زباں فہمی نمبر 161؛ کچھ گدھے صاحب کی شان میں

سہیل احمد صدیقی  اتوار 30 اکتوبر 2022
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

 کراچی: لطیفہ بطور قندِ مکرر پیش کررہا ہوں:

ہماری خالہ محترمہ نے اپنے ننھے منے بیٹے احمد کو سمجھایا کہ جب کوئی دروازے پر آئے تو (گھرمیں اطلاع کے لیے) ادب آداب سے اُس کا بتانا یعنی فُلاں صاحب آئے ہیں۔ احمد میاں نے یہ بات گرہ سے باندھ لی۔ ایک دن گھر کا دروازہ کھُلا تھا، سامنے گدھا گزر رہا تھا، ننھا احمد سمجھا شاید اندر آنے کا ارادہ ہے۔ خالہ نے آواز دے کر پوچھا، ’احمد! کون آیا ہے؟‘۔ احمد نے فوراً جواب دیا: ’امی! گدھے صاحب آئے ہیں‘۔ اب تو خیر سے احمد کے بچے بھی اتنے مُنّے نہیں رہے، مگر شاید اُسے یہ لطیفہ یاد ہو جو ہمارے پورے گھرانے میں بہت عرصے تک قہقہے بکھیرتا رہا۔

قارئین کرام!آج خاکسار دنیا کے سب سے مظلوم جانور ’گدھے‘ صاحب کی شان میں کچھ عرض کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آج تک جتنے انسانوں کو اِس مظلوم سے نسبت دی گئی، اُن میں، ہمیں کوئی بھی اُس جیسا معصوم، سادہ لوح، محنتی، صابرومتحمل اور شریف دکھائی نہیں دیا۔آپ نے کبھی گدھے کا بچہ دیکھا ہے؟ نہیں دیکھا تو اَب دیکھ لیں، کہیں نہ کہیں مل ہی جائے گا۔بس جناب! بھول پن اور کشش تو گویا اُس کے چہرے اور قامت پر نقش نظر آتی ہے، دیکھتے ہی پیار آجاتاہے۔کہتے ہیں، ”جوانی میں گدھی کے بچے پر بھی جوبن ہوتا ہے“۔یہ الگ بات ہے کہ بڑے ہوکر وہ بھی ایک دم ”گدھا“ ثابت ہوتاہے۔ ایک فلم ساز اِدارے کی بنائی ہوئی فلم Donkey King نے 2018ء میں نمائش کے لیے پیش ہوکر خوب دھوم مچائی، اسے سیاسی تناظر میں ایک مشہور شخصیت سے جوڑ کر یہ قیاس یا گمان غالب بھی ظاہر کیا گیا کہ موصوف کی ”خرصفت“ شخصیت یعنی ’گدھے پن‘ کے پیش نظر، یہ فلم بنائی گئی ہے اور اس کے Target audienceیعنی ’ہدف‘ کے طور پر تماش بےِن یا فلم بےِن، بچے نہیں، بڑے ہیں۔فلم کے کرتادھرتا حضرات کی تردید کے باوجود..فلم کی جھلکیا ں دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید لوگوں کا شک درست ہی ہے۔اگر یہ شک درست ہے تو راقم گدھے کی اس بے توقیری پر احتجاج کرتا ہے۔

ہمارے یہاں مغرب، خصوصاً فرانس سے مستعار، روایت کے مطابق، کتا وفاداری کے لیے ضرب المثل ہے، حالانکہ اس معاملے میں مشرق ومغربی ادبیات اور تاریخ میں گھوڑے اور گدھے کا ذکر بھی ملتا ہے۔اگر بے وقوفی ہی کی بات کی جائے تو یہ محض گدھے سے مخصوص نہیں، بلکہ عوامی چالو بول چال یا تحتی بولی (Slang)میں احمق آدمی کو خچر بھی کہاجاتاہے۔عالمی تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور گدھا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا گدھا ہے جس کا ذکر شیخ سعدی کے

اس شعر میں ملتا ہے:
خرِ عیسیٰ اگر بہ مکّہ رَوَد (اگر حضرت عیسیٰ کا گدھا مکہ مکرمہ چلاجائے)
چُوں بیاید، ہنوز خر باشد (تو جب واپس آئے گا، تب بھی وہ گدھا ہی رہے گا)
کسی نے دوسر ا مصرع یوں بھی نقل کیا ہے: چوں باز آید، ہنوز خر باشد

مراد یہ ہے کہ نااہل، نکمّا،نکھٹو، غَبی اور کم اصل شخص کسی کی صحبت یا تقلید میں کچھ بھی کرگزرے، اُ س کی حیثیت وکیفیت نہیں بدلے گی۔
انجیل مقدس (کی موجودہ مُحَرّف شکل)میں محض حضرت عیسیٰ ہی کے گدھے کا ذکر نہیں، بلکہ اس سمیت پوری بائیبل (بشمول انجیل، تورات، زبور و صحائف انبیائے کرام علیہم السلام)میں جابجا اِس جانور کا ذکر آیا ہے۔حضرت یوسف کے ذکر میں بیان کیا گیا کہ انھوں نے اپنے بھائیوں کو، اپنے والد گرامی حضرت یعقوب کی خدمت میں مصر کی عمدہ اشیاء سے لدے ہوئے دس گدھے اور زادِ راہ کے لیے غلّہ، روٹی اور دیگراشیاء سے لدی ہوئی دس گدھیاں دے کر روانہ کیا(/ انجیل مقدس ; پیَدایش: 23)۔بائیبل کے ماہر کہتے ہیں کہ اُس عہد میں گدھا صنعت وحِرفت، امن آشتی اور دولت کی علامت تھا، جبکہ گھوڑا، اَمارَت، جنگ، طاقت اور جنگجو فوج کی قوت کی علامت تھا۔اس حقیقت کے پیش نظر، حضرت عیسیٰ کا بطور حکمراں، یروشلم میں گدھے پرسَوارہوکر داخل ہونا درحقیقت اُن کی عاجزی کا اظہارتھا۔اُس شہر میں تو آج بھی نقل وحرکت کے لیے گدھا عام طور پر استعمال ہوتا ہے۔اس کے برعکس ایسے ماہر بائیبل بھی موجودہیں جن کے خیال میں بائیبل میں جابجا گدھے کا نام بطور اِستعارہ لیا گیا ہے، ماسوائے حضرت عیسیٰ کے اُس واقعے میں مذکور گدھے کے۔

جانوروں (چرند،پرند،درند) کے متعلق یا اُن سے منسوب کرکے، گھڑی ہوئی حکایات مشرقی ومغربی ادبیات میں یکساں مقبول ہیں۔انگریزی میں انھیں Fableکہاجاتا ہے۔ایسی ہی ایک مشہور انگریزی حکایت کا عنوان ہے: گدھوں سے حُجّت مت کرو! (Fable: DON’T ARGUE WITH DONKEYS)۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ ایک گدھے نے شیر سے کہا کہ گھاس کا رنگ ’نیلا‘ ہوتا ہے، شیر نے تردیدکی تو بحث شروع ہوگئی اور گدھے کے کہنے پر طے پایا کہ جنگل کے بادشاہ،ببر شیر کی عدالت میں مقدمہ پیش کیا جائے۔جب وہاں پہنچ کر گدھے نے سوال دُہرایا تو جنگل کے بادشا ہ نے اُس کو خوش کرنے کے لیے اُس کی بات کی تصدیق کردی۔شیر بہت متعجب ہوا، مگر گدھا خوشی کے مارے اچھلتا کودتا ہوا جنگل میں دوڑنے لگا۔مقدمہ خارج کرتے ہوئے، منصف جناب جسٹس ببرشیر نے فریق دوم یعنی شیر کو پانچ سال چُپ رہنے کی سزاسنائی جو اُسے قبول کرنی پڑی، مگر بہرحال اُس سے رہا نہ گیا تو اُس نے سوال کیا کہ عالم پناہ! گھاس کا رنگ، سبز نہیں ہوتا کیا؟ ببر شیر نے فرمایا، ہوتا ہے، پھر جواب الجواب سن کر فرمایا، تمھیں سزا اِس لیے دی کہ گدھے سے بحث کیوں کی۔

مجھے لگتا ہے کہ گدھے پر تحقیق کیے بغیر اُسے، محض سادگی کی وجہ سے ’گدھا‘ سمجھ لیا گیا اور قراردے دیا گیا ہے، حالانکہ اُس کی صفات پر کوئی محقق، کم از کم پی ایچ ڈی کی سطح پر مقالہ لکھے تو یقینا اُس کے فضائل سب پر عیاں ہوں گے۔یہ مقالہ اردو کے ساتھ ساتھ،انگریزی اور علاقائی زبانوں میں بھی ترجمہ ہونا چاہیے تاکہ ”سبھوں کو پتا ہو“۔اپنے پنجابی بھائی اُس کی سادگی، بلکہ اُس کی مادہ کی سادگی کو اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

” جتّھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی“ اور اہل زبان نے ترجمہ یوں کیا ہے:” جہاں کی گدھی تھی، وہیں آن کھڑی ہوئی۔(گویا) انسان اپنی اصل کی طرف لَوٹتا ہے“۔ اس کی تائید اُردو میں پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ ع: پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ویسے تحقیق کرنے پر، یہ شعریوں درست ثابت ہواہے: آخر گِل اپنی صَرفِ دَرِ میکدہ ہوئی + پہنچے وہاں ہی خاک، جہاں کا خمیر ہو (بادشاہ جہاندار شاہ جہاندارؔ)۔

اردو کی مستند لغات بشمول فرہنگ آصفیہ میں ’گدھا نوازی‘ کی انتہاہے کہ شاید سب سے زیادہ محاورے اور کہاوتیں اُسی غریب کا نام لے کر شروع ہوتی ہیں یا اُسی پر ختم۔معانی ملاحظہ ہوں: (ہندی الاصل اسم مذکر) خر(فارسی)، حر (بلوچی)، حِمار(عربی، فارسی)، کھوتا(پنجابی)، دراز گوش(فارسی: خرگوش کو بھی دراز گوش کہتے ہیں)، اُلاغ(فارسی)، لاغ (براہوئی)، گڈاں (سرائیکی)، گڈھُ (سندھی)۔۲)۔بطور صفت: احمق، نادان، مورکھ، بے وقوف، گسنانگر، بچھیا کاباوا، بیل، ڈھگا، کاٹھ کا اُلّو جیسے ”کابل میں کیا گدھے نہیں ہوتے؟“ (مثل)۔۳۔اسم مذکر: بارِ خر، گدھے کا بوجھا جیسے ’چارگدھے مٹّی کافی ہے‘۔جو احمق شخص اپنے ہی خیالات ونظریات کے سبب، مصیبت میں مبتلا ہو، اُس کے لیے کہاجاتاہے، ”گدھا برسات میں بھوکا مرے“۔محاورے میں اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے خیال میں
چونکہ برسات میں کثرت سے ہری ہری گھانس (گھاس) پیدا ہوتی ہے تو گدھا خوب کھاتاہے، مگر گھاس کی وافر پیداوار دیکھ کر، اسی غم میں مبتلا ہوکر، بھوکا رہنے لگتاہے کہ شاید میں نے کھایا ہی نہیں اور یوں وہ دُبلا اور کمزور ہوجاتاہے۔

بے وقوفی اور نادانی کو ’گدھا پن‘ کہنا عام ہے، محاورے میں ”گدھا پِیٹے، گھوڑا نہیں ہوتا“ کہاجائے تو مطلب یہ ہوگا کہ بے وقوف کو اَدب سکھانے سے اُسے سمجھ بوجھ نہیں آتی اور رذیل، شریف نہیں بن سکتا۔بے وقوف آدمی کو ”گدھا چند“ بھی کہاجاتا تھا۔گدھے کی جِلد قدرتی طور پر جیسی بھی ہوتی ہو، لوگوں کو اُس پر بھی اعتراض ہے۔کہتے ہیں کہ ”گدھا دھوئے سے بَچھڑا نہیں ہوتا“ (کہاوت)یعنی کمینہ شخص، اچھے لباس پہن کر شریف نہیں ہوجاتا اور سجنے سنورنے سے بُری چیز، اچھی نہیں ہوجاتی۔حدہوگئی بھئی…اُس غریب کے رنگ رُوپ پر اِتنا اعتراض۔پہلے تو برسات اور گدھے کے تعلق سے محاورہ ایجاد کیا گیا تھا اور اَب یہ کہاوت ملاحظہ ہو جس میں گدھے کے موٹے ہونے پر بھی اعتراض ہے: ”گدھا، کھرسا میں موٹاہوتاہے“ یعنی احمق آدمی مفلسی میں بھی دُبلا نہیں ہوتا۔

کہتے ہیں کہ موسم خزاں میں گدھا خوب کھاتا ہے اور اِردگرد کم ہونے والے سبزے کو دیکھ کر سمجھتا ہے کہ میں نے گھاس کا صفایا کردیا۔یہ کہاوت جب بولتے ہیں کہ جب کوئی شخص رنج کے موقع پر خوشی یا خوشی کے موقع پر رَنج کا اظہار کرے۔کرے کوئی،مرے/ بھگتے کوئی…گدھا توگدھا ہے نا۔زعفران بہت مہنگی شئے ہے، اس کے کم یاب ہونے کی وجہ سے اس بارے میں بہت سی باتیں مشہور ہیں۔محاورہ ہے ’گدھا کیا جانے، زعفران کی قدر‘ یعنی بے وقوف شخص کسی کے جاہ ومنصب یا عہدے کی قدرنہیں پہچانتا۔اس کے لیے فارسی میں کہتے ہیں، ”چہ دَانَد بُوزنہ، لذاتِ اَدرک“ (بندرکیا جانے ادرک کا سُواد)۔ہرشخص اپنے مقام ومنصب یا مرتبے کے موافق ہی کسی چیز کی قدرکرتا ہے۔یہاں بھی بے چارے گدھے کو خواہ مخواہ لپیٹ دیا۔جب کہیں اچھی بُری چیزوں کا ایک ہی نرخ یا دام لگ رہا ہوتو ایسے میں کہاوت بولی جاتی ہے، ”گدھا گھوڑاایک بھاؤ۔یا۔گدھا گھوڑابرابر“یعنی بے قدر یا کم قدر والی چیز کو اعلیٰ سے ملادیا۔

ایک عجیب سا واہمہ لوگوں کو یہ بھی ہے کہ جس جگہ گدھا اپنی تھکن اُتارنے کے لیے لوٹتا ہے۔یا۔لوٹ لگاتا ہے تو اگر کوئی اُ س جگہ، اس کے آثار کے اوپر سے گزرے تو اُس کے اپنے پاؤں میں دردشروع ہوجاتا ہے، اسے کہتے ہیں، ”گدھا لوٹن“۔یعنی چونکہ برسات میں کثرت سے ہری ہری گھانس (گھاس) پیدا ہوتی ہے تو گدھا خوب کھاتاہے، مگر گھاس کی وافر پیداوار دیکھ کر، اسی غم میں مبتلا ہوکر، بھوکا رہنے لگتاہے کہ شاید میں نے کھایا ہی نہیں اور یوں وہ دُبلا اور کمزور ہوجاتا ہے۔

بے وقوفی اور نادانی کو ’گدھا پن‘ کہنا عام ہے، محاورے میں ”گدھا پِیٹے، گھوڑا نہیں ہوتا“ کہاجائے تو مطلب یہ ہوگا کہ بے وقوف کو اَدب سکھانے سے اُسے سمجھ بوجھ نہیں آتی اور رذیل، شریف نہیں بن سکتا۔بے وقوف آدمی کو ”گدھا چند“ بھی کہاجاتا تھا۔گدھے کی جِلد قدرتی طور پر جیسی بھی ہوتی ہو، لوگوں کو اُس پر بھی اعتراض ہے۔کہتے ہیں کہ ”گدھا دھوئے سے بَچھڑا نہیں ہوتا“ (کہاوت)یعنی کمینہ شخص، اچھے لباس پہن کر شریف نہیں ہوجاتا اور سجنے سنورنے سے بُری چیز، اچھی نہیں ہوجاتی۔حدہوگئی بھئی…اُس غریب کے رنگ رُوپ پر اِتنا اعتراض۔

پہلے تو برسات اور گدھے کے تعلق سے محاورہ ایجاد کیا گیا تھا اور اَب یہ کہاوت ملاحظہ ہو جس میں گدھے کے موٹے ہونے پر بھی اعتراض ہے: ”گدھا، کھرسا میں موٹاہوتاہے“ یعنی احمق آدمی مفلسی میں بھی دُبلا نہیں ہوتا۔کہتے ہیں کہ موسم خزاں میں گدھا خوب کھاتا ہے اور اِردگرد کم ہونے والے سبزے کو دیکھ کر سمجھتا ہے کہ میں نے گھاس کا صفایا کردیا۔یہ کہاوت جب بولتے ہیں کہ جب کوئی شخص رنج کے موقع پر خوشی یا خوشی کے موقع پر رَنج کا اظہار کرے۔

کوئی، مرے/ بھگتے کوئی…گدھا توگدھا ہے نا۔زعفران بہت مہنگی شئے ہے، اس کے کم یاب ہونے کی وجہ سے اس بارے میں بہت سی باتیں مشہور ہیں۔محاورہ ہے ’گدھا کیا جانے، زعفران کی قدر‘ یعنی بے وقوف شخص کسی کے جاہ ومنصب یا عہدے کی قدرنہیں پہچانتا۔اس کے لیے فارسی میں کہتے ہیں، ”چہ دَانَد بُوزنہ، لذاتِ اَدرک“ (بندرکیا جانے ادرک کا سُواد)۔ہرشخص اپنے مقام ومنصب یا مرتبے کے موافق ہی کسی چیز کی قدرکرتا ہے۔یہاں بھی بے چارے گدھے کو خواہ مخواہ لپیٹ دیا۔جب کہیں اچھی بُری چیزوں کا ایک ہی نرخ یا دام لگ رہا ہوتو ایسے میں کہاوت بولی جاتی ہے، ”گدھا گھوڑاایک بھاؤ۔یا۔گدھا گھوڑابرابر“یعنی بے قدر یا کم قدر والی چیز کو اعلیٰ سے ملادیا۔ایک عجیب سا واہمہ لوگوں کو یہ بھی ہے کہ جس جگہ گدھا اپنی تھکن اُتارنے کے لیے لوٹتا ہے۔یا۔لوٹ لگاتا ہے تو اگر کوئی اُ س جگہ، اس کے آثار کے اوپر سے گزرے تو اُس کے اپنے پاؤں میں دردشروع ہوجاتا ہے، اسے کہتے ہیں، ”گدھا لوٹن“۔یعنی گدھے کو چاہیے کہ کسی یخ بستہ کمرے میں ٹانگیں پسارکر آرام کرے، کمال ہے بھئی!

بچوں کے ایک قدیم کھیل کا نام ”گدھا ہِینچو۔یا۔گدھا گدھی“ ہے۔اب اتنی بے عزتی کون برداشت کرے؟ جانے دیں۔پچھلے دنوں ہمارے ایک فاضل بزرگ معاصر نے اس قسم کی کہاوتوں کی بابت دریافت کیا تو ہمیں معذرت کرنی پڑی:

ا)۔گدھوں سے ہل چلیں تو بیل کیوں بسائیں یعنی اگرکسی کا کام نادان افرادہی کے ذریعے نکل رہا ہوتو پھر دانا، ہنرمند کو کون پوچھے۔
ب)۔گدھوں کے ہل چلنا یا پھِرنا(فعل لازم)/گدھے کے ہل چلوانا: یعنی کسی شہر کا ایسے تباہ وبرباد، ویران ہوجانا کہ وہاں فقط گدھے چرتے نظرآئیں۔پرانے وقتوں میں عورتیں بددعا یا کوسنے کے طور پر کہا کرتی تھیں، ”خدا کرے تیرے ہاں گدھوں کے ہل چلیں“ یعنی تیرا گھر اُجڑجائے۔اتنا بغض، وہ بھی اِ س معصوم، ناسمجھ جانور سے؟؟۔

اب گدھوں کے متعلق ایک طویل فہرست محاورات وضرب الامثال کا کچھ حصہ:گدھے پر چڑھانا یا سوارکرنا، گدھے پر کتابیں لادنا، نیز، لَدنا، گدھے کا کھایا کھیت نہ پاپ نہ پُن/گدھے کے کھلائے کا پاپ نہ پُن، گدھے کو اَنگوری باغ، گدھے کو پُوری حلوا/خُشکہ /گُل قند، گدھے کو حلوا کھلا کر لاتیں کھانا، گدھے کو گدھا کھُجاتا ہے، گدھے کو نُون دیا، اُس نے کہا،میری آنکھیں دُکھتی ہیں، گدھے کی آنکھوں میں نُون دیا، اُس نے کہا میری آنکھیں پھوڑیں، گدھے والا یعنی خَربندہ، کُمہار، پرجاپت، گدھے لادنے اور کرائے پر دینے والا، نیز، بدحیثیت یا بدہئیت آدمی پر پھبتی، گدھے کی مادہ کو گدھی کہتے ہیں، اس کی نسبت یہ بھی کہاجاتا تھا، ”چاہنے کے نام سے گدھی نے بھی کھیت کھانا چھوڑدیا، نیز احمق اور پھُوہڑ عورت کو گدھی کہتے ہیں۔

دنیا کی مختلف زبانوں کے محاورات اور ضرب الامثال میں اس معصوم جانور کا طرح طرح سے ذکر ملتا ہے۔کَینیا کی کہاوت ہے کہ ”گدھا ہمیشہ شکریہ بھی لات مار کر اَدا کرتا ہے“۔منگولیا کی کہاوت ہے کہ ”گدھا، گھوڑے کا راستہ خوب پہچانتا ہے“۔آرمینیہ کی کہاوت ہے کہ ”گدھے کو پھول دیے، سونگھنے کو،وہ کھاگیا“۔مصر کی کہاوت ہے کہ ”نصف اُونٹ ہونے سے بہتر ہے، نصف گدھا ہونا“۔

مشرقی ادبیات میں مشہورومقبول مزاحیہ کردار(حقیقی) مُلّا نصر الدین کا گدھا بھی بہت مشہور ہے۔اُن کی حکایات میں ایک یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ کہیں اپنے گدھے پر بیٹھے جارہے تھے اور اُن کے بیٹے نے گدھے کی لگام تھامی ہوئی تھی۔راستے میں کسی نے اعتراض کیا تو بیٹے کوبٹھا کر خود لگام پکڑلی، پھر کہیں اور لوگوں نے اعتراض کیا تو اُنھوں نے سوارہوکر،بیٹے کو آگے بٹھالیا، مزید آگے جاکر اعتراض کاسامنا کیا تو اُسے پیچھے بٹھالیا۔لوگ اس پر بھی راضی نہ ہوئے تو اُنھوں نے گدھے کو دونوں ہاتھوں سے اپنے اوپر اُٹھالیا۔

چونکہ مشرق میں گدھے کے ساتھ نارَوا سلوک عام ہے اور اُسے تضحیک وتحقیر کی علامت سمجھا جاتا ہے، لہٰذا برطانیہ میں ہونے والی جدید عملی تحقیق کا نقل کرنا بھی لاز م ہے۔(یہاں یاد رکھیں کہ امریکا میں گدھے کو انتخابی سیاست میں اہم مقام حاصل ہے)۔وہاں مریضوں کی دیکھ بھال کے مراکز (Nursing homes)میں داخل ہونے والے مریضوں خصوصاً بالغ، مُعَمّر افراد اور معذور بچوں کے ذہنی ونفسیاتی علاج کے لیے یا آسان الفاظ میں دل بہلانے کے لیے وہاں گدھے لائے جاتے ہیں۔اب چونکہ اکثریت کے خیال میں گدھا، بالکل ہی’گدھا‘ ہوتا ہے، اس لیے اُس کی نقل وحرکت کے ساتھ ساتھ، اُس کے فُضلے کو فرش پر گرنے اور پھیلنے سے روکنے کے لیے، حفاظتی اقدام کے طور پر، ایک بالٹی رکھی جاتی ہے اور اُسے حسبِ ضرورت کھسکایا جاتا ہے،تاکہ اس تفریحی ناٹک میں گندگی کا عنصر شامل ہوکر طبیعت مکدّر نہ کردے۔

اس ”گدھا گھر“ کی منیجر ٹینا سمنگٹن نے بتایا کہ گدھے مجھے بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اگر وہ پسند نہ کرتے تو ہم انھیں کبھی بھی(وہاں اندر) نہ لے کر جاتے۔وہ لوگوں سے میل جول پسند کرتے ہیں،ملنسار اور بہت پُرسکون ہوتے ہیں“۔یہ قول تو کسی فرماں بردار شوہر، بلکہ گھر داماد کا پرچار معلوم ہوتا ہے۔مجھے اسٹوڈیو نمبر نو کا ایک پرانا ریڈیو ڈراما کچھ کچھ یاد ہے جس میں مرکزی کردار،اِفّو(اِف فُو:اصل نام شاید افتخار) باربار کوئی نہ کوئی چیز بناکر، کاروبار کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے اور اُس کے ایک بزرگ، ہر بار ایک ہی جملہ بطور تکیہ کلام کہتے ہیں: ”میاں اِفّو! تم گدھے ہو گدھے“۔ویسے ہمیں دھوبی کے گدھے کے ساتھ ساتھ، ٹی وی پروگرام ’کلیاں‘ کے گدھے یعنی مسٹر ہینڈسم کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔نِیل گائے کو جنگلی گدھا کہاجاتا ہے اور زیبرا کے متعلق یہ پرانا لطیفہ ہے کہ گویا گدھے کو رَنگ دیا گیا ہے۔

تمام شگفتہ گفتگو میں ایک انتہائی محترم ذکر بھی شامل کرلیں۔ ہمارے پیارے نبی کریم (اُن پہ لاکھوں درود اور کروڑوں سلام)کے پالتو گدھے”یعفُور“ نے اُن کے وصال کے بعد، صدمے کے مارے، ایک کنوئیں میں چھلانگ لگا کر جان دے دی تھی۔(تاریخ ابن عساکر، البدایہ والنہایہ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔