شعیب اختر نے شاید صحیح کہا تھا

سلیم خالق  ہفتہ 29 اکتوبر 2022
دعا کریں کہ قومی ٹیم کو جلد مختلف گروپس میں وطن واپس نہ آنا پڑے، ویسے آثار تو ایسے ہی لگ رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

دعا کریں کہ قومی ٹیم کو جلد مختلف گروپس میں وطن واپس نہ آنا پڑے، ویسے آثار تو ایسے ہی لگ رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

’’سردار جی تسی پاکستان دے میچ وچ کیسے‘‘

زمبابوے سے میچ ختم ہونے کے بعد پارک سے ہوٹل کی پارکنگ تک واک کرتے ہوئے جب میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی پنجابی میں ایک سکھ سے یہ بات پوچھی تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’بھارت کے ساتھ پاکستانی اور آسٹریلوی ٹیم بھی مجھے پسند ہے،میں ان تینوں کے ہی میچز دیکھتا ہوں‘‘ پھر میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ کہنے لگے کہ ’’رجوان (رضوان) کی خامی کو بولرز نے پکڑ لیا۔

اسے  جہاں بھی گیند کرو شاٹ لیگ سائیڈ پر ہی کھیلتا ہے،اس گفتگو میں ایک پاکستانی لڑکا بھی شامل ہو گیا، اس کا کہنا تھا کہ ’’ بابر کو کپتانی نہیں آتی، اگر اسے نہ ہٹایا تو بیٹنگ مزید متاثر ہو جائے گی‘‘ ایسے ہی باتیں کرتے ہوئے چلتے چلتے کب پارکنگ لاٹ  آ گیا پتا ہی نہیں چلا، میں نے دنیا کے کئی ممالک میں دیکھا کہ پاکستانی اور بھارتی مل جل کر رہتے ہیں۔

آسٹریلیا میں بھی ایسا ہی نظر آیا، البتہ مودی نے نفرت کا جو انجیکشن اپنی قوم کو لگایا وہ اب آہستہ آہستہ بیرون ملک بھارتیوں پر بھی اثر کرنے لگا ہے، گذشتہ دنوں انگلینڈ کے ایک شہر میں مذہبی بنیادوں پر کشیدگی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی، میں نے اپنے دوست سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ ’’آسٹریلیا میں ایسا کچھ نہیں ہے‘‘ گھر واپس آ کر میں نے تھوڑی دیر دفتر کا کام کیا۔

پھر نیند ہی نہیں آ رہی تھی، میں سوچتے رہا کہ آخر ہماری ٹیم زمبابوے سے کیسے ہار گئی؟ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، ہر کسی کی فین فولوئنگ ہے، لوگوں نے جعلی اکاؤنٹس بھی بنا رکھے ہیں، آپ کسی کے فیورٹ پر تنقید کریں تو ٹرولنگ شروع ہو جاتی ہے،اسی لیے سچ بات کرتے ہوئے بھی سوچنا پڑتا ہے۔

شعیب اختر کی بھارت نوازی کو اگر بھول جائیں تو کئی بار وہ کڑوی مگر سچی باتیں بھی کر جاتے ہیں، ورلڈکپ سے قبل ہی انھوں نے کہہ دیا تھا کہ ’’پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں نہیں پہنچ پائے گی‘‘ بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے صحیح کہا تھا، اب اگلے تینوں میچز جیت بھی لیے تب بھی اس کا امکان کم ہے کہ جہاز میں جلد وطن واپسی کی نشست بک نہ کرانی پڑے، دراصل سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے تھا لیکن ہم اسے سچ ماننے کو تیار نہیں تھے۔

پی سی بی کا میڈیا ڈپارٹمنٹ چیزوں کو اتنا گلوریفائی کر کے پیش کرتا ہے کہ عام انسان کنفیوڑ ہو جائے، ٹیم کوئی میچ جیت جائے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے،کھلاڑیوں کی فضول سی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں جنھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ میاں چنوں کے کسی لڑکے نے ویوز بڑھانے کیلیے ایسا کیا۔

اگر ہار جائیں تو انفرادی ریکارڈز پیش کیے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کی توجہ ہٹائی جا سکے، جب میرے جیسے لوگ تنقید کریں تو منفی باتیں کرنے کا طعنہ ملتا ہے،ہم شور مچاتے رہ گئے کہ اسکواڈ متوازن نہیں ہے مگر کسی نے کوئی توجہ نہ دی، رمیز راجہ جس کیفیت میں ہیں وہ انداز پاکستان میں صرف ایک ہی شخص کو سوٹ کرتا ہے۔

آپ لاکھ نقل کرنا چاہیں ویسا نہیں بن سکتے، بدقسمتی سے وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں کہ میں نے جو سوچ لیا وہی ٹھیک ہے،اس لیے ہر جانب سے اسکواڈ میں تبدیلی کی باتیں سامنے آئیں مگر انھوں نے ایسا نہیں کرنے دیا، کیا کسی کی ذاتی انا پر قومی ٹیم کا مفاد قربان کرنا درست ہے؟ محمد وسیم کے نام پر جب بھی میں چیف سلیکٹر لکھا دیکھتا ہوں تو اپنے ملکی کرکٹ سسٹم پر شرم آتی ہے جہاں اوسط سے بھی کمتر سابق کرکٹر کو اتنے بڑے عہدے پر بٹھا دیا گیا۔

حیدر علی، خوشدل شاہ، آصف علی کیا شعیب ملک سے بہتر تھے؟ مگر صاحب نے منع کیا تو منتخب نہیں کیا گیا،عماد وسیم کا کیا قصور تھا،سرفراز احمد کیا متبادل وکٹ کیپر بھی بننے کے قابل نہ تھا؟ پرتھ کے میڈیا سینٹر میں ایک صحافی کا کہنا تھا کہ ’’رمیز راجہ اب چیئرمین پی سی بی کی پوسٹ چھوڑ دیں گے‘‘ مگر اسی وقت ایک دوسرے رپورٹر نے کہا کہ ’’اگر رمیز کو مستعفی ہونا ہوتا تو عمران خان جب وزیر اعظم نہ رہے تھے تب ہوتے۔

اس سے پہلے تو انھوں نے ایسے فیصلے میں ایک منٹ بھی نہ لگانے کی بات کہی تھی مگر پھر بھول گئے‘‘۔ پاکستان میں کوئی خود بڑا عہدہ نہیں چھوڑتا اسے ہٹانا پڑتا ہے‘‘ خیر ابھی تو یہ باتیں قبل از وقت لگتی ہیں لیکن اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو اس وقت پی سی بی کا ماحول اتنا اچھا نہیں، اعلیٰ حکام بہت  ایروگینٹ ہیں، اسی تکبر نے ہی ہماری کرکٹ کو اس حال پر پہنچا دیا، دلچسپ بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ انھیں اپنی خامیاں نظر بھی نہیں آتیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے انقلابی اقدامات کر دیے، آپ جونیئر لیگ پر رمیز راجہ کا رویہ دیکھ لیں، انھیں لگتا ہے کہ بہت بڑا تیر مار لیا لیکن اربوں روپے گنوا کر جو ٹورنامنٹ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، کرکٹ ٹیم ہم نے مکمل طور پر بابر اور رضوان کے حوالے کر دی، سلیکشن میں بھی دونوں کی بہت مداخلت ہوتی ہے۔

بیچارے ثقلین مشتاق ہیڈ کوچ کی پوسٹ ملنے پر عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ کرسی بچانے کیلیے بس کپتان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں،وہ اسپن بولنگ کوچ کی حد تک شاید ٹھیک رہیں مگر ہیڈ کوچ بننا ان کے بس کا کام نہیں، محمد یوسف کے دور میں بیٹرز کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، قومی کرکٹ کو اوورہالنگ کی ضرورت ہے لیکن ظاہر ہے ایسا ورلڈکپ کے بعد ہی ہو سکے گا، سچ پوچھیں تو اب کوئی معجزہ ہی سیمی فائنل میں پہنچا سکتا ہے۔

میرا آسٹریلیا کا دورہ بھی اختتام کے قریب پہنچ گیا ہے، آج رات دبئی روانہ ہو جاؤں گا جہاں سے چند گھنٹوں بعد کراچی کی فلائٹ ہے، دعا کریں کہ قومی ٹیم کو جلد مختلف گروپس میں وطن واپس نہ آنا پڑے، ویسے آثار تو ایسے ہی لگ رہے ہیں۔

ابھی تو مجھے پی سی بی کی ویڈیو کا انتظار ہے جس میں ثقلین یا بابر کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتے دکھائی دیں، ہمیشہ کی طرح شاید کوئی مجھے بھی اسے فارورڈ کر دے گا،ایسا لگتا ہے ابھی اسکرپٹ تیار نہیں تھا،خیر اب انشااللہ پاکستان سے ہی آپ کے ساتھ رابطہ رہے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔