رشی سونک: جمہوریت کے حیران کن معجزے

زاہدہ حنا  اتوار 30 اکتوبر 2022
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ہندوستان ایک صدی تک برطانیہ کی نوآبادی رہا۔ 1857میں برطانیہ نے برصغیر ہندوستان پربراہ راست قبضے کے بعد لوٹ مار کا ایسا بازار گرم کیا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

برطانیہ نے برصغیر کو غلام بنایا تو اس وقت پوری دنیا کی مجموعی دولت میں ہندوستان کا حصہ 25 فیصد سے زیادہ تھا۔ ایک سو سال کے استحصال کے بعد جب برطانیہ ہندوستان چھوڑ کرگیا تو اس وقت تک ہندوستان مکمل طور پر کنگال اور دنیا کا غریب ترین خطہ بن چکا تھا۔

سامراجی لوٹ مار کی داستان بہت طویل ہے جسے کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ جو برطانیہ کبھی دنیا کا سب سے بڑا سامراجی ملک تھا اور جسکی سلطنت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا وہ بالآخر زوال پذیر ہوا اور اس کی نوآبادی رہنے والے ممالک بالخصوص ہندوستان کے عروج کا آغاز ہوگیا۔

2022 میں برطانیہ کو اس خطے سے گئے ہوئے 75 سال گزرچکے ہیں۔ اس پون صدی کے دوران عقل کو حیران کردینے والی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ اس سال ہندوستان ترقی کرتا ہوا اپنے سابقہ آقا ملک سے آگے نکل گیا ہے۔ چند ماہ پہلے برطانیہ دنیا کی 5 ویں سب سے بڑی معیشت تھا، وہ اس اعزاز سے محروم ہوگیا ہے، یہ مقام اب اس ملک کو حاصل ہے جسے برطانیہ نے بالکل کھوکھلا کردیا تھا۔

بات یہاں تک محدود نہیں ہے۔ چند دنوں قبل برطانیہ سے آنے والی ایک خبر نے پوری دنیا کو چونکا دیا۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ برطانیہ ان دنوں شدید مالی بحران میں پھنس چکا ہے۔ کورونا کی عالمی وبا، یورپی یونین سے علیحدگی، روس اور یوکرین جنگ نے برطانیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

ٹوری پارٹی کے وزیراعظم بورس جانسن کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے کیونکہ انھوں نے کورونا وبا کے دوران غیرذمے دار رویے کا مظاہرہ کیا تھا، وہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ان عالمی رہنمائوں میں شامل تھے جوکووڈ۔19 کی سنگینی کو نظرانداز کرنے کے مرتکب ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ ان ممالک میں شامل ہیں جہاں اس ہلاکت خیز وبا کے باعث لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔

یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانوی معیشت کے پاس کوئی متبادل منڈی نہیں تھی لہٰذا بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں کسادبازاری اور بیروزگاری تیزی سے بڑھنے لگی۔ عالمی سطح پر تیل، گیس اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ سے مہنگائی اور افراط زر میں بھی اضافہ ہوگیا۔

صورتحال اس قدر خراب ہوئی کہ بورس جانسن کو اقتدار سے دستبردار ہونا پڑا۔ ان کی جگہ لزٹرس وزیراعظم بنیں لیکن وہ بھی حالات پر قابو پانے میں ناکام رہیں۔ ان کے بعض اقدامات کے باعث معاشی مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے۔ ان پر پارٹی کے ارکان اور برطانوی عوام کی جانب سے اتنا دبائو پڑا کہ انھیں محض 45 دن کے اندر ہی عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔

وہ برطانوی تاریخ میں سب سے کم مدت تک برسراقتدار رہنے والی وزیراعظم تھیں۔ ان کے جانے کے بعد دنیا کو چونکا دینے والی وہ خبر سامنے آئی جس کا ذکر ابتداء میں کیا گیا ہے، ان کی جگہ برطانوی تاریخ کے سب سے کم عمر شخص، ٹوری پارٹی کی قیادت سنبھال کر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایسا کون سا غیرمعمولی واقعہ تھا جس نے دنیا کو حیران کردیا؟ اس واقعے میں حیرانی کے ایک نہیں کئی پہلو ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ شخص جس کا نام رشی سونک ہے وہ برطانیہ کا پہلا غیرسفید فام وزیراعظم ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس کے آباؤ اجداد کئی سو سال سے برطانیہ میں آباد نہیں ہیں بلکہ ان کے والدین برطانیہ آئے جہاں رشی 1990 میں پیدا ہوئے۔

دلچسپی کی تیسری بات یہ تھی کہ رشی کے بزرگ گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے جہاں سے ہجرت کر کے وہ افریقہ چلے گئے تھے۔ بعدازاں افریقہ سے ترک وطن کرکے وہ برطانیہ میں آباد ہوگئے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی اس بات پر فخر محسوس نہیں کرتا کہ برطانیہ کا موجودہ اور پہلا رنگ دار وزیراعظم کے والدین کا آبائی تعلق پاکستان کے ایک مشہور شہر سے تھا۔

غورکرنا چاہیے کہ ہم اس بات پر فخر کیوں محسوس نہیں کرتے؟ کیا ہم اس حقیقت کو اس لیے نظرانداز کرتے ہیں کہ رشی سونک ایک ہندو خاندان سے تعلق رکھتے ہیں؟ یہاں مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ ہندوستان کا بھی ہے جو غالباً رشی سونک پر اس لیے فخر کرتا ہے کہ مذہبی طور پر وہ ہندو ہیں۔

بہرحال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رشی سونک کی اہلیہ اور برطانیہ کی خاتون اوّل اکشا مورتی بھارتی نژاد برطانوی ہیں اور ان کے والد این۔آر نارائن کا شمار ہندوستان کے بہت بڑے ارب پتی کاروباری خاندانوں میں ہوتا ہے۔ ان کے والد انفوسس نامی ایک آئی ٹی کمپنی کے مالک ہیں۔

انھوں نے بہت کم سرمائے سے کاروبار شروع کیا اور آج وہ ایک عالمی شہرت یافتہ کمپنی کے مالک ہیں۔ اس کمپنی کے دفاتر دنیا کے 50 ممالک میں ہیں۔ اکشامورتی کی ذاتی دولت کا تخمینہ 460 ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ برطانیہ کی ہندوستانی نژاد خاتون اوّل کے پاس اپنے والد کی کمپنی کے حصص ہیں، جس سے انھیں ہر سال کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔

برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم کے حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کا تعلق کسی امیر کبیر خاندان سے نہیں ہے۔ ان کے والد ایک ڈاکٹر اور والدہ فارماسسٹ تھیں۔ دونوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ رشی، تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ وہ شروع سے انتہائی ذہین طالبعلم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا جہاں سے انھوں نے فلسفہ اور معاشیات میں ڈگری حاصل کی۔

رشی سونک نے دنیا کی مشہور اسٹین فورڈ یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کی تھی جہاں ان کی ملاقات اکشامورتی سے ہوئی۔ ان کی دوستی جلد محبت میں تبدیل ہوگئی اور پھر دونوں نے شادی کرلی۔ رشی سونک کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ برطانیہ کی تاریخ کے امیر ترین وزیراعظم ہیں۔ ان کی اور اکشا کی مجموعی دولت 830 ملین ڈالر ہے جو سابقہ ملکہ الزبتھ دوم اور موجودہ بادشاہ چارلس سے زیادہ ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ دنیا میں برطانیہ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اب یہ وقت ہے کہ اسے معاشی زوال کا سامنا ہے۔ آج اس ملک پر وہ شخص حکومت کر رہا ہے جس کے اجداد کا تعلق برطانیہ کے غلام ملک سے تھا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ کرۂ ارض کے تین چوتھائی حصے پر صدیوں راج کرنے والا لیکن معاشی طور پر زوال پذیر یہ ملک آج بھی اعلیٰ جمہوری روایات اور اقدار کے حوالے سے دنیا کے تمام ملکوں سے کہیں آگے ہے۔ ذرا غور کریں کہ اس کا وزیراعظم ایک ہندنژاد ہندو، اس کے سب سے بڑے شہر اور دارالحکومت لندن کا میئر ایک پاکستانی نژاد مسلمان ہے اور بادشاہ ایک عیسائی ہے۔

ایک غلام اور اس کے آقا کے ملک کی اس دلچسپ کہانی میں ہمارے لیے بھی غور و فکر کے کئی پہلو پنہاں ہیں۔ برطانیہ معاشی زوال کے باوجود دنیا کے تمام بالخصوص ہم جیسے ممالک کے لیے آج بھی ایک مثال ہے۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ جمہوریت صرف لفاظیوں سے نہیں بلکہ جمہوری اصولوں پر عمل کرنے سے قائم ہوتی ہے۔

برطانیہ میں عیسائیوں کی اکثریت ہے لیکن وہ ایک ہندو کو جو بھگوت گیتا پر حلف اٹھاتا ہے اپنا وزیراعظم اور ایک پاکستانی نژاد مسلمان کو اپنے دارالحکومت کا میئر بنانے سے نہ گھبراتا اور نہ ڈرتا ہے۔ اس کی پارلیمنٹ بالادست اور تمام ریاستی ادارے اس کے تابع ہیں۔

اس کا آئین غیر تحریری ہے لیکن کوئی اس کے اصولوں ور روایات سے انحراف کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ناگوار خاطر نہ گزرے تو کہنے دینگے ہندوستان کی ترقی بھی جمہوریت کا صدقہ ہے۔ جمہوریت نہ ہوتی تو بے شمار زبانوں، ان گت بولیوں، نسلی، لسانی اور ثقافتی تنوع والے اس ملک کا شیرازہ کب کا بکھرچکا ہوتا۔

آزادی کے 75 سال بعد کیا ہمیں یہ اعتراف نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارے زوال اور پس ماندگی کا اصل سبب یہ ہے کہ ہم نے جمہوریت کی نفی کی، آئین کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی خودمختاری اور قانون کی حکمرانی کے اصول کو تسلیم نہیں کیا۔ آگے بڑھنا ہے تو جمہوریت کا راستہ اپنانا ہوگا۔ پون صدی پہلے اگر ہم جمہوری سفر کا آغاز کردیتے تو پاکستان بھی آج اپنی مثالی ترقی سے دنیا کو حیران کر رہا ہوتا۔ مان لیا جائے کہ ملکوں میں آمریت نہیں بلکہ صرف جمہوریت ہی حیران کن معجزے رونما کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔