توپک زماں قانون دے

فاروق عادل  بدھ 2 نومبر 2022
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

بدر منیر کی ایک معروف فلم تھی، توپک زماں قانون دے۔ عمران خان کے مارچ اس کے ساتھ ہی علی امین گنڈاپور کی بندوقوں نیز بندوں اور اسلام آباد کی سرحد پر ان کی تعیناتی کی خبروں نے اس فلم اور مغل عہد کی یاد تازہ کر دی۔

مغل عہد اپنی عظیم تہذیب، عظیم الشان تعمیرات نیز ان تہذیبی آثار کے لیے معروف ہے جن کی شہرت چار دانگ عالم میں ہے لیکن مغل عہد کا تذکرہ مکمل ہو نہیں سکتا اگر اس زمانے کی بغاوتوں کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ یہی بدر منیر کی فلم کا عنوان تھا کہ بندوق میرا قانون ہے۔ اب یہی کچھ عمران خان کہہ رہے ہیں۔

مغل عہد کو بیتے صدیاں بیت گئی۔ صدیوں کے اس سفر میں ریاست و سیاست کے طور طریقے بھی بدل گئے۔ طے یہ پایا کہ اب فیصلے ووٹ کی پرچی کے ذریعے ہوا کریں گے۔

تیسری دنیا کے وہ معاشرے جہاں ووٹ کی پرچی کو حتمی تسلیم نہ کیا جا سکا، وہاں وہاں اقتدار کی ضمانت ووٹ کے ساتھ ساتھ کچھ اور عوامل بھی قرار پائے۔ کچھ ایسے عوامل جن کے تجربے سے گزشتہ صدی کے دوران میں ہم بار بار گزرے لیکن محاصرے کی وہ صورت جس کا چلن عمران خان نے شروع کیا، اس کی مثال اوراق پارینہ میں ملے تو ملے، جدید سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔

پاکستان کے پس منظر میں تو لانگ مارچ کی اصطلاح ویسے ہی مضحکہ خیز ہے کہ وہ سرگرمی جسے کبھی لانگ مارچ کا عنوان دیا گیا تھا، انسانی تاریخ میں فقط ایک ہی بار ہوئی۔ یہ وہی مارچ تھا جس کی قیادت عظیم ماوزے تنگ نے کی۔

تاریخ عالم نے وہ مناظر بس ایک بار ہی دیکھے۔ یہ جو تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد ہمارے یہاں چند راہ نما دو چار ہزار بندے اکٹھے کر کے اسلام آباد کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں اور اسے لانگ مارچ کا عنوان عطا کر دیتے ہیں، اس سے صرف لانگ مارچ ہی کی توہین نہیں ہوتی بلکہ خود ان کی اپنی سیاست بھی بے توقیر ہو جاتی ہے۔

خیر، یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ اصل بات کچھ اور ہے۔ اب تک ہونے والے مارچوں کی نوعیت بڑی حد تک سیاسی ہوتی تھی لیکن عمران خان اور ان کے سیاسی کزن علامہ طاہر القادری نے 2014 ء میں جس مارچ کی بنا ڈالی، اس میں ریاست کی علامت کی حیثیت رکھنے والی عمارتوں کی بے حرمتی، ان پر قبضے کی کوششوں کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارکان پر تشدد شامل ہے۔

یہ اسی قسم کے جرائم تھے جن کے ارتکاب پر دہشت گردی کے مقدمات بنتے ہیں اور بنے۔25 مئی کے مارچ کے موقع پر انھوں نے ایک نیا رجحان متعارف کرایا۔ ان کے گوریلے اسلحہ لے کر مارچ میں شریک ہوئے۔ ان اسلحہ برداروں کی تصاویر مارچ کے شروع ہوتے ہی پوری دنیا نے دیکھ لیں۔ یہ لوگ پشاور سے چلے اور اسلام آباد تک پہنچے۔

خان صاحب کو اگر اس پر کوئی پریشانی ہوتی تو وہ ابتدا میں ہی اپنے گوریلوں کو غیر مسلح کرتے لیکن ایسا انھوں نے نہیں کیا۔ وہ ان مسلح افراد کو ساتھ لائے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسلام آباد پہنچنے کے بعد اس بارے میں انھیں کہیں سے تنبیہ کی گئی ہوگی۔ یہ تنبیہ یقیناً کچھ ایسی رہی ہوگی کہ انھیں اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت نہ ہو سکی۔

اب چوں کہ خان صاحب اپنی عظیم النظیر دانش کو بروئے کار لا کر تمام دروازے خود پر بند کر چکے ہیں اور ریاست سے بغاوت کر کے خود کو اس عظیم مرتبے پر فائز کر لیا ہے جس کے نتیجے میں بھارت میں ان پر واہ واہ کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں بلکہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی حکمرانی کے لیے ان سے بہتر تو کوئی اور ہے ہی نہیں، انھیں آیندہ دس برس کے لیے بھی پاکستان کا حکمران بنا دیا جائے۔

بھارت کے پالیسی ساز اور ارباب دانش ایسا کیوں سوچ رہے ہیں؟ یہ سمجھنے کے لیے علی امین گنڈاپور کی آڈیو لیک بہترین رہنمائی کرتی ہے۔

علی امین گنڈاپور کی آڈیو لیک سے صرف یہ معلوم نہیں ہوا کہ وہ بندوقیں جمع کر رہے ہیں، آتشیں اسلحہ کے ڈھیر لگا رہے ہیں، یہ بات صرف اتنی نہیں، اس سے بڑھ کر ہے۔ اب کی بار ان مسلح افراد کو صرف جلوس میں شامل نہیں رکھا جا رہا بلکہ انھیں مسلح کر کے اسلام آباد کے گھیراؤکا بھی ارادہ ہے۔

بعض دانش ور فرماتے ہیں کہ یہ تو محض ایک الزام ہے، کوئی ٹھوس حقیقت تو نہیں۔ بات رانا ثناء اللہ کے انکشاف تک رہتی تو اسے الزام قرار دینے کا پھر بھی کوئی جواز ہوتا لیکن واقعہ یہ ہے کہ علی امین گنڈاپور صاحب تو یہ سب تسلیم کر چکے ہیں۔ انھوں نے کہہ دیا ہے کہ ہمیں ماریں گے تو جواب میں ہم بھی ماریں گے۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوگا کہ کوئی سیاسی قوت ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھائے گی۔ گنڈاپور کے بیان کے بعد فیصل واوڈا کے اس انکشاف میں بھی وزن پیدا ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان اس سطح پر کیوں اتر آئے ہیں۔

بعض باخبر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مارشل لا لگوانے کی کوشش ہے۔ جنرل ندیم انجم اور جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس کے بعد اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری صورت کیا ہو سکتی ہے؟ اس سلسلے میں تکرار کے ساتھ دیے جانے والے عمران خان کے ایک بیان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس میں پاکستان کو سری لنکا بنانے کی بات کی جاتی ہے۔

اس خدشے میں کتنا وزن ہے، اس کا اندازہ ایک بھارتی تجزیہ کار کی اس گفتگو سے ہوتا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ عمران خان کو دس برس کے لیے پاکستان کا حکمران بنا دیا جائے، اس کے بعد ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔