- موتی کاری سے نادر اشیا بنانے کا قدیم فن زندہ رکھنے والی باہمت خاتون
- آسٹریلیا کے سفیر کی رکشے میں بیٹھ کر راولپنڈی کی سیر
- وزارت تجارت نے اسرائیل سے تجارت کی تردید کردی
- لاہور: مبینہ پولیس مقابلے میں 2 زیر حراست ڈاکو ہلاک
- پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سےمتعلق وزارت خزانہ کی اہم وضاحت
- امریکا میں عمران خان کے دوبارہ وزیراعظم بننے کی باتیں ہورہی ہیں، پرویز الہیٰ
- عمران خان کی زمان پارک کے باہر کارکنوں کے ساتھ افطار کرنے کی ویڈیو سامنے آگئی
- انسانی جسم سے متعلق حیرت انگیز حقائق
- سپریم کورٹ کے تین ججز کیخلاف ریفرنس خارج از امکان نہیں ہے، وزیر داخلہ
- سعودی عرب نے شہریوں کو دو افریقی ممالک کا سفر کرنے سے روک دیا
- کراچی: موبائل چھیننے اور IMEI نمبر تبدیل کرنے کے ماہر 4 ملزمان گرفتار
- پی ڈی ایم کا تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد، کارروائی کے بائیکاٹ کا فیصلہ
- پاکستان عوامی تحریک کا انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کا فیصلہ
- پی ڈی ایم کے اجلاسوں اور اعلامیوں کی کوئی حیثیت نہیں، تحریک انصاف
- اسرائیل کی ریاستی رہشتگردی جاری، ایک اور فلسطینی نوجوان شہید
- ڈیفنس کراچی کو بارش کے پانی سے بچانے کے مشن کا پہلا مرحلہ مکمل
- سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو 10 ماہ قید کے بعد پٹیالا جیل سے رہا
- نوے دن میں الیکشن آئینی ہیں تو مشرف دور میں 3 سال کیوں ملتوی ہوئے؟ فضل الرحمان
- ہائی بلڈ پریشر اور ڈیمنشیا کے درمیان تعلق کا انکشاف
- سام سنگ کا نیا حربہ، آئی فون کے لیے ’ٹرائی گیلکسی‘ ایپ پیش کردی
اسرائیل اور لبنان میں گیس سے مالا مال جزیرے پر معاہدہ طے پاگیا

امریکا ثالثی میں اسرائیل اور لبنان معاہدے کی کاپی اقوام متحدہ میں بھی جمع کرائی گئی، فوٹو: فائل
تل ابیب / بیروت: امریکا کی ثالثی میں اسرائیل اور لبنان کے درمیان گیس سے زرخیز جزیرے کی سمندری حدود پر معاہدہ طے پا گیا جس کے بعد اس معاملے پر برسوں سے متحارب دونوں ممالک منافع بخش آف شور گیس فیلڈز سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق لبنان کے صدر میشل عون اور اسرائیلی وزیراعظم یائر لپیڈ نے اُس معاہدے پر اپنے اپنے دارالحکومت میں دستخط کر دیئے جسے 11 اکتوبر کو دونوں ممالک کے سفارت کاروں نے حتمی شکل دی تھی۔
معاہدے پر دستخط کی تقریب بیروت اور تل ابیب میں الگ الگ ہوئی ہوئی تاہم تصدیقی خطوط کا تبادلہ جنوبی لبنان کے سرحدی شہر نقورا میں امریکی ثالث آموس ہوچسٹین اور لبنان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی کوآرڈینیٹر جوانا ورینیکا کی موجودگی میں ہوا۔
دستخط سے چند گھنٹے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ معاہدے پر رضامندی کا مطلب لبنان کا یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے کیوں کہ ایسا ہر روز نہیں ہوتا کہ کوئی دشمن ریاست پوری عالمی برادری کے سامنے تحریری معاہدے میں اسرائیل کو تسلیم کرے۔
دوسری جانب لبنان کے صدر میشل عون نے اسرائیل کے اس دعوے کی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی سمندری سرحد کی حد بندی کرنا ایک تکنیکی کام ہے جس کے کوئی سیاسی اثرات یا مقاصد نہیں ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل اور لبنان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کو “تاریخی” قرار دیتے ہوئے سراہا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ دونوں فریقوں نے معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حتمی اقدامات کیے اور معاہدے کے مندرجات کو امریکی حکام کی موجودگی میں اقوام متحدہ میں بھی جمع کرائے۔
جو بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ خاص طور پر مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے ذخائر کو متنازع نہیں بلکہ تعاون، استحکام، سلامتی اور خوشحالی کا باعث ہونا چاہئے اور یہ معاہدہ ہمیں مشرق وسطیٰ کے وژن کو پورا کرنے کے مزید قریب لے جاتا ہے جو زیادہ محفوظ، مربوط اور خوشحال ہو اور جو خطے کے تمام لوگوں کے لیے مفید بھی ہو۔
ادھر لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے کہا کہ ہمارا مشن مکمل ہوگیا اور اب ہم ملک کے خلاف اپنی “غیر معمولی” نقل و حرکت کو ختم کر دیں گے۔
خیال رہے کہ معاہدے سے قبل حزب اللہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر اسرائیل سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گیس کے ذخائر تک پہنچا تو ان پر حملے کریں گے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔