ایک سفارت کار کی یاد داشتیں

رئیس فاطمہ  جمعرات 27 مارچ 2014

گزشتہ دنوں انجینئر راشد اشرف کی مہربانی سے ایک ایسی کتاب پڑھنے کو ملی، جسے آپ کوئی بھی نام دے سکتے ہیں، یادداشتیں، شخصی خاکے یا آپ بیتی وغیرہ۔ دراصل یہ ایک ایسے پاکستانی سفارت کار کی یاد داشتیں ہیں، جس نے تقریباً چھتیس برس اس دشت کی سیاحی میں گزار دیے، جسے دشت سیاست کہتے ہیں۔ کرامت غوری کا پاکستان کے ان نیک نام سفیروں میں شمار ہوتا ہے۔ جو اپنی قابلیت، میرٹ اور صلاحیتوں کی بنا پر کسی بھی ملک میں سفارت کاری کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ جن سفارت کاروں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کا احساس رہتا ہے۔ وہ ہر ممکن طریقے سے ملک کے وقار اور نیک نامی کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن جو بغلی دروازوں سے سفارشوں کی بنیاد پر سیرسپاٹے کے لیے سفیر متعین کیے جاتے ہیں۔ ان کا معاملہ دگر ہوتا ہے۔ ان کے ’’روز و شب‘‘میں یوں تو بہت کچھ ہوتا ہے۔

کرامت غوری بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ اس لیے کتاب کی ہر سطر نہ صرف چشم کشا اور عبرت آموز واقعات اور تجربات سے لبریز ہے۔ پھر بھی انھوں نے ’’سب کچھ‘‘ نہیں بیان کیا، بلکہ صرف بڑی بڑی بظاہر نام ونمود والی شخصیات کے ساتھ جو وقت گزارا صرف ان ذاتی مشاہدات کو کتاب کا موضوع بنایا ہے۔ آنکھوں دیکھے واقعات اور ذاتی تجربات کو الفاظ کی تسبیح میں پرو کر کتاب کی شکل دے دی۔ کرامت غوری چونکہ ’’دلی والے‘‘ ہیں اس لیے ان کا ’’شین ‘‘، ’’قاف‘‘ تو درست ہونا ہی تھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ’’شین‘‘، ’’قاف‘‘ نے بعض مقامات پر ان کے لیے بڑے مسائل بھی پیدا کیے۔ لیکن ان ہی پر کیا موقوف شین، قاف کی درستگی کی سزا اور بھی بہت سے لوگوں نے کاٹی، اور کاٹ رہے ہیں۔ لیکن غوری صاحب اس سنگ باری سے کسی نہ کسی طرح بچ بچا کر باعزت طور پر نکل ہی آئے۔ آج کل شمالی امریکا میں ہیں اور ہر طرف سے مبارک بادیں وصول کر رہے ہیں۔ پاکستانی قوم ان کی شکر گزار ہے کہ انھوں نے وہ سچ بیان کردیا جو عام طور پر ذاتی مفادات کی گرد میں کہیں دفن ہوجاتا ہے۔ان خاکوں میں انھوں نے انسان کو انسان ہی رہنے دیا ہے۔

باوجود نظریاتی اختلافات کے سب سے زیادہ طویل خاکہ ضیاء الحق کا ہے۔ انھوں نے برملا اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی میں ضیاء الحق جیسا سادہ، مشفق اور منکسرالمزاج شخص نہیں دیکھا، جو تمام تر سیاسی اور عسکری طاقت رکھنے کے باوجود چھوٹے سے چھوٹے انسان کو عزت دیتا ہے۔ وہ ہر ملاقاتی کو رخصت کرنے خود باہر آتے تھے۔ گھر کے ملازموں سے ان کا رویہ نہایت عادلانہ اور مشفقانہ تھا۔ وہ میرٹ کی قدر کرتے تھے۔ کانوں کے کچے نہیں تھے اور ان منافقوں کے عزائم کو بخوبی سمجھتے تھے جو اپنے مالی اور ذاتی مفادات کی خاطر صدر مملکت کے کان بھرتے تھے تاکہ کرامت غوری جیسے قابل ’’برہمنوں‘‘ کو دور کرکے اپنی خاندانی چوہدراہٹ قائم رکھی جائے۔ لیکن وہ انتہائی زیرک اور مدبر تھے۔ تمام چالوں کو سمجھتے تھے۔ بیگم شفیقہ ضیاء الحق کی شفقت اور سادگی کو بھی غوری صاحب نے سراہا ہے۔ جہاں غیرملکی دوروں میں صدر اور وزیر اعظم کے ساتھ جانے والے لاؤ لشکر میں موجود بیگمات اتنی زیادہ خریداری کرتی تھیں کہ اس قیمتی سامان کو C-130 تک پہنچانے کے لیے باقاعدہ ٹرک کا انتظام کرنا پڑتا تھا۔ وہیں بیگم ضیاء الحق ان خرافات میں نہیں پڑتی تھیں۔ایک معمر اور تقریباً معذور سیاست دان کو ہر حکومت میں صلاحیت اور قابلیت نہ ہونے کے باوجود بیرونی دورے سرکاری خرچ پر کروائے جاتے تھے۔

باقاعدہ انتہائی مہنگے اور پرتعیش ہوٹلوں میں ٹھہرایا جاتا تھا۔ جسمانی صلاحیت کا یہ عالم تھا کہ ہمہ وقت ایک صحت مند نوجوان انھیں اٹھانے بٹھانے اور کھڑا کرنے کے لیے ان سے منسلک رہتا تھا۔ برادری سسٹم کی اہمیت کے پیش نظر پست ذہنی سطح رکھنے کے باوجود وہ ہر حکومت کی آنکھ کا تارا بنے رہے۔ایک اور بھاری بھرکم شخصیت جو امریکا کی آشیرواد سے وزیر اعظم بھی بننا چاہتی تھی، ان کی قابلیت کا یہ عالم تھا کہ کشمیر کے موقف پہ چند جملے بولنے کے قابل نہ تھے۔ لیکن وہیں اپنے مدرسے کے لیے زکوٰۃ اور چندہ جمع کرنے میں انھیں کافی مہارت تھی۔ بعض لوگوں نے عوامی چولا تو بدلا لیکن یہ صرف اداکاری تھی۔ تاکہ غریب، لاچار اور بھوکے عوام کے سامنے خود کو ہمیشہ دیوتا ثابت کیا جاسکے۔ کرامت غوری کے لیے وہ منظر دل ہلا دینے والا تھا۔ جب ایک بزعم خود ناقابل تسخیر سیاست دان کے قدموں میں ایک معزز MNA جھکا ہوا آنسو بہا رہا تھا، گڑگڑا رہا تھا۔ لیکن موصوف نے نہ انھیں اپنے قدموں سے ہٹانے کی کوشش کی، نہ اس کا قصور معاف کیا۔ بڑے بڑے عبرت انگیز مشاہدات انسان کو اس کی اوقات اور خدائی قہر یاد دلانے کے لیے موجود ہیں۔

ایک لیڈر ترکی کے اس دورے میں بھی استنبول کے خاص ریستوران کے کباب کھانا نہیں بھولے جو ترکی میں آنے والے ہولناک زلزلے کی تباہ کاریوں کے بعد تعزیت کی رسم نبھانے کے لیے کیا گیا تھا۔ غیر ملکی دورے ہوں، کروفر اور شان و شوکت والے مصاحبین شاپنگ نہ کریں؟ یہ کیونکر ممکن ہے۔ نیپال میں پشمینے کی شالوں کی خریداری کس لاپرواہی سے کی گئی۔ سو ڈالر سے کم کی کوئی شال نہ تھی، لیکن مغل شہزادے نے حکم دیا کہ پشمینے کی شالوں کے جتنے بھی رنگ دستیاب ہیں سب نکال دیے جائیں۔ سفارت کار اور ان کے عملے کے دوسرے ساتھی حیرت سے ہرے ہرے ڈالروں کی ان گڈیوں کو دیکھ رہے تھے۔ جنھیں نہایت لاپرواہی سے نکال کر بغیر قیمت پوچھے وہ شخصیت ادا کر رہی تھی۔ واقعی یہی شہزادے پاکستان کے غریب عوام کی تقدیر کے مالک ہیں کیونکہ ان کے سروں پہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی عسکری یا بظاہر جمہوری طلسمی ٹوپی رہتی ہے۔ صرف رنگ بدل جاتا ہے۔ایک نہایت قابل تعلیم یافتہ اور زیرک خاتون لیڈر کے بارے میں غوری صاحب کا خیال ہے کہ وہ کانوں کی بہت کچی تھیں۔ مصاحبین کا جو حلقہ انھوں نے اپنے اردگرد جمع کر رکھا تھا وہ کبھی انھیں اصل مسائل کا علم ہی نہیں ہونے دیتا تھا۔ ایک مصاحب خاتون نے تو انھیں باقاعدہ ہائی جیک کر رکھا تھا۔ لیکن۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔۔؟۔۔۔۔البتہ ان  خاتون مصاحب کا اصل چہرہ اس سربراہ خاتون کے شوہر نے بہت پہلے اچھی طرح پہچان لیا تھا۔ اسی لیے وہ فوری طور پر راندہ درگاہ ہوگئیں۔

دراصل مصاحبین کی اپنی کوئی شناخت تو ہوتی نہیں۔ اس لیے وہ صرف صدر، وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کی ناک کا بال بننے کی کوشش میں قصیدہ خوانی میں سودا کو مات کرتے ہیں کہ اس چرب زبانی اور خوشامد کی تو وہ کھاتے ہیں۔ان کے برعکس ذہین اور قابل بااعتماد ساتھی کسی حکمراں کو گوارا نہیں ہوتے۔ بلکہ اقتدار کے تخت پر قدم رکھتے ہی وہ اپنے سے زیادہ قابل، بااعتماد، صاحب کردار، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دوررس نگاہیں رکھنے والوں کو بیک جنبش قلم منظر سے غائب کرا دیتے ہیں۔ اس صورت حال سے ’’چھٹ بھیے‘‘ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن اقتدار کا تاج جوں ہی کسی دوسرے سر پہ سجتا ہے یہ شہد کی مکھیوں کی طرح کسی اور طرف رخ کرلیتے ہیں۔ تکبر، غرور، نخوت سے بھرپور جعلی لیڈر ہمیشہ ذہین لوگوں اور عوامی طاقت سے گھبراتے ہیں۔ ان یادداشتوں کو اگر ہمارے نام نہاد حکمراں بھی پڑھ لیں تو ان کی اصلاح کی کوئی توقع نہ رکھیں۔ کیونکہ جو مناظر تھر اور مٹھی میں ہر طرف بکھری بھوک اور موت پر جس طرح دعوتیں اڑائی گئی ہیں۔ اس پر ہزاربار افسوس کریں۔ مرثیے اور نظمیں لکھیں کسی پر کوئی اثر نہیں ہونے والا۔ کیونکہ مصاحبین، خوشامدی اور درباری مسخرے ان لیڈروں کی جولانی طبع کے لیے ہمہ وقت حاضر رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔