رنگ لائے گی معاشی آزادی

زمرد نقوی  پير 31 اکتوبر 2022
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا توانائی،خوراک اور مہنگائی کے تاریخی بحران سے دو چار ہے ۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو حکومت نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ عالمی سطح پر گیس کے نرخ اتنے زیادہ ہیں کہ پاکستان جیسا غریب ملک اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا ۔ جب کہ ابھی سردیاں شروع بھی نہیں ہوئیں۔

کہا جارہا ہے کہ اس دفعہ سردی گزشتہ برس کی نسبت زیادہ شدید ہو گی۔ پاکستانی قوم کی قسمت بھی عجیب ہے ہر سال اسے دوسرے مصائب کے علاوہ دو بدترین آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے گرمیاں آتی ہیں تو اسے چھ مہینے تک بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

ماضی میں صرف لوڈ شیڈنگ ہی ہوتی تھی اس دفعہ تو عوام کو تاریخ کے مہنگے ترین بجلی کے بل بھی ادا کرنے پڑ گئے۔ صورت حال یہ ہوگئی کہ لوگوں کی پوری تنخواہ یا اس کا بیشتر حصہ بجلی بلوں کی ادائیگی میں صرف ہو گیا ۔

باقی چیزوں کا چھوڑیں بچوں کے تعلیمی اخراجات اور کچن کا خرچہ عوام کہاں سے پورا کر رہے ہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اب سردیاں سر پر کھڑی ہیں تو گیس ناپید ہو جائے گی۔ چولھے ٹھنڈے یہاں تک کہ کھانا پکانے کے لیے بھی گیس میسر نہیں ہو گی۔ مارچ اپریل تک یہی صورت حال رہے گی۔

اوپر سے آنے والے وقت میں گیس نرخوں میں ہوش ربا اضافہ ہو جائے گا۔ گیس آئے نہ آئے بھاری بھرکم بل کی ادائیگی آپ نے ہر صورت کرنی ہے۔ اس صورت حال میں قوم ذہنی نفسیاتی مریض بن کر رہ گئی ہے۔ ہر گھر میں لڑائی جھگڑے ،ذہنی سکون ناپید ہو گیا ہے۔

کیا زمانہ تھا جب اسلام آباد کے سرکاری گھروں میں گیس چولھے بند ہی نہیں کیئے جاتے تھے کہ اس طرح خوامخوہ ماچس کا اسراف ہو گا۔ ویسے بھی اسراف گناہ کے زمرے میں شامل ہے ۔ لیکن اب یہ ہو گا کہ ماچس ہاتھ میں لیے اول فول بک رہے ہیں۔

لیکن گیس ندارد۔ بجلی ہو یا گیس یا صاف پانی ایک عیاشی ہی تو ہے جو غریب عوام کو زیب نہیں دیتی ۔ آج سے بیس تیس سال پہلے یہی عوام تھے جو روشنی کے لیے تیل کے دیے جلاتے تھے پھر ترقی ہوئی لالٹین جلانے لگ گئے یہاں تک کہ بجلی آ گئی وہ بھی سستی بجلی ۔ عوام کی تو موجیں ہو گئیں ۔

گیس ملک کے بیشتر حصوں میں تھی ہی نہیں۔ لوگ باگ بھینسوں کے گوبر اوپلے اور لکڑیاں ایندھن کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔ صاف پانی ناپید ہی تھا ۔ دیہاتوں میں لوگ جوہڑ سے پانی پی کر اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ کیا نیک لوگ تھے۔

اب حکمرانوں کے بقول عوام کا دماغ خراب ہو گیا، کہا جاتا ہے کہ آخر ان عوام کے آباؤ اجداد بھی تھے انھوں نے سیکڑوں سال اسی طرح صبرو شکر سے گزارا۔ اب تو عوام اپنی اوقات ہی بھول گئے ہیں ۔ صدیوں سے عوام ان مظالم کو سہہ سہہ کر اِن کے عادی ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہر ظلم پر وقتی طور پر چیخوں پکار کرتے ہیں پھر خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں ۔

مغربی اقوام نے سیکڑوں ہزاروں سال کی جد و جہد سے آگ اور خون کا سمندر عبور کر کے اپنی جنت گم گشتہ پا لی ہے ۔ اب وہ اپنے ہر طرح کے حقوق سے فیض یاب ہیں۔ صرف اس لیے کہ ان کے حکمران طبقات نے بھانپ لیا تھا کہ اگر ان کے حقوق نہ دیے گئے تو کہیں مغربی اقوام سوشلسٹ نظام نہ اختیار کر لیں۔

جہاںانسان کی بنیادی ضروریات ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے ۔ انقلاب فرانس خاص طور پر سوویت یونین کا سوشلسٹ انقلاب مغربی اقوام کے لیے آزادی کا پروانہ ثابت ہوا۔

یعنی تھوڑا دیکر سارا بچا لیا جائے۔ یہ حکمت عملی بہرحال وقتی طور پر کامیاب رہی ۔ یعنی سرمایہ دارانہ نظام نے مغربی ممالک کے عوام کو اپنے منافع میں سے تھوڑا حصہ دیکر انھیں مطمئن کر دیا۔ لیکن مغربی ممالک کی اقوام اپنے حالیہ معاشی بحران سے تنگ آکر ہل من مزید کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ جب کہ سرمایہ دار نظام اس وقت اپنے تاریخی بحران سے دو چار ہے ۔

امریکا میں آج سے 150سال پہلے کام کے اوقات اتنے سخت تھے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ 18ویںصدی کے آخر اور 19ویں صدی کے شروع تک 29سال کے عرصے میں صنعتی حادثات میں 7لاکھ امریکی مزدور مارے گے یعنی سو مزدور یومیہ ۔

پاکستان کا معاشی بحران کس قدر سنگین ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہمیں اگلے مالی سال جون تک 15ارب ڈالر سے زائد سود کی ادائیگی لیے گئے قرضوں پر کرنی ہے جب کہ ہماری درآمدات سالانہ 70 سے 80ارب ڈالر اور برآمدات 30ارب ڈالرز ہیں۔

یہ خوف ناک گیپ کیسے پورا ہو گا جب کہ موڈیز سمیت دیگر ایجنسیوں نے پاکستان کی ریٹنگ وہ کر دی ہے جو ڈیفالٹ کے قریب تر ہے۔

عالمی مالیاتی اداروںکی غلامی سے نکلنے کے لیے ہمیں معاشی آزادی کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے ہمیں حقیقی آزادی چاہیے جب کہ حقیقی آزادی گزشتہ سیکڑوں سالوںسے ہمیں کبھی ملی ہی نہیں۔ حقیقی آزادی ایک ایسا آب حیات ہے جو مردہ روحوں کو زندہ کر دیتا ہے ۔

اس سال مارچ سے شروع ہونے والا بحران کس کروٹ بیٹھے گا۔ اس کا پتہ 9-8-7 نومبرسے 18-17-16 نومبر کے درمیان کے عرصے میں چلے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔