تاریخ کا منبع (پہلاحصہ)

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 2 نومبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سعید حسن خان زندگی کی 91 بہاریں گزار کر 16اکتوبر کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ سعید حسن خان ان چند شخصیتوں میں شامل تھے جو پاکستان، بھارت اور برطانیہ کی تاریخ اور سیاسیات پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ انھیں تاریخ کا انسائیکلوپیڈیا بھی کہا جاسکتا ہے۔

سعید حسن خان فری لانسر صحافی تھے جن کے مضامین پاکستان، بھارت اور برطانیہ کے اہم اخبارات اور رسائل کی زینت بنتے تھے۔ وہ یورپ میں امریکا کی ویتنام میں جارحیت کے خلاف مزاحمتی تحریک میں متحرک رہے ۔سعید حسن خان کو جوانی میں سعید جناح کہا جاتا تھا مگر تاریخی واقعات نے ان کے ذہن کو تبدیل کردیا، سعید حسن خان کا تعلق متحدہ ہندوستان کے صوبہ یوپی سے ہے۔

ان کے پردادا کا شمار یوپی کے بڑے زمینداروں میں ہوتا تھا اور یوپی کے مختلف شہروں میں ان کی جائیدادیں تھیں مگر ان کے طرزِ زندگی کی بناء پر ان کے والد کو جائیداد میں بہت کم حصہ ملا۔ سعید حسن خان کے والد کے نانا کا شمار بھی بریلی کے بڑے زمینداروں میں ہوتا تھا۔ ان کے والد کی زندگی کا بڑا حصہ بریلی میں گزرا۔ ان کے پردادا اور دادا نواب کہلاتے تھے، یوں سعید حسن خان کے والدین نواب کہلانے لگے۔

ان کی دادی کو ورثہ میں کم اراضی ملی۔ ان کے والد کے نانا کے پاس ریاست رام پور میں قیمتی زرعی اراضی تھی۔ ان کے والد امداد حسن خان نے اس اراضی کے حصول کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ وہ اس وقت مشہور وکیل اور بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے والد پنڈت موتی لعل نہرو کے پاس نواب رام پور کے خلاف مقدمہ کے لیے گئے۔

موتی لعل نہرو نے نواب رام پور کے خلاف مقدمہ کی پیروی سے انکار کردیا اور بتایا کہ وہ رام پور ریاست کے قانونی مشیرہیں، اس بناء پر ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے مگر پنڈت موتی لعل نہرو نے نواب سعید حسن خان کے والد نواب امداد حسن خان کو مشورہ دیا کہ ریاستوں کے خلاف مقدمہ بازی کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لیے کوئی سمجھوتہ کی راہ تلاش کریں۔

سعید حسن خان ذکر کرتے ہیں کہ ان کے والد نے شعبہ زراعت کی ترقی کے لیے سخت محنت کی، یوں ان کا شمار بریلی کے بڑے زمینداروں میں ہونے لگا ۔ نواب امداد حسن خان کا نکاح اعلیٰ حضرت احمد رضا بریلوی نے پڑھایا تھا، مگر سعید حسن خان نے درویشی کا راستہ اختیار کیا۔

سعید حسن خان نوجوانی میں مسلم لیگ کے صدر بیرسٹر محمد علی جناح کی شخصیت سے متاثر ہوئے۔ ان کے ساتھ بھی جناح کا لاحقہ لگنے لگا۔ سعید حسن خان کے والد نواب امداد حسن خان انڈین نیشنل کانگریس سے متاثر تھے۔ کانگریس کے رہنما رفیع قدوائی سے قریبی تعلقات تھے۔ 1946 میں جب ہندوستان میں انتخابات ہوئے تو سعید حسن خان کی عمر 15سال تھی۔

انھیں یاد ہے کہ ان کے سامنے رفیع قدوائی نے ان کے والد کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی اور کانگریس کا ٹکٹ ملنے کی یقین دہانی کرائی تھی اور انتخابی مہم کے لیے کثیر رقم کی بھی پیشکش کی تھی مگر سعید حسن خان کے بڑے بھائی نے مخالفت کی اور ان کے والد صاحب نے الیکشن نہیں لڑا۔ سعید حسن خان اکتوبر 1947 میں 17سال کی عمر میں ریل گاڑی میں بیٹھ کر لاہور گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ سعید حسن خان کی 91 سال کی عمر میں یادداشت بحال تھی۔

وہ کہتے تھے کہ میٹرک میں ان کے نمبر کم تھے، انھیں داخلہ فارم جمع کرانے کی اجازت لینے کے لیے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل پروفیسر پطرس بخاری کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ پروفیسر پطرس بخاری نے کافی دیر تک سخت سوالات کیے، پھر داخلہ کی اجازت دیدی۔ گورنمنٹ کالج میں پنجاب کے جاگیرداروں کے بچوں کے علاوہ متوسط طبقہ کے بچے بھی داخلہ لیتے تھے۔

سعید حسن خان نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا، یوں مستقبل کے بہت سے وزراء اور بیوروکریٹ ان کے حلقہ احباب میں شامل ہوئے۔ سعید حسن خان خود کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں لاہور کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز کافی ہاؤس تھا جہاں سیاست دانوں کے علاوہ ادیبوں اور شاعروں کا ہجوم رہتا تھا۔

سعید حسن خان کے والدین بریلی میں تھے۔ والد انھیں اخراجات کے لیے خطیر رقم بھجواتے تھے، یوں سعید حسن خان کا بیشتر وقت کافی ہاؤس میں گزرنے لگا ۔ شاید کافی ہاؤس کے ماحول میں ان کے اندر سیاست میں دلچسپی پیدا ہوئی۔

سعید حسن خان کہتے ہیں کہ وہ 1945ء سے ہندوستان کے سب سے معروف اخبار ٹائمز آف انڈیا کا مطالعہ کرتے تھے، یوں ان کے پاس ہمیشہ خاصی معلومات ہوتی تھی، یوں وہ دوستوں کے لیے خصوصی طورپر بھارت کے بارے میں معلومات کا ذریعہ بن گئے پھر وہ سابقہ صوبہ سرحد کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کی شخصیت سے متاثر ہوئے۔

ایک پرانے احراری اور کانگریسی عبدالقیوم کے ساتھ ری پبلک پارٹی میں شامل ہوئے مگر انھیں جلد ہی اندازہ ہوا کہ ری پبلک پارٹی پر تو جاگیرداروں کا تسلط قائم ہے، یوں انھوں نے ری پبلک پارٹی سے علیحدگی اختیار کی۔ متحدہ بنگال کے ساتھ پریمیئر حسین شہید سہروردی کے حلقہ احباب میں شامل ہوئے مگر سہروردی کی جماعت عوامی لیگ میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تو نواب سعید حسن کی مایوسی بڑھنے لگی۔

وہ ایک دن بتارہے تھے کہ چوہدری خلیق الزماں کا شمار متحدہ ہندوستان کے معروف مسلمان رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ بانی پاکستان نے انھیں پاکستان بننے کے بعد بھارت میں رہنے کی ہدایت کی تھی۔ چوہدری خلیق الزماں بھارت کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر اور قائد حزب اختلاف تھے۔

وہ مہاتما گاندھی کی ہدایت پر پاکستان آئے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات کی راہ ہموارکی جائے اور فرقہ وارانہ کشیدگی ختم کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے مگر چوہدری صاحب پھر بعض وجوہات کی بناء پر پاکستان میں رک گئے۔

جب ایوب خان نے مارشل لاء ختم کیا تو چوہدری خلیق الزماں کو ایوب خان کی حامی کنونشن مسلم لیگ کی صدارت کی پیشکش کی تھی۔ سعید حسن خان اور معروف صحافی مختار زمن پارلیمانی جمہوریت او ر آزادئ اظہار پر یقین رکھتے تھے۔ چوہدری صاحب نے ماضی میں ان بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کی تھی۔

یہ دونوں حضرات چوہدری صاحب کے پاس گئے اور انھیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ کنونشن مسلم لیگ کی صدارت کی پیشکش قبول نہ کریں۔

نواب سعید حسن اس ملاقات کا حال خوب بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چوہدری خلیق الزمان نے ہم دونوں کے دلائل سنے اور پھر چیخ کر خالص لکھنوی انداز میں کہا کہ جس کو ڈیموکریسی کرنی ہے وہ بھارت جائے اور پھر لکھنو کے امراء کی ایک گالی دے کر کہا کہ اس ملک میں تو چکو (چاقو) سے فیصلے ہوتے ہیں اور وہ یہ پیشکش ضرور قبول کریں گے۔

سعید حسن خان ولایت گئے تو نیو لیفٹ تحریک اور لیبر پارٹی کے بائیں بازو کے گروپ سے منسلک ہوئے۔ معروف فلسفی برٹرینڈ رسل کی ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خلاف تحریک میں شامل ہوئے اور پھر ویتنام سے امریکی فوج کی واپسی کے مطالبہ کی تحریک کا حصہ بن گئے۔

ان تحریکوں نے برطانیہ اور یورپ میں امریکاکی ویتنام میں بمباری کے خلاف تاریخی مظاہرے کیے، پھر وہ لیبر پارٹی کی انتخابی مہم میں شامل ہوئے۔ لیبر پارٹی کے کئی پارلیمنٹ کے امیداوروں کو پاکستانی، بھارتی اور بنگلہ دیشی نژاد ووٹروں سے متعارف کرانے کے لیے لندن کے پارلیمنٹ کے مختلف حلقوں میں گھر گھر جاتے تھے۔

وہ ویتنام کی جنگ کے دوران پہلے جنوبی ویتنام کے دارالحکومت سائیگاؤں گئے جہاں انھوں نے ویت کانگ کے حامی افراد سے خفیہ رابطے کیے۔ پھر ویتنام کی صورتحال پر انھوں نے لاہور سے شایع ہونے والے اخبار پاکستان ٹائمز میں ایک آرٹیکل لکھا۔ پھر انھیں شمالی ویتنام کے دورہ کی دعوت ملی۔ جنگ کے دوران ہنوئی گئے جہاں ان کی ملاقات ویتنام کی آزادی کی تحریک کے بانی ہوچی منھ سے ہوئی۔

(جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔