پاکستانی گرو

راؤ منظر حیات  پير 31 اکتوبر 2022
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

برائن Brian Benjamin اسی سال یعنی 2022 اپریل تک نیویارک شہر کا لیفٹیننٹ گورنر تھا۔ حد درجہ کامیاب سیاہ فام سیاست دان جو صرف پتنالیس برس کی عمر میں دنیا کے سب سے متمول ترین شہر کے اہم ترین عہدے پر پہنچ چکا تھا۔

اس کا سیاسی مستقبل تابناک نظرآرہا تھا ۔2022 میں ایک معمولی سی اقتصادی لاپرواہی اس کے روشن مستقبل کو ہمیشہ کے لیے برباد کر گئی۔ معمولی سی کا لفظ قصداً استعمال کیا ہے۔

کل پچاس ہزار ڈالر کے سرکاری فنڈ کی مبینہ طورپر ذاتی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش۔ تقریباً سوا کروڑ پاکستانی روپے کے برابر رقم ۔ غور سے سنیے بلکہ دل تھام کر ملاحظہ فرمائیے۔ 2019 میں برائن ‘ اپنے شہر کی سینیٹ کا الیکشن لڑ رہا تھا۔ اس کا تعلق ہارلم سے ہے جو نیویارک کا کافی پسماندہ علاقہ ہے۔

امریکا میں ہر سطح کے الیکشن کے لیے عام لوگوں ‘ کمپنیوں اور کارپوریشنوں سے چندہ لیا جاتا ہے۔ صدارت کے چناؤ سے لے کر چھوٹے ترین عوامی عہدے کے لیے ’چندہ ‘ ایک قانونی ضابطہ بن چکا ہے۔ ہارلم کے سرکاری اسکولوں کا حال کافی خستہ تھا۔

ان میں بچوں کے لیے مختلف ضروریات دوسری درسگاہوں سے کافی کم تھیں۔ چنانچہ ریاستی اسمبلی نے ایک قانون پاس کیا کہ سیاست دانوں کو صوابدیدی فنڈ مہیا کیے جائیں۔ جن کے ذریعے اپنے اپنے حلقوں میں اسکول ‘ کالج اور دیگر فلاحی کام کر سکیں۔ اس میں ایک شرط رکھی گئی۔ اگر مقامی سیاست دان ایک ڈالر کا چندہ لاتا ہے تو ریاست اسے آٹھ ڈالر دے گی۔ یعنی اکٹھے کیے گئے پیسوں میں آٹھ سو فیصد میچنگ گرانٹ مہیا کی جائے گی۔

نیویارک کی اسمبلی نے برائن کے لیے پچاس ہزار ڈالر کے صوابدیدی فنڈ منظور کیے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی غیر قانونی بات نہیں تھی۔ دیگر مقامی سیاست دانوں کی طرح برائن بھی اس گرانٹ کا قانونی حقدار تھا۔ مگر اس کے آگے جو ہوا وہ حد درجہ دلچسپ اور عبرت ناک ہے۔

مگڈول (Migdol) ہارلم کے اندر ایک ڈویلپر تھا۔ اس نے ایک این جی او بھی بنا رکھی تھی جوخراب حال اسکولوں کے لیے چندہ اکٹھا کرتی تھی اور پھر اس سرمائے سے اسکولوں کو درست حالت میں لاتی تھی۔ برائن نے اپنے صوابدیدی فنڈ مگڈول کی این جی او کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس راست قدم کی حد درجہ پذیرائی ہوئی۔ مگر یہاں برائن ایک مہیب غلطی کر گیا۔ ڈوپلر سے فرمائش کی کہ وہ ڈونیشن کے عوض اسے چھوٹا موٹا چندہ بذریعہ چیک فراہم کرے ۔ مگڈول نے اپنے رشتہ داروں کی طرف سے تین چیک فراہم کیے ۔

جن کی مجموعی مالیت پچیس ہزار ڈالر بنتی تھی۔ برائن نے مگڈول کو یہ بھی کہا کہ چندے کی رقم کو حد درجہ معمولی رکھے۔ یعنی دس بارہ ہزار ڈالر سے اوپر نہ جائے اور ہر بار یہ کسی مختلف آدمی کے دستخط سے جاری کیا جائے۔ مگر پچیس ہزار ڈالر کے بعد‘ مزید چندہ دینے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ حکومتی ذرایع کو ڈویلپر اور برائن کے تعلقات کے بارے میں تھوڑے سے شکوک تھے۔

ان کا گمان تھا کہ مگڈول جو بھی چندہ دے رہا ہے ۔ دراصل وہ اس صوابدیدی فنڈ کے عوض ہے جو سرکاری طور پر اسے ہارلم کے اسکول ٹھیک کرنے کے لیے دیے جا رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر جب تحقیقات شروع ہوئیں۔ تو شک درست نکلا۔ معلوم ہوا کہ برائن نے صوابدیدی فنڈز کو اپنی سیاسی ضرورت کے تحت مخصوص کاروباری شخص کو دیے ہیں۔

اس کے بعد یہ معاملہ قیامت خیز بن گیا۔ تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ جب میڈیا میں آئی تو برائن کے سیاسی کیریئر کی دھجیاں اڑ گئیں۔ اسے حد درجہ کرپٹ سیاست دان بتایا گیا‘ جس نے جرأت کی کہ وہ ٹیکس ادا کرنے والوں کے پیسے اپنی ذاتی سیاسی منفعت پر خرچ کرے۔ برائن کے صوابدیدی فنڈ منجمد کر دیے گئے۔

مگڈول کی طرف سے چندے کی رقم بھی باطل قرار دی گئی۔ برائن کو گرفتار کر لیا گیا۔ نیویارک کے گورنر نے تحقیقات کے آغاز میں برائن سے استعفیٰ لے لیا ۔ بہر حال اس وقت مقدمہ‘ نیویارک  کی مقامی عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔

مگر یہاں ایک اور نکتہ حد درجہ اہم ہے۔ پچاس ہزار ڈالر کی صوابدیدی سرکاری رقم اور پچیس ہزار کے امدادی چیک قطعی طور پر کیش نہیں ہوئے۔ یعنی عملی طور پر سرکار کو ایک دھیلے کا نقصان نہیں ہوا۔

اور برائن کو ایک ٹکا بھی چندہ نہیں ملا ۔صرف اس مالیاتی ذاتی فائدہ کی کوشش نے نیویارک کے لفیٹیننٹ گورنر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کروا دیا۔ اس کا سیاسی کردار ہمیشہ کے لیے بندگلی میں داخل ہو گیا۔ یہ ہی وہ سیاست کی اعلیٰ روایات ہیں جن کی بدولت امریکا آج دنیا کی سپر پاور ہے۔

اور ہمارے جیسے ذہنیت کے ملک اپنی بے اعتدالیوں کی بدولت در بدر ہیں۔ انسان تو امریکا اور پاکستان میں بالکل ایک جیسے ہیں۔ مگر شاید غلط لکھ گیا۔

بقول منیر نیازی مجھے تو لاہور جیسے شہر میں دور دور تک انسان نظر نہیں آتے۔ یہ معمولی سے پلاسٹک کے بنے ہوئے شناختی کارڈ ہیں جو صرف سانس لے رہے ہیں۔ قیامت یہ ہے کہ یہ سانس لینے کو زندہ رہنا گردانتے ہیں۔ جب ہمارے دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں کی اکثریت مغربی دنیا کے لتے لیتے ہیں۔

تو عجیب سا لگتا ہے۔ بلکہ تکلیف ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں تو ایماندار ترین نظر آنے والی این جی اوز‘ کامیاب رہزن ہیں۔ ان کے سربراہان کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر آپ دنگ رہ جاتے ہیں۔ کروڑوں روپے کی گاڑیاں‘ بیش قیمت گھر اور قیمتی کپڑوں سے مزین ‘ یہ عام لوگوں سے چندہ لوٹتے نظر آتے ہیں۔

چند این جی اوز کے سربراہان نے سرکاری فنڈ سے اتنے فراڈ کر رکھے ہیں کہ خدا کی پناہ ۔ مگر میڈیا اور معاشرہ انھیں دیوتا بنا کر پیش کرتا ہے۔ خیر اپنے موضوع پر واپس آتا ہوں۔ برائن کی مبینہ نامکمل کرپشن کو ذرا ہمارے ملکی جفادری سیاست دانوں کے پس منظر میں ملاحظہ کریں۔

نیویارک کا برائن فرشتہ نظر آئے گا۔ مگر صاحبان! صرف سیاست دانوں کو دوش دینا بالکل غلط ہے۔ سرکاری ملازمین کی اکثریت ‘ ریاستی اداروں کے اہلکار اور سربراہان‘ اس گنگا میں نہا نہیں رہے بلکہ خاندان سمیت تیراکی کر رہے ہیں۔ آپ ان سے ذرا پوچھنے کی ہمت تو کریں۔

فوراً آپ کو وطن دشمن‘ ہندوستان کا ایجنٹ اور یہودی لابی کا حصہ بنا دیا جائے گا۔ پنجاب میں تو مالیاتی کرپشن پر ہلکا پھلکا سرکاری ایکشن کبھی کبھار ہو ہی جاتا ہے۔ مگر سندھ‘ کے پی اور بلوچستان میں حالات ہماری توقع سے بھی زیادہ خرابہ میں ہیں۔

یاد کرواتا چلوں۔ اسلام آباد میں ہر صوبہ کے اپنے اپنے ریسٹ ہاؤس ہیں۔ ان میں وزراء اعلیٰ ‘ گورنر اور وزراء کے بلاک قدرے بہتر ہیں۔ ہر ریسٹ ہاؤس میں ایک منتظم جسے کمٹرولر کہا جاتا ہے۔ سرکاری طور پر تعینات ہوتا ہے۔ چند برس پہلے ایک سرکاری رہائش گاہ سے کئی کلو سونے کی سلاخیں برآمد ہوئیں تھیں۔

سرکاری اہلکار نے بیان بھی دیا کہ اس کی تنخواہ تو چند ہزار روپے ہے اور یہ سوناایک صوبے کی اہم شخصیت کا ہے۔ مگر کیونکہ ہمارے ملک میںقانون اندھا ہے۔ لہٰذا کچھ بھی نہیں ہوا۔ دو چار دن میڈیا پر شور و غوغا ہوا۔ اور پھر خاموش‘ایسا سکوت توآج تک جاری ہے۔

حال ہی میں نیب کے قوانین تبدیل کیے گئے ہیں۔ شخصی فائدہ کی ایسی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ جن پر الزامات تھے وہ بڑے آرام سے قانون کے شکنجے سے باہر نکل آئے۔

چند سیاست دانوں نے میڈیا میں اپنے ہمنوا پیدا کیے ہیں۔ چنانچہ چند صحافی و اینکرزجو دس بارہ سال پہلے شکر قندی کی دکان لگاتے تھے‘ سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر تھے‘ آج کروڑ پتی نہیں بلکہ ارب پتی ہیں۔ اگر ان سے آمدنی کا ذریعہ پوچھیں تو آزادی رائے پر زد پڑنے کا ایشو رچایا جاتا ہے۔

بالکل اسی طرح اگر آپ قانونی فیصلوں میں واضح تضادات پر گفتگو فرمایئے۔ تو آپ پر ’’توہین عدالت‘‘ کا قانون لگنے کا بھرپور امکان ہے۔ با لکل اسی طرح آپ چند مذہبی رہنماؤں سے ان کی آمدنی اور جائیداد کے متعلق کوئی سچا سوال کریں‘ تو ہو سکتا ہے کہ آپ کو دین کے دائرے ہی سے خارج کر دیا جائے۔

اہل خرد! ہمارے ہاں آوے کا آوا ہی نہیں بگڑا ہوا۔ بلکہ ہم بقول امریکی صدر‘ دنیا کا سب سے خطرناک ملک ہیں۔ ضعیف امریکی صدر کی بات شاید آپ کو بہت بری لگی ہو۔ مگر کیا یہ مکمل طور پر سچ نہیں ہے۔ ہمارا پورا معاشرہ ‘ ریاستی اور غیر ریاستی جبر پر قائم ہے۔

انصاف ہر سطح پر برائے فروخت ہے۔ قانون کے متعلق جتنی کم بات کی جائے‘ بہتر ہے۔ قطعاً ایک منفی تصویر پیش نہیں کر رہا ۔ مگر جو ظلم اور مصائب ہیں‘ انھیں حقیقت کے آئینے میں دیکھ اور دکھا رہا ہوں۔ برائن تو احمق تھا کہ معمولی سی کرپشن پر دربدر ہو گیا۔ اسے واقعی کسی پاکستانی گروکی ضرورت تھی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔