زباں فہمی نمبر166؛ ایک مُنصِف کی شگفتہ بیانی

سہیل احمد صدیقی  اتوار 4 دسمبر 2022
زباں فہمی نمبر؛ 166 از سہیل احمد صدیقی فوٹو: ایکسپریس نیوز

زباں فہمی نمبر؛ 166 از سہیل احمد صدیقی فوٹو: ایکسپریس نیوز

 کراچی: جھنگ سے ٹرانسفر ہونے پر جب سیئنر ایڈووکیٹ حسن نقوی صاحب نے راقم کے ہمہ وقت خوش رہنے کا راز پوچھا تو میں نے انکشاف کیا کہ ہروقت خوش رہنے کا سبب، میری دو شادیاں ہیں ; جس پر نقوی صاحب نے حیرت سے پوچھا، جناب! ایک شادی والے تو دُکھی پھِررہے ہیں، بھلا دو شادیو ں والے کیسے خوش رہ سکتے ہیں؟ جس پر میں نے جواب دیا کہ جب میں گھرجانے پر دونوں سوتنوں کو لَڑتے دیکھتا ہوں تو اُنھیں وکیل سمجھ کر Patient hearing دینے کے بعد، پیشی دے دیتا ہوں کہ جیسا کہیں گی، ویسا کرلیں گے اور جب آپ لوگ عدالت میں بحث کرتے ہیں تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ میری دوبیویاں لڑرہی ہیں۔ میرے خوش رہنے کی منطق سُن کر نقوی صاحب دونوں ہاتھوں سے سلام کرکے مُسکرائے اور چلے گئے“۔

اردو اہلِ قلم(شعراء،ادباء و صحافیان) کے قافلے میں شامل، عدلیہ سے تعلق رکھنے والی بعض شخصیات بھی اپنے جوہردکھانے کے سبب، ممتازہوئیں مثلاً علامہ فضل حق خیرآبادی، مفتی صدرالدین آزُردہ، سرسید احمدخاں، اکبر الہ آبادی،علامہ اقبال،جسٹس ایم آر کیانی،اے آرکارنیلئس، جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال،ایس ایم ظفر،پروفیسر ڈاکٹر بیرسٹر کے کے عزیز۔ابتدائی تینوں شخصیات کی علمیت ہرلحاظ سے نمایاں ہے، ان تینوں نے اردو،فارسی وعربی ادب میں حسب توفیق اضافہ کیا، مگر اس فہرست میں شامل ابتدائی پانچ شخصیات نے کوئی ایسی کتاب یادگار نہیں چھوڑی جس میں اُن کے عدالتی شب وروز کی بابت کوئی بیان ہو۔

Zuban Fehmi 1

شعبہ قانون سے متعلق،ہمارے نثرنگاروں میں ایک اچھا اضافہ،ہمارے بزرگ معاصر محترم اعجاز احمد بُٹر (سابق ڈسٹرکٹ،سیشن جج) کا ہے جو اَپنی فطری شگفتہ بیانی اور سادہ طرز تحریر کے سبب، یقینا اپنے عہدمیں نمایاں ہونے کے لائق ہیں۔اُن کی اولین کتاب،(اُن کے اخباری کالموں کا مجموعہ) ’میزان ِ عدل‘ کے نام سے منظر عام پرآئی جس میں انھوں نے اپنے تلہ گنگ سے نارووال تک، عرصہ ملازمت (1982ء تا 2001ء)کا احوال بہت دل چسپ اند از میں یوں پیش کیا کہ آپ بیتی، جگ بیتی بن گئی۔اُن کی پیشہ ورانہ اور نجی زندگی کے معاملات میں ہرکس وناکس کے لیے دل چسپی کا موادہونہ ہو، اُنھوں نے رقم ایسے کیا ہے کہ بدذوق قاری بھی مسکرائے بغیر اور داددیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

ظاہر ہے کہ ایک طویل مدت کی ملازمت کا روزنامچہ بھی اتنا مختصر نہیں ہوتا کہ ایک ہی کتاب میں سمویاجاسکے، لہٰذا فاضل جج صاحب نے اسی کتاب کو بقیہ پندرہ سالہ ملازمت کے احوال پر مبنی، دوسرے حصے سے جوڑ کر، ایک نظر ثانی شدہ، دوسری کتاب بعنوان ”عدالتی شب وروز: تلہ گنگ سے ڈیرہ غازی خان تک 1982] تا [2016حصہ اول ودوم)“ تصنیف کرکے شایع فرمائی۔

(ابتداء میں انھوں نے رابطہ کرکے، اپنی اولین کتاب ازراہ عنایت اس خاکسار کو ارسال فرمائی، میرے واٹس ایپ حلقے، بزم زباں فہمی میں شامل ہوئے اور فرمائش کی کہ اس کتاب پر کچھ تبصرہ کردیں۔بندہ اپنی مصروفیات کے سبب ایک مدت تک ٹالتا رہا، پھر ایک دن انھوں نے ارشادفرمایا کہ صدیقی صاحب! اب ذرا ٹھہرجائیں۔میری کتاب کا دوسرا ایڈیشن، توسیع کے ساتھ جلد منظر عام پر آرہا ہے، آپ کوبھیجوں گا، اس پر لکھیے گا۔کتاب حسب وعدہ پہنچ گئی تو اس کا مطالعہ وتبصرہ واجب ہوگیا)۔

پوری کتاب میں جابجا طرح طرح کے شگوفے قاری کی ظرافت ِ طبع کو چھیڑنے کے لیے موجودہیں۔اب ذکر دوسری بیوی کا ہوا تو لگے ہاتھوں یہ دیکھیے کہ فاضل مُنصف نے کس کس طرح دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں اور کیسے کیسے دیگر ستم رسیدہ شوہروں کی ترجمانی کی سعی فرمائی ہے:

Zuban Fehmi

ا)۔”جب جھاوری صاحب نے راقم سے آفس میں دیر تک بیٹھے رہنے کی وجہ پوچھی تو عرض کیا، جناب! آفس میں رہتے ہوئے دوسروں پر حکم چلاتا ہوں، جب کہ گھرجاکے حکم ماننا پڑتا ہے، جس پر جھاوری صاحب نے مسکرا کے پوچھا، کہیں تمھارا اشارہ میری طرف تو نہیں ہے؟ تو راقم نے جواب دیا کہ جناب! یہ تو ہر گھر کی کہانی ہے“۔

ب)۔”پروموشن کی بات چلی تو جھاوری صاحب نے پوچھا، بُٹر صاحب! آپ ترقی پرملنے والے بقایا جات کس بیگم کو دیں گے؟ راقم: سر! کسی کو نہیں۔میں نے بیگمات سے (تفریحاً) کہہ دیا ہے کہ محکمے نے میراChoiceمانگا تھا کہ یا تو ترقی لے لو یا پھر بقایا جات، جس پر میں نے مالی(مالیاتی۔س ا ص) فائدہ چھوڑ کر ترقی لے لی ہے تاکہ تمھارے دنیاوی (دنیوی۔ س ا ص)درجات بلند ہوں، وہ یوں کہ اب تم سینئر سِوِل جج کی بیگمات نہیں، بلکہ (ایڈیشنل) سیشن جج کی بیگمات کہلاؤ گی، جس پر اُدھر بیگمات خوش اور اِدھر (بقایا جات Pocketکرنے پر)، راقم خوش“۔

ج)۔”……..بیگم: آپ گھر کو جیل کہہ رہے ہیں، راقم: بھاگوان! جب تم حافظ آباد (میں) نہیں ہوتیں تو گھر بھی جیل ہی ہوتا ہے۔اس پر جھاوری صاحب نے کہا کہ آپ تو بڑے فن کار ہیں۔میرا جواب تھا کہ جناب! گزارہ تو کرنا ہے، ورنہ لڑائی کی صورت میں تیسری شادی کرنا پڑے گی جس کا متحمل نہیں ہوں“۔

د)۔”دوستانہ Dinnerکے دوران (میں) جب سیشن جج صاحب نے اپنے بے تکلف سینئر سِوِل جج سے رازدارانہ انداز میں کہا کہ یہ مُرغاتو اعجاز بُٹر کا ہانی ہے تو راقم نے عرض کیا، جناب! ہانی کہاں یہ تو بُٹر کا بھی سینئر ہے۔اس کی وجہ پوچھنے پر بتایا کہ اعجاز بُٹر کی تو دوشادیاں (ہوئی) ہیں، جبکہ اس کی شادیوں کا شمار نہیں، جبھی تو اِس کی ٹانگیں کمزورہیں“۔

ہ)۔”ایک دفعہ راقم کے انتہائی سینئر Colleagueجناب خالد میاں، بیگم صاحبہ کے ہمراہ، فیصل آباد تشریف لائے تو (ہماری بیگم کے سامنے) پوچھا کہ آپ کی Courtکہاں ہے؟ تو عرض کیا کہ اس بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر My courtہے جس کے اوپر High courtہے (راقم کا بیگم صاحبہ کی طرف اشارہ تھا)“۔

و)۔”ورکرز: کیا جناب کے ہاں (یہاں) ڈینگی ہے؟ راقم: جی ہے۔ورکرز: تو پھر دکھائیں۔راقم: وہ تو سوئی ہوئی ہے۔ورکرز(حیران وپریشان ہوکر): ڈینگی سوئی ہوئی ہے؟ کیا مطلب؟ راقم: ڈینگی ہماری بیگم ہے۔وہ ہربات کا ڈنگا جواب دیتی ہے، اس لیے ہم اُسے ڈینگی کہتے ہیں“۔

ز)۔”مرحوم نظامی صاحب نہایت شفیق اور باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے۔ہمہ وقت شگفتہ چہرہ اور متبسم آنکھیں۔ایک دفعہ پوچھنے لگے، مسٹر بُٹر! آپ کی دونوں بیگمات کے ساتھ کیسی گزررہی ہے؟ تو جواب دیا کہ جناب Diplomacyسے (لالی پاپ دے کر)، پوچھا، کیا مطلب؟ عرض کیا،سر! نہ میں ناں کرتاہوں نہ کام کرتا ہوں، بس تاریخیں دیتا رہتاہوں۔کوئی بھی ناراض نہیں ہوتی“۔

اعجاز احمد بُٹر صاحب نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور کلرک، رجسٹریشن آرگنائزیشن (نادرا کا سابق ادارہ) کیا، جلد وہاں سے مستعفی ہوکر وزارت ِ داخلہ میں اسٹینوگرافر کی ملازمت شروع کی اور اسی عرصے میں شبانہ روز محنت سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، ایم اے (سیاسیات) کا امتحان پاس کیا۔بطور مُنصف اُن کی آزمائش کا سلسلہ 1982ء میں شروع ہوا جب انھیں سِوِل جج تعینات کیا گیا، مابعد وہ ترقی پاکر سیشن جج ہوگئے۔اس ساری مدت میں اُنھیں کسی تفریحی مقام پر جانے کی مہلت ملی نہ اس کا خیال آیا۔حیرت ہے کہ اس طرح کی ہمہ وقت مصروفیات بھی اس شخص کی شگفتہ مزاجی پر ذرا اثرانداز نہ ہوسکیں، ورنہ دیکھنے میں تو آیا ہے کہ لوگ زیادہ مصروفیت میں چڑچڑے اور مَردُم بیزا رہوجاتے ہیں۔

زیرِ نظر کتاب کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہے کہ فاضل منصف صاحب نے اپنی بھرپور معاشی جدوجہد میں بکثرت مطالعہ کرتے ہوئے شعر وادب کادامن تھامے رکھا، شعر گوئی کی باقاعدہ مشق کرنے کی مہلت نہ ملی، مگر بڑی تعدادمیں اشعار یاد کرنے کے ساتھ ساتھ،تحریف گوئی [Parody writing]میں خوب مہارت حاصل کی۔جابجا متعددمقامات پر اُن کی ان دونوں صلاحیتوں کا مظاہرہ نظرآتا ہے۔برمحل شعر پڑھنا اور حسب ضرورت کسی شعر میں تحریف کرکے اپنے مخاطب یا سامع کو لاجواب کردینا اُن کا خاصّہ رہا۔ایک موقع پر اُنھوں نے فیض ؔکا مشہور شعر،تحریف کرتے ہوئے یہ پڑھا:

؎ جس دھج سے کوئی دفتر کوگیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
اس جاب کی کوئی بات نہیں، یہ جاب تو آنی جانی ہے

اُن کی حاضر جوابی اور برجستہ گوئی بھی عدلیہ میں اُن کی شہرت کاسبب بنی۔
عدالتوں میں اعلیٰ منصب پر فائز حضرات کو کبھی کبھی ایسے معاملات بھی درپیش ہوتے ہیں:

”ایک دفعہ گلابی رُت کے موقع پر جُملہ سِوِل ججز نے پاشا صاحب سے چائے کے ساتھ، پکوڑے کھانے کی فرمائش کی تو فوراً نائب قاصد بازار بھجوایا گیا جس نے فوراً ہی واپس آکے انکشاف کیا کہ دکاندار نے جج صاحبان کو پکوڑے دینے سے صاف انکار کردیا ہے، جسے سبھی ججز نے عدلیہ کی حاکمیت پر حملہ سمجھتے ہوئے فوری ایکشن لینے کی تجویز دی۔چنانچہ نائب کورٹ کو حکم ہواکہ گستاخ دکاندار کو فوراً حاضر کیا جائے، جس نے حاضر ہوکر پکوڑے نہ دینے کی بابت معصومانہ مؤقف اختیار کیا کہ جناب! آج میں نے پکوڑوں میں میتھی کی جگہ بھینسوں کا شٹالا (چارہ) ڈالا ہے۔اب بندہ جناب کو ’شٹالامارے پکوڑے‘بھلا کیوں کھلائے گا؟ یہ تو عوام النّاس کا ناس مارنے کے لیے ہیں۔دکاندار کی صاف گوئی اور عدلیہ سے ہمدردی کے کارن، اُسے معاف کرتے ہی بنی“۔
اور یہ دیکھیے جب برجستہ گوئی، صاف گوئی کسی رُو رعایت سے کام لیے بغیر کسی محفل کا نقشہ بدلتی ہے تو کیا ہوتا ہے:

”چکوال Stayکے دوران (میں)، ہمارے کئی ایک Colleague، شادی کرکے شخصی آزادی سے محروم ہوگئے۔جب اپنے ہاں (یہاں) Welcome dinnerپر ایک بھابھی صاحبہ سے پوچھا کہ آپ لوگ شادی پر خوش تو ہیں ناں؟ مُثبَت جواب آنے پر میں نے بتایا کہ ایک دوسری ’ذات‘، آپ سے بھی زیادہ خوش ہے۔بھابھی حیرت سے بولیں ;’وہ کون؟‘ میں نے جواب دیا کہ مُرید Air baseکے سُؤر(خنزیر) جنھیں اتوار کے اتوار، آپ کے میاں صاحب، مسلح ہوکے پریشان کیا کرتے تھے۔اب جبکہ جج صاحب کی شادی ہوچکی ہے، وہ مخلوق بھی چین سے خوشیا ں منارہی ہے“۔
موصوف کی شگفتہ بیانی محض ’معاملات بیگمات‘ تک محدودنہیں،بلکہ اُنھیں مہلت ملتی تو ایک کتاب بیگمات نامہ کے عنوان سے الگ لکھ جاتے،یہ الگ بات ہے کہ بہت سے دیگر اہل قلم کے برعکس انھوں نے اپنی بیگمات کے اعلیٰ کردارکی گاہے گاہے تعریف کرنے میں بھی کنجوسی سے کام نہیں لیا، بہرحال اُن کی ظرافت کا ایک اور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:

”…….ایک دفعہ میں نے کیانی صاحب سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ کی عدم موجودگی میں، ایک گدھا آپ کے گھر کے سامنے بیٹھا رہتا ہے، لیکن آپ کے آنے پر وہ چلاجاتا ہے، تو کیانی صاحب نے (جان چھُڑاتے ہوئے)جواب دیا کہ جی ہاں، ادھر ایک وقت میں ایک ہی گدھا رہ سکتا ہے، جس پر ACنے بھول پن سے کہا کہ یہ بات نہیں، دراصل یہ گدھا،کیانی صاحب کے گھر کو اپنے باپ کا گھر سمجھتا ہے“۔
اعجاز صاحب نے عدالتی نظام اور عدلیہ میں موجود خامیوں اور خرابیوں کی نشان دہی بھی کھُلے دل سے کی ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں:
”……لیکن مقام افسوس ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں، جھوٹا بیان ِ حلفی دینے پر کوئی بھی Noticeنہیں لیتا۔جعلی دستاویزات میں بدقسمت،بیان حلفی سرفہرست ہے،جسے کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا“۔

ایک جگہ اُنھوں نے یہ واقعہ لکھ کر ہمارے معاشرے میں موجود،ابن الوقت لوگوں کی برمحل عکاسی کی ہے:
”جب عدالت واپس جاکر میں نے ایک اسٹاف ممبر سے پوچھا کہ(آیا) اُس نے (تم نے) نماز کے لیے وضوکیا تھا؟، جس کا اُس نے عجیب وغریب جواب دیاکہ وقت کم تھا، اس لیے میں نے دل ہی دل میں تیمم کرلیا تھا۔جس کی اُس نے یوں وضاحت کی کہ سرکاری نماز تو صرف رضائے افسر کے لیے پڑھی جاتی ہے نہ کہ رضائے الٰہی کے لیے“۔

جج صاحب نہایت سنجیدہ بیان میں بھی چُٹکیاں لینے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے سے نہیں چوکتے:

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔