بجلی کی بجائے روشنی سے چلنے والا انقلابی پیس میکر
بیٹری سے پاک نیا پیس میکر الگورتھم کے تحت کام کرتے ہوئے مریض کو کم تکلیف دیتا ہے
بجلی کی بجائے روشنی کے جھماکے سے دل کی دھڑکن کوقابو میں رکھنے والا پیس میکر بنایا گیا ہے جو پھولوں کی پنکھڑی کی شکل میں ڈھالا گیا ہے۔ فوٹو: جامعہ ایریزونا
دل کی دھڑکن کو معمول پر رکھنے کے لیے پیس میکر لگائے جاتے ہیں لیکن ان کے اپنے نقصانات ہوتے ہیں۔ تاہم اب بجلی کی بجائے روشنی سے چلنے والا پیس میکر تیار کیا گیا ہے جو مریض کے لیے کم تکلیف دہ اور قدرے زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔
دل کی بے ترتیب دھڑکن کو آٹریئل فلبریشن یا سادہ الفاظ میں اردمیا بھی کہلاتی ہے جس سےدنیا بھر میں سالانہ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور 6 کروڑ لوگ بیمار ہوجاتے ہیں۔ ان مریضوں کی جان بچانے کے لیے سینے کے اندر پیس میکر لگائے جاتے ہیں جو دل کی کیفیت کا احساس کرتے ہوئے وقفے وقفے سے بجلی کےجھٹکے خارج کرتے ہیں۔
لیکن اس کی تنصیب ایک تکلیف دہ عمل ہوتی ہے اور مریض خود بھی بے چین اور مضطرب رہتا ہے۔
لیکن یاد رہے کہ جیسے ہی بجلی کے تار دل کے خاص مقام پر لگائے جاتے ہیں تو بجلی دینے سے جہاں دل کی دھڑکن ہموار ہوتی وہیں درد محسوس کرنے والے ریسپٹر پر بجلی پہنچتی ہے جس سے تکلیف ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جامعہ ایریزونا کے سائنسداں ڈاکٹر فِلپ کیٹروف قاور ان کے ساتھیوں نے پورے دل کو پیس میکر کے پورے اثرات سےبچانے کے لیے اسے دوبارہ ڈیزائن کیا ہے۔
اگرچہ اسے انسانوں پر آزمایا نہیں گیا ہے لیکن اس کے اندر جالی نما ساخت بنائی گئ ہے جو پورے دل کو بجلی دینے کی بجائے صرف مطلوبہ مقام تک ہی برقی سگنل بھیجتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آلہ روشنی کی مدد سے کام کرتا ہے۔ اس طرح صرف دل کے ان خلیات کو بجلی دی جاتی ہے جو دل کے سکڑنے اور پھیلنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ یہ خلیات کارڈیومایوسائٹس کہلاتے ہیں۔
اس طرح نہ صرف پیس میکرلگانے کی تکلیف کم ہوتی بلکہ اس کا خاص نظام دھڑکن کی بدلتی ہوئی کیفیت کے لحاظ سے برقی رو بھیجتا ہے اور یوں دل کے اوپری اور نیچے حصے کو ہم آہنگ رکھتا ہے۔ اس سے مریض کو بھی بہت افاقہ ہوگا۔
پیس میکر کے الیکٹروڈ کو پھول کی چار پتیوں کی سی شکل دی گئی ہے۔ انہیں نرم لچکدار مٹیریئل سےبنایا گیا ہے۔ ہر الیکٹروڈ سے بجلی خارج ہوتی ہے اور ریکارڈ کرنے والا الیکٹروڈ ہوتا ہے۔ پتیوں نما ساخت دل کو گویا گھیرے میں لے لیتی ہے اور دل کی بدلتی شکل کے لحاظ سے ردِ عمل ظاہر کرتی ہے۔
پھر مشین میں نصب کمپیوٹرالگورتھم فیصلہ کرتا ہے کہ کہاں روشنی دینی ہے۔ روشنی کی شعاع بجلی کے مقابلے میں کم تکلیف دہ ہوتی ہے۔ پھر اس میں بیٹری کی ضرورت نہیں رہتی۔
جانوروں پر اس کی آزمائش کی گئی ہے اور اس کے بہترین نتائج سامنے آئے ہیں۔ تاہم انسانوں پر تحقیق کے لیے مزید وقت درکار ہوگا۔
.
دل کی بے ترتیب دھڑکن کو آٹریئل فلبریشن یا سادہ الفاظ میں اردمیا بھی کہلاتی ہے جس سےدنیا بھر میں سالانہ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور 6 کروڑ لوگ بیمار ہوجاتے ہیں۔ ان مریضوں کی جان بچانے کے لیے سینے کے اندر پیس میکر لگائے جاتے ہیں جو دل کی کیفیت کا احساس کرتے ہوئے وقفے وقفے سے بجلی کےجھٹکے خارج کرتے ہیں۔
لیکن اس کی تنصیب ایک تکلیف دہ عمل ہوتی ہے اور مریض خود بھی بے چین اور مضطرب رہتا ہے۔
لیکن یاد رہے کہ جیسے ہی بجلی کے تار دل کے خاص مقام پر لگائے جاتے ہیں تو بجلی دینے سے جہاں دل کی دھڑکن ہموار ہوتی وہیں درد محسوس کرنے والے ریسپٹر پر بجلی پہنچتی ہے جس سے تکلیف ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جامعہ ایریزونا کے سائنسداں ڈاکٹر فِلپ کیٹروف قاور ان کے ساتھیوں نے پورے دل کو پیس میکر کے پورے اثرات سےبچانے کے لیے اسے دوبارہ ڈیزائن کیا ہے۔
اگرچہ اسے انسانوں پر آزمایا نہیں گیا ہے لیکن اس کے اندر جالی نما ساخت بنائی گئ ہے جو پورے دل کو بجلی دینے کی بجائے صرف مطلوبہ مقام تک ہی برقی سگنل بھیجتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آلہ روشنی کی مدد سے کام کرتا ہے۔ اس طرح صرف دل کے ان خلیات کو بجلی دی جاتی ہے جو دل کے سکڑنے اور پھیلنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ یہ خلیات کارڈیومایوسائٹس کہلاتے ہیں۔
اس طرح نہ صرف پیس میکرلگانے کی تکلیف کم ہوتی بلکہ اس کا خاص نظام دھڑکن کی بدلتی ہوئی کیفیت کے لحاظ سے برقی رو بھیجتا ہے اور یوں دل کے اوپری اور نیچے حصے کو ہم آہنگ رکھتا ہے۔ اس سے مریض کو بھی بہت افاقہ ہوگا۔
پیس میکر کے الیکٹروڈ کو پھول کی چار پتیوں کی سی شکل دی گئی ہے۔ انہیں نرم لچکدار مٹیریئل سےبنایا گیا ہے۔ ہر الیکٹروڈ سے بجلی خارج ہوتی ہے اور ریکارڈ کرنے والا الیکٹروڈ ہوتا ہے۔ پتیوں نما ساخت دل کو گویا گھیرے میں لے لیتی ہے اور دل کی بدلتی شکل کے لحاظ سے ردِ عمل ظاہر کرتی ہے۔
پھر مشین میں نصب کمپیوٹرالگورتھم فیصلہ کرتا ہے کہ کہاں روشنی دینی ہے۔ روشنی کی شعاع بجلی کے مقابلے میں کم تکلیف دہ ہوتی ہے۔ پھر اس میں بیٹری کی ضرورت نہیں رہتی۔
جانوروں پر اس کی آزمائش کی گئی ہے اور اس کے بہترین نتائج سامنے آئے ہیں۔ تاہم انسانوں پر تحقیق کے لیے مزید وقت درکار ہوگا۔
.