لانگ مارچ، دَورہ چین اور مریم نواز کی گفتگو

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 4 نومبر 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پچھلے جمعتہ المبارک کو لاہور کے لبرٹی چوک سے جناب عمران خان کا لانگ مارچ ایسے حالات میں شروع ہُوا کہ پاکستان کے ایک معروف اینکر پرسن کے کینیا میں بہیمانہ قتل کی بازگشت فضا میں تھی۔ لانگ مارچ کا یہ قافلہ ابھی لبرٹی چوک سے تھوڑی دُور ہی پہنچا تھا کہ حالی روڈ پر پی ٹی آئی کا ایک پُر جوش کارکن، حسن بلوچ، ٹرک سے گر کر شدید زخمی ہو گیا۔

وہ جس بد قسمت ٹرک سے گرا تھا، اُس پر ’’حقیقی آزادی‘‘ کے رنگین بینرز لہرا رہے تھے۔ حسن بلوچ کو شدید زخمی حالت میں لاہور کے ایک سرکاری اسپتال میں داخل کروا دیا گیا تھا۔ بروز منگل، یکم نومبر، اطلاع آئی کہ وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا ہے۔

لانگ مارچ کا یہ قافلہ مرید کے اور سادھو کی کے درمیان پہنچا تھا کہ لاہور کے ایک نجی ٹی وی کی خاتون رپورٹر مبینہ طور پر خان صاحب کے لانگ مارچ کے بلند و بالا ٹرک کے نیچے آکر کچلی گئی۔

وہ بد قسمت خاتون رپورٹر بڑی ہمت سے خان صاحب کے لانگ مارچ کی کوریج کر رہی تھی کہ موت نے آلیا۔ مرحومہ بارے جرمنی کے خبر رساں ادارے، ڈاؤچے ویلے، نے جو تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے، انکشاف خیز بھی ہے اور دلدوز بھی۔ گوجرانوالہ ہی میں ایک چودہ سالہ لڑکا خان صاحب کے لانگ مارچی ٹرک سے ٹکرا کر جاں بحق ہوگیا ہے۔

اللہ تعالیٰ اِن چاروں افراد کی مغفرت فرمائے۔ گوجرانوالہ ہی میں خان صاحب کے خلاف بینرز بھی لٹکائے گئے جس پر انھوں نے بڑا بُرا منایا ہے، حالانکہ یہ بینرز انھی کے اختیار کردہ نعروں کا جواب تھا۔ پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی بھی گوجرانوالہ ہی میں ایک اووَر ہیڈ برج سے ٹکرا گئے لیکن اللہ کے فضل سے خیر خیریت سے ہیں۔

یہ چاروں خونی واقعات عمران خان کے لانگ مارچ کے لیے بد شگونی سے کم نہیں ہیں۔ خان صاحب تو ویسے بھی مبینہ طور پر شگون وغیرہ پر بڑا یقین رکھتے ہیں؛ چنانچہ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ چاروں واقعات نے اُن کے دل و دماغ پر کتنا گہرا اثر ڈال رکھا ہوگا۔ شاید وہ اِسی لیے باربار لانگ مارچ کو، شام کے وقت، تنہا اور اکیلا چھوڑ کر واپس اپنے گھر لاہور تشریف لے جاتے رہے۔ اُن کی واپسیوں پر کئی قیافے اور اندازے لگائے گئے ہیں۔

خان صاحب اور اُن کی پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ لانگ مارچ اِس جمعہ (4نومبر) کو اسلام آباد پہنچ جائے گا۔ ایسا مگر بوجوہ نہیں ہو سکا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ لاہور سے نکلنے کے باوجود خان صاحب اور اُن کا لانگ مارچ بے دِلی اور بے کیفی کی کیفیات میں مبتلا ہو کر نہائت سست روی اور کاہل قدموں سے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہا ہے۔

اِس دوران خان صاحب نے جگہ بہ جگہ اپنے کارکنوں کے سامنے جو خطابات کیے ہیں، اُن میں کوئی نئی بات اور نئی اطلاع تو نہیں ملی، البتہ اتنا ضرور محسوس ہُوا ہے کہ اُن کی تقاریر میں غصے، انتقام اور شدتِ زبان کے عناصر پہلے سے بھی کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔

یہ صورتحال بتا رہی ہے کہ خان صاحب پر ڈپریشن اور فرسٹریشن غالب آچکی ہے۔ اُن کا لہجہ خاصا یاس آفریں بھی ہے۔ بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ اِس بار لانگ مارچ میں، ماضی کے برعکس، انھیں طاقتور بیساکھیاں میسر نہیں ہیں۔

اوپر سے لندن میں براجمان نون لیگ کے قائد، نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی اور نون لیگ کی نائب صدر، محترمہ مریم نواز، عمران خان کے لانگ مارچ پر نقد تبصرے کرکے قیامت ڈھا رہے ہیں۔ دونوں باپ بیٹی کے یہ تبصرے لانگ مارچ کی باطنی ہیئت کو بھی عیاں کر رہے ہیں اور خان صاحب کا ٹھٹھہ بھی اُڑا رہے ہیں۔

خاص طور پر نواز شریف کا اپنے وزیر اعظم بھائی کو یہ مشورہ دینا کہ ’’لانگ مارچ چھوٹا ہو یا بڑا، اِسے اسلام آباد آنے دیں مگر عمران خان کا کوئی مطالبہ نہیں ماننا، اور نہ ہی لانگ مارچ کے لیڈر کو فیس سیونگ دینی ہے۔‘‘ پی ڈی ایم کے سربراہ، حضرت مولانا فضل الرحمن ، بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو اِس لانگ مارچ میں فیس سیونگ نہیں دیں گے۔ تجزیہ نگار اِس ’’فیس سیونگ‘‘ کو اپنے اپنے معنی پہنا رہے ہیں۔

جو کسر باقی رہ گئی تھی، وہ محترمہ مریم نواز شریف نے یکم نومبر کو لندن میں بیٹھ کر اپنی بھرپور پریس کانفرنس میں پوری کر دی ہے۔ مریم نواز شریف صاحبہ کے لہجے میں اپنے والد صاحب اور اپنے وزیر اعظم چچا کے مستحکم لہجے کی کھنک سنائی دے رہی ہے۔

وہ بھی کہہ رہی ہیں کہ عمران خان نے لانگ مارچ کے لاؤ لشکر کے ساتھ اسلام آباد پر مبینہ چڑھائی کرنی ہے تو کر لینے دیجیے، لیکن عمران خان کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ یوں صلح صفائی کے امکانات معدوم ہو رہے ہیں۔

لیکن پھر بھی بعض اطراف سے یہ اُمید کی جارہی ہے کہ فریقین کے اِسی مذکورہ تناؤ اور کھچاؤ کے باطن ہی سے صلح کی کوئی کرن برآمد ہوگی۔ واقعہ یہ ہے کہ عمران خان کے سخت اور قابلِ اعتراض لہجے کے تسلسل نے اُن کے سیاسی حریفوں کو بھی مقابلے کے لیے ڈٹ جانے پر آمادہ اور تیار کیا ہے۔ ہر قدم پر عمران خان کی اسٹرٹیجی کے نتائج حسبِ توقع بر آمد نہیں ہو رہے۔

شاید فیس سیونگ ہی کے لیے اور کوئی حسبِ خواہش نتیجہ پانے کے لیے ہی خان صاحب نے اپنے لانگ مارچ میں تقریباً ایک ہفتہ کی مزید توسیع کر دی ہے۔ اس کے باوجود کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ لانگ مارچ کب اسلام آباد پہنچے گا اور کس مقام پر پڑاؤ ڈالے گا؟ لانگ مارچ پر اُٹھنے والے روزانہ کے کروڑوں روپے کے اخراجات الگ خان صاحب کے لیے درد سری اور مایوسی بن رہے ہیں۔

اور اِن سب حالات سے ’’بے نیاز‘‘ ہو کر وزیر اعظم جناب شہباز شریف 2روزہ سرکاری دَورے پر چین روانہ ہوگئے۔ کئی لحاظ سے یہ دَورہ غیر معمولی اور اہم ترین ہے۔ مثلاً :(1) اگلے چند ہفتوں کے دوران پاکستان نے چین کا جو 6.3ارب ڈالر قرض ادا کرنا ہے، اِس کی تاریخِ ادائیگی کو موخر کرنے کی درخواست کرنا(2)ہماری اپنی نااہلیوں کے سبب رُکے CPECمعاہدوں اور پروجیکٹوں کی تجدیدِ نَو(3)شہباز شریف کا یہ دَورئہ چین اس لیے بھی نہائت اہمیت کا حامل ہے کہ کمونسٹ پارٹی آف چائنہ (CPC)کی بیسویں نیشنل کانگریس کے انعقاد اور جناب شی جن پنگ کے تیسری بار اِس کا سربراہ منتخب ہونے پر وزیر اعظم شہباز شریف کو چین مدعو کیا گیا ہے ۔

اور یہ اعزا ز حاصل کرنے والے وہ دُنیا کے پہلے سربراہِ حکومت ہیں ۔ اِس کے بعد دوسرا اعزاز ویت نام کی مقتدر کمونسٹ پارٹی کے سربراہ(Nguyen Phu Trong) کو ملا ہے جو شہباز شریف کے پاکستان واپس آنے پر بیجنگ اُتر رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے اِس دَورئہ چین کی حساسیت اور اہمیت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کے ساتھ نصف درجن سے زائد وفاقی وزرا کا وفد بھی بیجنگ گیا۔

چینی صدر نے فی الحال پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ کاش ایسا ہوتا کہ عمران خان نے ملک میں لانگ مارچ کا اودھم نہ مچایا ہوتا اور شہباز شریف زیادہ اعتماد کے ساتھ اعلیٰ ترین چینی قیادت سے ملاقاتیں کرتے اور پاکستان کے لیے مفادات سمیٹ سکتے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔