بدلتا ہے رنگ آسماں

ڈاکٹر یونس حسنی  اتوار 30 اکتوبر 2022
فوٹو: ایکسپریس نیوز

فوٹو: ایکسپریس نیوز

ہماری صحافت غلط فہمی کے باعث ایک ایسی بات مسلسل کہتی رہی ہے جو واقعتا نامناسب بلکہ کسی کے حق کو کسی دوسرے تک پہنچانے کی ذمے دار ہے اور آج کے اخبارات نے اس صورت حال کا کسی قدر احاطہ کردیا ہے۔

ہوا یوں کہ مشہور صحافی ارشد شریف کے قتل پر اظہار تعزیت کے لیے صدر مملکت اپنی بیگم کے ساتھ ان کے گھر گئے اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔ اس خبر کو اخبارات نے حسب معمول کور کیا اور لکھا کہ صدر اور خاتون اول، ارشد شریف مرحوم کے گھر تعزیت کے لیے گئے۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ ہمارے صحافتی حلقوں میں صدر مملکت کی بیگم صاحبہ کو خاتون اول کے طور پر مخاطب کیا گیا۔

بات یہ ہے کہ صدر کا عہدہ بڑا مقدس ہوتا ہے، خود صدر کو بھی اس کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے اور حکمرانوں سے لے کر عوام تک کو ان کا احترام ملحوظ رکھنا ہوتا ہے۔ اسی لیے دنیا جہان میں جہاں جہاں پارلیمانی جمہوریت موجود ہے صدر مملکت اس ملک کا ’’مرد اول‘‘ اور ان کی اہلیہ ’’خاتون اول‘‘ کہی جاتی ہیں۔ اس صورت حال کا دستور میں لکھا ہونا ضروری نہیں۔

یہ پارلیمانی جمہوریت کے آداب میں شامل ہے، لیکن اب تک یہ ہو رہا تھا کہ عموماً بیگم وزیر اعظم کے لیے ’’خاتون اول‘‘ کا لقب اختیار کیا جاتا رہا اور یہ القاب و آداب وہ لوگ زیادہ برت رہے تھے جو عمران خان کے مخالف ہیں تو گویا اس لقب میں ایک ہلکا سا طنز بھی شامل کرلیا جاتا ہے۔ بہرحال اب یہ تو ہوا کہ حق بہ حق دار رسید۔ صدر جب تک اپنے عہدے پر قائم ہے ’’اولین شہری‘‘ ہوتا ہے۔ اس لیے صدر کی بیگم ہی احتراماً خاتون اول کہی جاتی ہیں۔

اب اس موقع پر ہی سہی اصل جگہ لفظ کا استعمال ہونا غنیمت ہے اور صدر کے احترام کا خیال رکھنا ضروری ہے۔اللہ اللہ! قدرت کے کھیل دیکھیے جس ملک میں مخصوص اور اعلیٰ ہوٹل پر لکھا تھا ’’کتے اور ہندوستانی لانا منع ہے‘‘ وہاں قدرت ایک ہندوستانی کو وزیر اعظم کے منصب پر لے آئی ہے۔

برطانوی پارلیمان میں اب بھی ٹوری پارٹی کو اکثریت حاصل ہے اور لیبر پارٹی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ حکومت بنا سکے۔ چنانچہ حکومت سازی کا تاج قدامت پسندوں کے سر پر ہی سجایا جاتا رہا ہے، گویا برطانیہ میں حکومت سازی کا معاملہ ابھی برسر اقتدار پارٹی تک ہی محدود ہے۔

سابقہ وزیر اعظم لز ٹروس سے پہلے بھی حکومت قدامت پسندوں کے ہاتھ میں تھی۔ اسی جماعت نے اپنا اعتماد ٹروس کے لیے ظاہر کیا اور وہ وزیر اعظم رہیں مگر شاید ان بعض حکمرانی کے اقدامات خود ان کی جماعت کو پسند نہیں آئے، اس لیے انھوں نے وزارت عظمیٰ سے دست برداری کا اعلان کردیا۔

یہ انداز حکمرانی اہل برطانیہ نے طویل عرصے تک جمہوری روایات کو پروان چڑھانے سے سیکھا ہے اور حالات و واقعات سے سبق سیکھنے کے باعث ہی برطانوی معاشرے کا شیرازہ بکھر نہ سکھا اور آج وہ دنیا بھر میں جمہوریت اور جمہوری روایات کا علم بردار ہے، حالانکہ اس نے شہنشائیت کو ہنوز گلے سے لگا رکھا ہے اور وہ شاہ کا انتہائی احترام بھی کرتے ہیں۔

اب لز ٹروس کی کابینہ کے وزیر خزانہ رشی سونک پر پارٹی نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ رشی سونک کا خاندان برصغیر کا رہنے والا ہے اور یہ خاندان بہ سلسلہ تجارت افریقہ منتقل ہوا۔ جہاں سے یہ برطانیہ چلے آئے اور برطانوی معاشرے میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرلیا اور اب وہ اس قدر مقبولیت حاصل کرچکے ہیں کہ 42 سالہ رشی سونک کو برطانوی دارالعوام میں اکثریت حاصل ہے۔

انھوں نے شاہ چارلس سوم سے ملاقات کی ہے جس کے نتیجے میں شاہ نے انھیں حکومت بنانے کی دعوت دے دی ہے اور وہ وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ10ڈاؤننگ اسٹریٹ منتقل ہوگئے ہیں۔یہ برطانوی جمہوری نظام کی خوبی بھی ہے کہ گوروں کے دیس میں ایک ’’کالا‘‘ وزیر اعظم بنا اور اس نے تاریخ رقم کردی۔

ہو سکتا ہے کہ برطانوی انتہا پسند حلقوں میں یہ بات پسند نہ کی جائے لیکن عمومی طور پر اس تبدیلی کو بھی برطانوی مزاج کی وسیع النظری سمجھا جا رہا ہے۔ یہ وسیع النظری برطانیہ نے اپنے مملوکہ ملکوں میں تو نہیں برتی تھی البتہ اپنی مادر وطن کے لیے وہ ان اقدار کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ اس طرح برطانوی عالمی حکمرانی کا زوال کسی قدر سست رفتاری اختیار کرے اور وہ عبرت ناک صورت حال سے محفوظ رہیں۔ ایسا ہو سکے گا یا نہیں یہ وقت بتائے گا۔

اب ذرا پیچھے پلٹ کر بھی دیکھیے۔ اورنگزیب عالم گیر ہندوستان کا حکمراں ہے۔ پورا برصغیر ہند و پاک پر اس کا قبضہ اور تسلط ہے۔ اس کی مدت حکمرانی بھی بڑی طویل ہے جس کا نصف دور اس نے شمالی ہندوستان میں اور نصف جنوبی ہندوستان میں گزارا۔ وہ جب دکن گیا اور وہاں کی شورشوں پر قابو پالیا تو پھر ایک مدت وہیں رہا اور اورنگ آباد کو اپنا دارالحکومت بنا لیا۔ وہ اورنگ آباد میں رہتے ہوئے شمالی اور جنوبی دونوں حصوں پر بہ آسانی نظر رکھ سکتا تھا۔

ایک برطانوی مورخ لکھتا ہے کہ بادشاہ اپنی کم سنی کے باوجود کھڑے ہو کر رعایا کی درخواستیں سنتا اور ان پر حکم صادر فرماتا ہے اور اس عمل سے وہ تھکتا نہیں۔ اس کی اس بیدار مغزی کے باوجود ایک دن سر دربار اس کے ایک درباری نے فرمایا’’ حضور والا! میں آپ کا استاد ہوں۔‘‘

اس نے کہا ’’جی ہاں، مجھے معلوم ہے، میں اسی لیے تو آپ کا احترام کرتا ہوں۔ میں نے آپ سے بہت کچھ سیکھا ،مگر شہزادگی کے زمانے میں جب میں نے آپ سے پوچھا کہ انگل ترا (انگلستان) کہاں اور اس ملک کے کیا حالات ہیں تو آپ نے فرمایا کہ’’ سات سمندر پار یہ مچھیروں کی ایک بستی ہے، اگر آپ اس وقت مجھے انگلترا کی صحیح صورت حال بتا دیتے تو آج مغل حکومت ان خطرات سے دوچار نہ ہوتی جو آج ہے۔‘‘

مغل حکمرانوں نے اپنی طویل حکمرانی کے باوجود بحریہ کی طرف توجہ نہیں دی تھی اور اسی لیے اقوام مغرب بحری راستوں کے ذریعے حملہ آور ہوتی رہیں اور بالآخر ہندوستان پر قابض ہوگئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔