ہنستا مسکراتا ارشد شریف شہید

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 3 نومبر 2022
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

اپنے پیاروں کو کھونے کا تصور بھی قیامت خیز اور دردناک ہوتا ہے، انکی جدائی کا درد قبر تک ساتھ رہتا ہے۔ ہنستا مسکراتا مدلل اختلاف کرنے والا ارشد شریف جام شہادت نوش کرکے نہ صرف اپنی عمر رسیدہ ماں، نڈر بیوہ، ہیروں جیسے چار بیٹے اور کلی جیسی بیٹی کو غم کے سمندر میں چھوڑ گیا بلکہ مجھ سمیت ہر باشعور پاکستانی کو دکھی کر گیا۔

میرا ارشد شریف سے کوئی ذاتی تعلق اور نہ دوستی رہی۔ صرف ایک بار ان سے ملا مگر زندگی کی اس پہلی اور آخری مختصر سی ملاقات میں وہ مجھے جس گرم جوشی اور احترام سے ملے میں اس کے سحر میں مبتلا ہوئے بغیر نہ رہ سکا، میری بد قسمتی کہ ان سے مزید ملاقاتوں اور دوستی کی خواہش شرمندہ تعبیر نہ ہو سکی۔

وہ گزشتہ چند برسوں سے جس انداز سے صحافت کررہے تھے مجھے وہ قطعی طور پر پسند نہیں تھی، مجھے ان کی اکثر و بیشتر باتوں سے اختلاف رہا، یہی حال میرے بہت ہی عزیز عمران ریاض خان کا بھی ہے مگر ان کے ساتھ میرا بھائیوں والا تعلق ہے اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو سنتا ہوں۔ شکایت، تنقید اور ناراضگی کا اظہار بھی کرتا رہتا ہوں مگر ارشد شریف کے ساتھ تو ایسا تعلق بھی نہیں تھا۔ نجانے وہ کیوں مجھے اختلاف کے باوجود بھی اپنا لگتا تھا۔

انکی شہادت نے مجھے ہلا کے رکھ دیا۔ ارشد شریف کے اہل خانہ کی کیفیت تو سمجھ میں آتی ہے کہ بوڑھی ماں کا سہارا اور جگر گوشہ، جوان بیوی کا ہمسفر اور معصوم بچوں کے سروں کا سایہ ظالموں نے چھین لیا، لیکن مجھے اس دن سے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے میرا کوئی اپنا مجھ سے چھین لیا گیا۔

سوچتا ہوں کہ آخر ایسا کیوں؟ تو یہی جواب اندر سے آتا ہے کہ مقلب القلوب اللہ دلوں کو موڑنے پر قادر ہے ، جس کو خود چاہتا ہے مخلوق کی دلوں میں انکے لیے محبت ڈال دیتا ہے۔ میرا یقین ہے کہ ارشد شریف شہید کے معاملے میں میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔

ارشد شریف کے والد محمد شریف پاکستان نیوی میں کمانڈر تھے، انکی خدمات کے صلے میں انھیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔ وہ 2011 میں حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگئے تھے۔ ارشد کے بھائی میجر اشرف شریف ان دنوں بنوں میں تعینات تھے۔

والد کے انتقال کی خبر سن کر وہ بنوں کینٹ سے روانہ ہوئے، راستے میں ان کی گاڑی پرکالعدم ٹی ٹی پی نے حملہ کرکے 35سالہ میجر اشرف شریف کو شہید کیا۔ والد کے جنازے کی تیاریاں جاری تھیں کہ بیٹے کی شہادت کی خبر آگئی اور ایک ہی گھر سے 2جنازے اٹھے۔ اب اسی خاندان کے واحد کفیل ارشد شریف بھی شہید کر دیے گئے ہیں۔

ارشد شریف شہید کی ماں کے دکھ کا سوچ کر پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجائے۔ مگر ارشد شریف کی ماں استقامت کا پہاڑ اور بہادری کا استعارہ بن کر دنیا کے سامنے آگئی۔ اپنے بڑے بھائی اور خیبرپختونخوا کے مایہ ناز ماہر تعلیم فضل اللہ کلیم کی وفات کے بعد اپنی والدہ مرحومہ و مغفورہ’’بی بی جی‘‘ کی حالت کو یاد کرتا ہوں تو دل لرز جاتا ہے اور ارشد شریف شہید کی ماں جی کی شکل میں میری اپنی ماں کی تصویر دل و دماغ اور آنکھوں میں ٹہر جاتی ہے۔

ارشد شریف شہید پر رشک آتا ہے جب انکی ماں کو اپنے شہید بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے یہ سنتا ہوں کہ ’’ارشد آپ نے قوم کو شعور دیا، صحافت کو عزت و توقیر دی، نوجوانوں کو سوال کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ میرے ارشد مجھے آپ پر فخر ہے، آپ جہاں بھی ہوں گے اللہ نے آپ کو اچھی جگہ رکھا ہوگا۔‘‘ بیشک اللہ رب العزت اپنے وعدے کے مطابق کسی کو اسکی ہمت، طاقت اور برداشت سے زیادہ امتحان میں نہیں ڈالتا۔ کوئی تصور کرسکتا کہ دو شہیدوں کی ماں اپنے بیٹے کی شہادت پر یہ الفاظ ادا کرسکتی ہے؟

ارشد شریف شہید کی ماں کے یہ الفاظ جو دکھی دل سے نکل کر زبان پر آئے۔ یہ الفاظ ماں کی طرف سے شہید بیٹے کے لیے نشان حیدر سے بڑھ کر ہیں۔ ماں تو ماں ہوتی ہے مجھ سمیت ہر اختلاف کرنے والا بھی یہ مانتا ہے کہ ارشد شریف ایک نڈر، بہادر، محب وطن، اپنے موقف پر ڈٹ کر مدلل جنگ لڑنے والا جرات مند صحافی تھا۔ ارشد شریف شہید پورے شواہد اور دلائل کے ساتھ تحقیقاتی صحافت کا علمبردار رہا، اس کے اندر ہر ایک سے سوال پوچھنے کی جرات اور سلیقہ موجود تھا۔

ان کے پروگرام میں دوسرے ٹاک شوز کی طرح طوفان بدتمیزی کا مکروہ ماحول (چند ایک کے سوا ) نہیں ہوتا تھا۔ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے ہوئے مہذب انداز اور عزت دے کر سوال کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی صحافتی زندگی میں اس نے دشمن نہیں صرف دوست بنائے، وہ مرتے دم تک اختلاف رائے رکھنے والوں کو بھی عزت دے کر دوست بناتا رہا اور دوستوں کا قافلہ بڑھاتا گیا۔

ان کے اس رویے کے بدلے زندگی میں محبتیں ملی اور شہادت کے بعد پوری قوم نے انکو عزت اور احترام کے ساتھ ان کی ماں جی کی خواہش کے مطابق ٹنوں پھولوں میں لاد کر سفر آخرت پر روانہ کیا۔ ارشدشریف شہید کے قبر پر انجان لوگوں کا آنا، ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کر نا، انکے لیے مغفرت اور درجات کی بلندی کی دعائیں کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ پوری قوم انکی شہادت اور اس انداز سے بچھڑنے پر دکھی ہے۔ بقول شاعر

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

23مارچ 2019 کو انھیں صحافت میں ان کی خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔ وہ اپنی تحقیقی صحافت کے لیے دنیا بھر میں جانے جاتے تھے۔

انھیں کئی عالمی نشریاتی اداروں نے بھاری معاوضے پر جاب آفر کیں وہ وطن کی محبت میں سب کچھ قربان کیے بیٹھے تھے۔ ارشد شریف نے دفاع اور خارجہ امور میں مہارت کے ساتھ قبائلی علاقوں میں تنازعات کا احاطہ کیا۔آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے موقع پر انھوں نے فرنٹ لائن پر جاکر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کوریج کی۔

انھوں نے لندن، پیرس، اسٹراسبرگ اور معروف پاکستانی خبر رساں اداروں کے لیے رپورٹنگ کی۔ ارشد شریف 2021کے آگاہی ایوارڈ کے فاتح ہیں۔ مقامی ٹی وی میں ان کا پروگرام ’’پاور پلے‘‘ بہت مقبول رہا۔ ارشد شریف نے بطور اینکر 2016کے انویسٹی گیٹو جرنلسٹ آف دی ایئر کا ایوارڈ جیتا۔ 2018میں ارشد شریف نے کرنٹ افیئر اینکر آف دی ایئر کا ایوارڈ جیتا۔ ان کی تحقیقاتی صحافت اپنی مثال آپ اور قابل تقلید ہے۔

ارشد شریف جانتے تھے کہ شہیدوں کا وارث ہونا بہت بڑا اعزاز ہے اور شاید اسی اعزاز نے ان کے اندر حب الوطنی، بہادری کوٹ کوٹ کر بھر دی اور ڈر کھرچ کر نکال پھینکا۔ ارشد نہ چاہتے ہوئے ناعاقبت اندیش دوستوں کے کہنے پر ملک چھوڑ کر دبئی چلے گئے وہاں سے انھوں نے کینیا کا رخ کیا۔

24اکتوبر 2022 کو خبر ملی کہ کینیا کے شہر نیروبی سے کچھ دور ارشد شریف کو سر پر گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ ارشد شریف کے جسد خاکی کو پاکستان لایا گیا تو ان کی والدہ نے قوم سے اپیل کی کہ میرے شہید بیٹے کا آخری سفر اس کے شایان شان ہونا چاہیے۔

اس کے جنازے کو پھولوں سے لاد کر بھرپور شرکت کریں۔ چشم فلک نے دیکھا کہ ارشد شریف کے گھر سے ان کا جسد خاکی نماز جنازہ کے لیے فیصل مسجد لے جایا گیا تو تمام راستے لوگوں کی لمبی قطاریں تھیں، ان کے ہاتھوں میں پھول اور آنکھوں میں آنسو تھے۔

انھوں نے شہید کو پھولوں سے لاد دیا۔ میں لاہور تھا بوجھل ذہن کے ساتھ اپنے بھتیجوں عزیر علی امیر اور عماد علی امیر کو فون کیا کہ میں تو نماز جنازہ میں شرکت نہیں کرسکتا میری طرف سے پھولوں کی پتیاں ارشد شریف شہید کی قبر پر ڈالیں۔

انھوں نے کہا ’’تھوڑی دیر پہلے پھولوں کی تازہ پتیاں ملی انشاء اللہ ہم ارشد شریف شہید کی ماں جی کی لاج رکھ کر شہید کی قبر پر ڈالیں گے ‘‘ اپنے بھتیجے کا یہ جواب سن کر میں حیران بھی ہوا اور ارشد شریف شہید پر رشک بھی آیا، میرا یقین ہے کہ مقلب القلوب اللہ نے جس طرح ہمارے دلوں میں ان کی محبت ڈالی اسطرح ارشد شریف کی شہادت کو اپنی بارگاہ میں قبول کرلیا ہوگا۔

اللہ رب العزت ارشد شریف شہید کے درجات بلند فرمائے، ان کی ماں جی، بیوہ اور اولاد کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔آمین یا رب العالمین

ارشد شریف کے قتل کے محرکات کیا تھے، شہادت سے کس کو فائدہ پہنچا اور کسے نقصان؟ ان تمام پہلوؤں پر ہم اگلے کالم میں بات کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔