیا کہ دیہات میں تو لوڈشیڈنگ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ حاضرین چونک اُٹھے تو وضاحت کرنا پڑی کہ لوڈ شیڈنگ تو وہاں ہوتی ہے جہاں بجلی آتی بھی ہو!

دوسرا سب سے بڑا فوری مسئلہ ایندھن کی قلت کا ہے۔ اب تو ان کسانوں کے لیے، کھیت مزدوروں کے لیے گھر کے چولہے جلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ قدرت نے مرض پیدا کیا تو اس کے ساتھ اس کا علاج بھی تخلیق کیا۔ اس سنسار کو دکھ درد دیے تو اس کے ساتھ ساتھ سکھ چین اور آرام بھی بہم پہنچایا—— بالکل اسی طرح فطرت نے در پیش مشکلات کا حل بھی ہمیں سمجھایا—- اگر ہم غور و فکر کریں تو۔

بائیو گیس ہمارے دیہات کے لیے امرت دھارا ہے۔ ڈیزائن کی تبدیلی اور جدید طرز تعمیر نے ماضی کی تمام خامیوں پر یکسر قابو پا لیا ہے۔ بائیو گیس ہی ایسی واحد دوا ہے جو دیہی آبادی کے لا علاج دُکھوں کا مداوا ہے۔ واضح رہے کہ اس صدی کے آغاز پر اقوام متحدہ نے جن 8 اہداف (MDGs) کا اعلان کیا تھا اس میں بیشتر بائیو گیس کے استعمال کو فروغ دینے سے خود بخود حاصل ہو جائیں گے۔

حکومت یا پھر عوام کے غم میںگھلنے والی این جی اوز اور فیشنی مسائل پر لاکھوں کروڑوں ڈالر بے دریغ لٹا دینے والے عالمی ادارے اس طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتے؟ صرف اس لیے کہ پاکستان کے70 فیصد دیہی عوام ان کی کسی ترجیح میں شامل نہیں ہیں اور ہماری منافق اشرافیہ نے تو فلاحی کاموں کے اُجلے دامن کو بھی داغدار کر دیا ہے۔

زچہ بچہ کی صحت، صنفی مساوات، خواتین کا سماجی و معاشی استحکام، ماحول دوستی، درختوں کی کٹائی میں رکاوٹ، قدرتی کھادوں کا استعمال، فطری طریق کار سے زرعی پیداوار جیسے تمام نیک مقاصد کی تکمیل بائیو گیس کے استعمال سے خود بخود ہوجائے گی۔

بائیو گیس کے گھریلو اور زرعی استعمال میں چونکہ بھاری خریداری کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے سرکاری ترجیحات میں اس کا شامل ہونا نا ممکنات ہو گا۔ اس مایوس کن صورتحال میں بھی روشنی کی چند کرنیں تاریک اندھیروں سے بر سر پیکار ہیں۔ دیہی ترقی کے امدادی پروگرام کے بانی جناب شعیب سلطان تن تنہا میدان میں اترے تھے اور آج یہ ادارہ پاکستانی قوم کا قابل فخر اثاثہ بن چکا ہے۔

اسی طرح ڈسکہ سے تعلق رکھنے والے ناصر صاحب نوجوانی کے آغاز پر کسی طرح نیوز ی لینڈ جا پہنچے تھے اور پھر اعلیٰ تعلیم اور نیوز ی لینڈ کے پاسپورٹ کے ساتھ ڈسکہ شہر کی گلیوں کی محبت میں ڈیری فارمنگ کے ایک بڑے پراجیکٹ کے ساتھ یہاں آ پہنچے۔ جس کا ایک چھوٹا ساحصہ بائیو گیس کے لیے مختص ہے۔

بائیو گیس پر قارئین کا رد عمل ششدر کر دینے والا تھا۔ ای میلز، فون کالز اور SMS کا لامتناہی سلسلہ تا حال جاری ہے۔ توانائی کے متبادل ذرایع ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکے ہیں۔ سر سبز کھیتیاں ویران ہو رہی ہیں۔ ڈیزل کی آسمان کو چھوتی قیمتوں نے ٹیوب ویل سے آپباشی کو نا ممکن بنا دیا ہے۔

دُنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہمارے کھیتوں کو سیراب کرنے سے قاصر ہے۔ کہتے ہیں کہ کئی کالا باغ ڈیموں کے برابر پانی تو کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی ضایع ہو جاتا ہے۔ ہماری زراعت اور دیہی معیشت کس طرح کے بحران سے دو چار ہے اس کا اظہار ان منتخب خطوط سے ہوتا ہے۔

بھکر سے محمد جرجیس لکھتے ہیں، میں ریتلے تھل کے قصبے حیدرآباد سے 12کلو میٹر دور رہتا ہوں۔ ہم کسان ہیں، بجلی کاٹیوب ویل موجود ہے لیکن ریتلی زمینوں کو بجلی کی موٹر سے سیراب کرنا سراسر گھاٹے کا سودا ہے کیونکہ اس کی پیاس مہنگی بجلی استعمال کر کے نہیں بجھائی جا سکتی۔ آپ کہاں رہتے ہیں، مجھے علم نہیں لیکن اتنا یقین ہے کہ کسی گائوں یا گوٹھ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی ہو۔

ہم تھل کے لوگ تو بھکاری بن رہے ہیں۔ ہماری زندگیوں کا تمام تر انحصار بارش پر ہے، اگر ہمیں بائیو گیس کا سہارا مل جائے تو ہماری ویران کھیتیاں دوبارہ آباد ہو سکتی ہیں۔ انٹرنیٹ کا اس ویرانے میں کوئی وجود نہیں۔ یہ ای میل شہر سے کروا رہا ہوں، اس لیے موبائل فون ہی رابطے کا ذریعہ ہے۔ میرے اپنے شہر گوجرانوالہ سے عاصم رضا لکھتے ہیں۔

توانائی کے بحران اور حبس کے موسموں میں آپ کا کالم ہوا کا خوشگوار جھونکا لگا۔ اپنے سارے گائوں کو بائیو گیس فراہم کرنا چاہتا ہوں رہنمائی کریں۔

ایک ٹی وی اینکر فیصل عباسی ہمارے ایک دوست کے فارم ہائو س پر موجود بائیو گیس پلانٹ دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ کہتے ہیں کہ آئیڈیاز تو میرے پاس بھی بہت ہیں لیکن خواب کو حقیقت میں نہیں بدل سکا۔ میرے گرو انور عزیز چوہدری فرمایا کرتے ہیں کہ خواب دیکھنے والے اُن کی عملی تعبیر ڈھونڈنے والوں سے زیادہ اہم ہوتے ہیں کیونکہ اگر خواب ہوں گے تو تعبیریں بھی ملیں گی۔

بے شمار دوستوں نے دعائوں سے نوازا ہے۔ دو ایسے برقی خطوط بھی میرے نام آئے ہیں جو مشام جان کو معطر کر گئے۔ کہتے ہیں کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا زندگی کی اُمید دلاتا ہے اس لیے میری خوشی بجا ہے۔

رحیم یار خان سے تحفظ ماحول کے عالمی ادارے WWF-P کے مقامی نمایندے جناب ابوبکر نے بڑی بیش بہا معلومات عنایت کی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ان کا ادارہ 1970ء سے توانائی کے متبادل ذرایع بائیو گیس، پن بجلی کے چھوٹے منصوبے، شمسی توانائی، سورج سے چلنے والے پمپ، ہیٹر اور شمسی توانائی کے پانی صاف کرنے کے پلانٹس پر کام کر رہا ہے۔

میری لاعلمی ملاحظہ فرمائیے، مجھے جناب ابوبکر کی وجہ سے WWF کی پاکستانی قوم کے لیے خدمات کاعلم ہوا۔ ان کا ادارہ نوشہرہ، چارسدہ، لیہ، ڈی جی خان، ڈیرہ اسماعیل، مظفر گڑھ، راجن پور، رحیم یار خان، سکھر، گھوٹکی، ٹھٹھہ اور بدین کے اضلاع میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی(UNDP)کے تعاون سے 2 ہزار بائیو گیس پلانٹ تعمیر کر چکا ہے۔

ان اضلاع میں درختوں کی وحشیانہ کٹائی کا سلسلہ بہت حد تک رُک چکا ہے۔ وہ بتاتے ہیںکہ زرعی ٹیوب ویل چلانے کے لیے 70 کیوبک میٹر کا بائیو گیس پلانٹ تعمیر کیا جاتا ہے۔ جس سے نکلنے والا فالتو مواد بہترین نامیاتی کھاد ہے۔UNDP کے تعاون سے 2 ہزار بائیو گیس پلانٹس کی بلا معاوضہ تنصیب کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے لیکن WWF بائیو گیس لگوانے کے خواہش مند حضرات کو ہر طرح کی تکنیکی معلومات بلا معاوضہ فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

70 کی دہائی میرے بچپن کا زمانہ تھا، اس وقت مشترکہ تنور پنجاب کے دیہات کی بڑی مستحکم روایت تھے۔ ایک محلے یا برادری کی خواتین مشترکہ تنور پر روٹیاں لگایا کرتی تھیں۔ وہ اپنے اپنے گھروں سے ایندھن اور گندھا ہوا آٹا لے کر کسی چھت یا کھلے دالان میں لگائے گئے تنور پر روٹی پکایا کرتی تھیں، اب دیہات میں یہ روایت دم توڑتی جا رہی ہے لیکن بائیو گیس سے چلنے والے تنوروں کی بدولت اس قدیم روایت کو زندہ کیا جا سکتاہے۔

عوام کے منتخب نمایندوں سے گذارش ہے کہ وہ سوئی گیس کی فراہمی کے بے بنیاد ترقیاتی منصوبوںکے بجائے بائیو گیس کے پائیدار اور قابل عمل حل کو بروئے کار لانے کا سوچیں جس کی وجہ سے صرف نوے دنوں میں اُن کے بے بس اور بے کس ووٹروں کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلی آ سکتی ہے۔
ایک گزارش خادم پنجاب، نہیں جناب خادم اعلیٰ پنجاب، جنابِ شہباز شریف سے کہ خدا کے لیے اپنے دیہی عوام کے لیے بھی سوچیے صرف لاہور ہی تو پنجاب نہیں۔

گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف اور ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی

ہم آپ سے کچھ نہیں صرف ہر ضلعی یونین کونسل کے لیے ایک بائیو گیس پلانٹ مانگتے ہیں جس کی نقلیں کسان خود تیار کر لیں گے۔
توانائی کے متبادل ذرایع خاص طور بائیو گیس کے سلسلے میں یہ شخصیات قابل قدر کام کر رہی ہیں۔

محمد ابوبکر،WWF-P رحیم یار خان
نعیم احمد (RSPN) 15امین ٹائون، فیصل آباد
رانا عدنان یوسف خان، گوجرانوالہ
جناب سرفراز احمد پاکستان ڈیری ڈویلپمنٹ کمپنی لاہور

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔