بڑھتے ہوئے جرائم اور کرپشن، آنکھیں کھلی رکھی جائیں

نصرت جاوید  بدھ 26 مارچ 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اسلام آباد کے اپنی میزبانی کے لیے مشہور کسی بھی گھر میں تھوڑا وقت گزاریں تو ہر صورت آپ کو کم از کم ایک ایسی کہانی ضرور سننے کو ملے گی جس کے مطابق رات گئے کچھ لوگ کسی مکان میں گھس آئے اور جلدی میں جو نقدی،زیور یا کوئی اور قیمتی چیز نظر آئی اسے اکٹھا کرنے کے بعد خاموشی سے وہاں سے کھسک لیے۔ راولپنڈی سے ملحقہ علاقوں میں معاملات اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ ان علاقوں میں چوری نہیں ڈاکہ زنی کی وارداتیں ہوتی ہیں اور وہ بھی دن دیہاڑے اسلحے کے زور پر گھر کے مکینوں کو رسیوں وغیرہ سے باندھنے کے بعد۔ چوری اور ڈاکہ زنی کی ان وارداتوں میں گزشتہ چھ مہینوں کے دوران خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ ان وارداتوں کا ذکر مگر مقامی اخبارات کے صفحہ نمبر 2پر سنگل کالمی خبروں میں کیا جاتا ہے۔ دن دیہاڑے اسلحہ برداروں کا گھروں میں گھس آنا اب اس شہر میں صفحہ اوّل کی ’’خبر‘‘ ہی نہیں رہی۔ ایک حوالے سے گویا ’’معمول ‘‘بن چکا ہے۔ اس ہفتے کے پہلے دن اسلام آباد میں سارا دن موسلادھار بارش ہوتی رہی۔

مسلسل اور تیز بارش کی وجہ سے موسم بھی تکلیف دہ حد تک سرد ہوگیا۔ اس کے باوجود سیکڑوں وکلاء کا ایک ہجوم پارلیمان ہائوس کے سامنے دھرنا دیے ٹکا رہا۔ ان کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ ضلع کچہری پر 3مارچ کے حملے کو روکنے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کی کم از کم نشان دہی نہ کر پانے کی وجہ سے اسلام آباد کے آئی جی اور متعلقہ ایس ایس پی کو برطرف کیا جائے۔ وکلاء کا یہ فیصلہ بھی ہے کہ وہ اس وقت تک معمول کی عدالتی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے جب تک کہ مقامی کچہری کی حفاظت کا بندوبست قطعی طور پر رینجرز کے حوالے نہیں کیا جاتا۔ وکلاء کا یہ احتجاج بھرپور انداز میں اس بات کا اظہار کررہا ہے کہ اسلام آباد کے رہائشیوں کو مقامی پولیس تحفظ نام کی کوئی شے فراہم کرنے میں بالکل ناکام ہوگئی ہے۔ ایسے شدید احتجاج کے باوجود میں نے کسی جید کالم نگار یا اینکر پرسن کو تواتر کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے نہیں سنا کہ بطور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اپنی ذمے داریاں اد کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ وہ اور ان کی مسلم لیگ اسلام آباد جیسے نسبتاً چھوٹے اور منظم انداز میں تعمیر ہوئے شہر کو اچھی اور موثر حکومت نہیں دے پائی اور اسے ’’ٹھیک راہ‘‘ پر ڈالنے کے لیے ریاست کا کوئی دائمی ادارہ کچھ کردار ادا کرے۔

قومی اسمبلی کے کسی اجلاس میں اسلام آباد میں شدید ہوتی چوری،ڈاکہ زنی اور دہشت گردی کی وارداتوں کا ذکر ہو تو چوہدری نثار علی خان ہرگز نادم نظر نہیں آتے۔ انتہائی ڈھٹائی سے بلکہ مائیک سنبھال کر بڑی رعونت سے ہمیں یہ بتانا شروع ہوجاتے ہیں کہ اسلام آباد کو غیر محفوظ ان کے پیش رو نے بنایا ہے۔ اس شہر میں آنے اور یہاں سے جانے والوں پر کڑی نگاہ رکھنے کے لیے Scannersاور CCTVsسے لیس ایک جدید نظام کا منصوبہ کئی برسوں سے تیار پڑا ہے۔ اس پر عملدرآمد کے لیے سرکاری خزانے سے رقوم بھی فراہم کردی گئی تھیں۔ کرپشن اور کمیشن وغیرہ کی وجہ سے یہ منصوبہ مگر پروان نہ چڑھ پایا۔ فکر کی لیکن اب کوئی بات نہیں۔ چوہدری نثار علی خان جیسا شخص وزیر داخلہ بن گیا ہے۔ وہ پانچ وقت کے نمازی ہیں اور ہر وقت وضو سے رہتے ہیں۔ بدعنوانی برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ جدید آلات کی درآمد کے لیے باقاعدہ چٹھیاں لکھ دی گئی ہیں۔بیشتر سامان پاکستان میں آبھی چکا ہے۔ آیندہ تین یا چار مہینوں کے بعد اسلام آباد میں انسان تو دور کی بات ہے کوئی پرندہ بھی گھس آیا تو حکومتی نظروں سے چھپ نہ پائے گا۔

اسلام آباد کو جدید آلات کے ذریعے محفوظ بنانے پر تلے بیٹھے وزیر داخلہ کو کسی جید کالم نگار یا اینکرپرسن نے ابھی تک یاد نہیں دلایا کہ چند ماہ پہلے سکندر نام کا ایک شخص یہاں کی سب سے اہم اور مصروف ترین سڑک کے عین درمیان اپنے بیوی اور بچوں کے ہمراہ آکھڑا ہوا تھا۔ چار سے زائد گھنٹوں تک اس نے کلاشنکوف کے زور پر پولیس کے اعلیٰ حکام کو مذاکرات میں مصروف رکھ کر پورے ملک کو Reality Televisionوالا ڈرامہ دکھایا۔ اسی حالت میں اس نے کئی اینکروں کو باقاعدہ انٹرویو بھی دیے۔ اسلام آباد کی ’’ماڈل پولیس‘‘ اس پورے عرصے کے دوران بے بس نظر آئی۔ بالآخر اپنی بہادری یا بے وقوفی کی بدولت قومی اسمبلی کے ایک سابق رکن زمرد خان نے سکندر کو اچانک دبوچ کر اس ڈرامے کو ختم کیا۔ سکندر والے واقعے کے بعد اسلام آباد پولیس کے کسی افسر کو کسی نے کچھ بھی نہیں کہا۔ زندگی معمول کے مطابق رواں رہی۔

اسلام آباد کے ہوشربا معاملات کے بارے میں اپنے میڈیا کی اجتماعی بے حسی کے تناظر میں مجھے چند نہایت ہی معتبر اور دل وجان سے عزیز دوستوں کی جانب سے مچایا جانے والا وہ شور بہت عجیب محسوس ہورہا ہے جو تھر کی خشک سالی پر سیاپا فروشی کے بعد اب کراچی کے امن وامان کے حوالے سے برپا کیا جارہا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ ہرگز ایک معجزہ کن منتظم نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی اور گڈگورننس بھی ایک دوسرے سے تقریباً متصادم نظر آتے ہیں۔ مگر سندھ اور خاص طور پر کراچی کے معاملات کے بارے میں وہ ’’فراخ دلی‘‘ اور صبر بھی تو نہیں دکھایا جا رہا جو چوہدری نثار علی خان کے اسلام آباد کے بارے میں برقرار نظر آتا ہے۔ میڈیا میں قائم علی شاہ اور کراچی کے حوالے سے مچائے جانے والے شور کو سب سے زیادہ تقویت رینجرز کے اس بیان نے فراہم کی ہے جس میں تقریبا صاف الفاظ میں یہ دعویٰ ہوا کہ سندھ کی صوبائی حکومت لیاری میں کئی برسوں سے جاری گینگ وار کے چند سرکردہ عناصر پر اپنی سیاسی مجبوریوں یا تعصبات کی بناء پر ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتی۔

بات مگر صرف لیاری تک محدود نہیں رہتی۔ ذرا غور کریں تو فوراً سمجھ آجاتا ہے کہ اصل پریشانی سندھ کو امن وامان کے نام پر ملنے والے 5ارب روپے کے بارے میں ہے۔ اس خطیر رقم سے پولیس میں ہزاروں کی تعداد میں نئی بھرتیاں ہونا ہے اور جرائم کی سرکوبی کے لیے ضروری جدید آلات کی خریداری۔ میڈیا میں مچائے شور کے ذریعے ثابت یہ کرنا مقصود ہے کہ سندھ کو ملے پانچ ارب روپے اگر صرف وہاں کی صوبائی حکومت خرچ کرے گی تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس خطیر رقم کا بیشتر حصہ بلکہ کرپشن کی نذر ہوجائے گا۔ بہتر یہی ہوگا کہ آنکھیں کھلی رکھی جائیں۔ صوبائی حکومت پر کڑی نگاہ ہی نہ رکھی جائے بلکہ مرکزی حکومت کی طرف سے کوئی ایسا ٹھوس بندوبست کیا جائے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ پولیس میں نئی بھرتیاں صرف اور صرف میرٹ پر ہوں۔ ذوالفقار چیمہ اگر سندھ کے آئی جی بنادیے جائیں تو شاید بھرتیوں کا یہ عمل صاف اور شفاف انداز میں مکمل کرنا یقینی بن جائے۔ جدید آلات وغیرہ کی خریداری کے حوالے سے بہت ضروری ہے کہ آصف زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفر اور ان کے ایک چہیتے شکیب نامی افسر کو اس پورے عمل سے دور رکھا جائے۔

مجھے ذاتی طور پر کسی فرد اور اس کی مبینہ خامیوں یا خوبیوں میں وقت ضایع کرنے کی عادت نہیں۔ میڈیا کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے لیکن میں اس بات کا بہت خیال رکھتا ہوں کہ اخباروں اور ٹیلی وژن کے ذریعے کسی ایک موضوع پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے Perceptionکیا بنایا جا رہا ہے اور ’’بنیادی پیغام‘‘ کیا دینا مقصود ہے۔ اس حوالے سے تھر میں قحط سالی کے بعد سے سندھ کے بارے میں جو لکھا اور بتایا جارہا ہے وہ کم از کم مجھے یہ سوچنے پر مجبور کررہا ہے کہ اپنی ’’پانچ ہزار سالہ تہذیب‘‘ پر فخر کرنے والے دیہی سندھ کے باسی شاید پاکستان کے وہ انوکھے رائے دہندگان ہیں جنھیں ’’گڈ گورننس‘‘ کرنے کے قابل سیاستدان منتخب کرنے کی عادت ہی نہیں۔ وہاں کی منتخب شدہ صوبائی حکومت پر مرکز یا ریاست کے کسی اور دائمی ادارے کو کڑی نگاہ رکھنا ہوگی۔ نگاہ رکھنے کی یہ خواہش پتہ نہیں کیوں مجھے ریڈ یارڈکیپلنگ کے دریافت کردہ اس White Man’s Burdenکی یاد دلا دیتی ہے جس کے بل بوتے پر انگریز حکمرانوں نے آج کے پنجاب اور سندھ کو کئی دہائیوں تک ’’گڈگورننس‘‘ کے ذریعے زیرنگین رکھا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔