چھوٹے چھوٹے دھرنے یا بڑا انقلاب؟

محمدعمر ہاشمی  جمعرات 27 مارچ 2014
 نوجوان جس تبدیلی کی خواہش رکھتے تھے وہ سیاسی پنڈتوں کی چالوں کے سامنے ہار گئی. فوٹو: رائٹرز

نوجوان جس تبدیلی کی خواہش رکھتے تھے وہ سیاسی پنڈتوں کی چالوں کے سامنے ہار گئی. فوٹو: رائٹرز

جنوری کا مہینہ تھا، اسلام آباد کے ڈی چوک میں یخ بستہ ہواؤں نے ڈیرہ ڈالا ہوا تھا اور میرے دیس کے بوڑھے، جوان، بچے، مائیں بہنیں اور بیٹے اس سخت سردی کا مقابلہ کرتے ہوئے صرف ایک شخص کی آوازپر لبیک کہتے ہوئے جمع تھے جو بار بار پوری قوم کو صدا دیتے ہوئے کہ رہا تھا کہ اُٹھو اور اپنے حقوق کیلئے باہر نکلو، وہ بار بار یہ صدا دے رہا تھا کہ  آئندہ الیکشن اگر اصلاحات کے بغیر کرائے گئے تو ملک پر پھر وہی ماضی کے نااہل حکمران جو کہ چور، ڈاکو ، لٹیرے، بدمعاش، شراب خور، ظالم اور یزیدی سوچ رکھنے والے سرمایہ دار اور جاگیردار ہیں دوبارہ قابض ہو جائینگے اور عوام پھر پانچ سال کیلئے اسی ظلم اور جبر کی چکی میں  پسنے پر مجبور ہو جائینگے۔ 

وہ شخص کوئی اور نہیں  ڈاکٹر طاہر القادری ہیں ج  کم و بیش تین دن تک پوری قوم کو صدائیں دیتے رہے،پکارتے رہے،بلاتے رہے لیکن قوم نہ جاگی ،صرف چند ہزار افراد اس کی اس بات میں چھپی سچائی کو سن سکے اور سمجھ سکے ،جو سمجھ گئے وہ اپنے پورے پورے خاندانوں کیساتھ ملک کی بہتر ی اور ترقی کیلئے سخت سردی کا مقابلہ کرتے رہے اور جم کر اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا دیئے بیٹھے رہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ قوم باہر نہ نکلی اور پھر دھرنا ختم ہو گیا، پھر وہ وقت آیا کہ مک مکا کا الیکشن کرادیا گیا،اس شخص نے کہا تھا یہ الیکشن آزاد اور منصفانہ نہیں ہوگا، اور ایسا ہی ہوا،الیکشن میں ملکی تاریخ کی بد ترین دھاندلی ہوئی،مک مکا کی بنیاد پر بنائی گئی نگران حکومت اورمک مکا کی بنیاد ہر بنے الیکشن کمیشن نے اپنے آقائوں کانمک حلال کیا اور کئی درجن پنکچر لگائے گئے۔

تبدیلی کی خواہش رکھنے والے ایماندار اور پڑھے لکھے نوجوان جس تبدیلی کی خواہش رکھتے تھے وہ سیاسی پنڈتوں کی چالوں کے سامنے ہار گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہی پرانے ظالم ،کرپٹ،چور ،ڈاکو دوبارہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہوکر آگئے۔ جو ہونا تھا وہ ہوگیا چڑیاں کھیت چگ گئیں تو اس کے بعد اس نوجوان نسل اور قوم کے باشعور طبقہ کوڈی چوک والے بابے کی صدائیں یاد آنے لگیں ، وقت گزرتا رہا  اوروہ شخص جس پر تاریخ کا بدترین کیچڑ اچھا لا گیا تھا اسکا کہا ہوا ایک ایک لفظ درست ثابت ہوتا گیا،انہوں نے کہا تھا اگر الیکشن کمیشن درست طریقہ سے نہ بنایا گیا تو دھاندلی ہوگی اور ایسا ہی ہوا،دھاندلی ہوئی۔

طاہر القادری نے کہا تھا دھاندلی کیخلاف لاکھ ثبوت لائو گے مگر کوئی تمہاری بات  نہیں سنے گا اور ایسا ہی ہوا۔ اس نے کہا تھا تبدیلی کے نعرے لگانے والے رو ئیں گے ،وہ روتے رہے مگر کسی عدالت عظمیٰ نے ان کی بات نہ سنی،اس نے کہا تھا نئے حکمران تمہا را جینا حرام کردینگے، حکمران ملکی اثاثے بیچ دینگے اس کی یہ بات بھی پوری ہوگئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ حکمران عوام کا جینا حرام کر دینگے اور آج مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے اور حکمرانوں کو پرواہ نہیں، ہمارے نام نہاد حکمراں در حقیقت عوام کے حقوق نہیں عوام کو ہی نگل رہے ہیں۔

بقو ل شاعر

حاکم شہر کی اس بند گلی کے پیچھے

آج اک شخص کو ہے خون اُگلتے دیکھا

تم تو کہتے تھے کہ ہوتے ہیں درندے ظالم

میں نے انسان کو انسان نگلتے دیکھا

جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا تھا مجھے اپنے اوپر بھی افسوس ہو رہا تھا کہ کاش اس وقت جب الیکشن سے قبل طاہر القادری نے انتخابی نظام میں تبدیلی کا مطالبہ کیا  تھا ہم ان کی نیت پر شک کرنے کی بجائے  اٹھ کھڑے ہوتے تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔

اس شخص کا پیغام مجھے آج بھی یاد آتا ہے جب زندگی بھیک سے نہیں ملتی، زندگی بڑھ کے چھین لی جاتی ہے ۔ مگر ہم انتظار کرتے رہے کہ شاید ہمیں بغیر کسی جدو جہد کئے ہمارے حقوق مل جائیں۔

میں آئے روز اخباروں میں پڑھتا ہوں کہ عارضی ملازمین کا اپنے حقوق کیلئے دھرنا، نرسوں کا دھرنا، اساتذہ کا دھرنا، لیڈی ہیلتھ ورکرز کا دھرنا،ریلوے مزدوروں کا دھرنا، وکلا کے دھرنے اور  چند  روز پہلے ملک بھر میں صحافیوں نے بھی اپنے حقوق کی فراہمی کیلئے دھرنا دے ڈالا تو دل میں خیال آتا ہے کہ کاش ہم اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفاد کیلئے چھوٹی چھوٹی دھرنے دینے کی بجائے قوم کے مفاد کی خاطر یک جان ہوکر ایک دن باہر نکلیں اور ایک ایسا احتجاج کریں کہ ملک کے تمام وسائل پر قابض ظالم اور جابر حکمرانوں جو کہ ملک کے اٹھانوے فیصد عوام کے حقیقی نمائندہ نہیں ہیں سے اپنے حقوق چھین لیں۔

ان حکمرانوں کو کیا پتا کہ ایک غریب شخص مہنگائی کے اس دور میں کس طرح دو وقت کی روٹی پوری کررہا ہے،کیونکہ پورے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے ارکان میں سے کوئی ایک بھی عام آدمی نہیں ملے گا۔ ہر ایک سیاستدان کروڑوں اور اربوں کا مالک ہے ۔یہ وہی ٹیکس چوراور سیاست کوکاروبار بنانے والے افراد ہیں جو کروڑوں خرچ کر کے پارٹی ٹکٹ لیتے اور پیسہ لگا کر الیکشن میں دھاندلی کراتے ہیں، اگر انہیں آرٹیکل 62 ،63 کی چھلنی سے گزارا جائے تو ان میں سے چند کے علاوہ 99 فیصد نااہل قراردیدئے جائیں۔

یہاں قارئین کو یہ بھی یاد دلاتا چلوں کہ آئین کا آرٹیکل 62 مطالبہ کرتا ہے کہ جو شخص رکن اسمبلی بننا چاہے وہ  دانا اورقابل ہو، وہ نیک سیرت ہو یعنی وہ شرابی نہ ہو ،قاتل نہ ہو ،ٹیکس چورنہ ہو ،فضول خرچ نہ ہو، عیاش اورکرپٹ نہ ہو، ایمانداراورامانتدار ہو۔ جبکہ آرٹیکل تریسٹھ کے مطابق بجلی اور گیس کے بلوں کے نادہندہ اورٹیکس نادہندہ رکن اسمبلی نہیں بن سکتے، مگر عملی طور پر دیکھا جائے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

گزشتہ  عام انتخابات میں بھی وہی لوگ دوبارہ  ارکان اسمبلی بن گئے جو بد کردار اور لٹیرے تھے۔ ابھی چند روز قبل ایم این اے جمشید دستی یہ انکشاف بھی کر چکے ہیں کہ  ارکان کی اکثریت پارلیمنٹ لاجز میں شراب نوشی اور غیر اخلاقی حرکات میں ملوث ہے تو کیا یہ آئین کے تحت ارکان اسمبلی بن سکتے ہیں ؟ یہ لوگ درحقیقت لا میکر نہیں بلکہ لا بریکر ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی واضح ہو چکا کہ عام انتخابات میں الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکا،ریٹرنگ افسران نے بھی کانہ پوری کے لئے الٹے سیدھے سوال پوچھ کر آئین کا مذاق اڑایا اور ان تمام لوگوں کو جو ان شرائط پر پورا نہیں اترتے تھے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دیدی گئی  جسکا نتیجہ آج یہ نکلا ہے کہ ہم عوام اسی ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔

طاہر القادری  کے مطالبے کے مطابق اگر آئین پر عمل کیا جاتا تویہ سب لوگ آج سلاخوں کے پیچھے ہوتے اور عوام حقیقی تبدیلی کی طرف گامزن ہوتے ،ملک ترقی کی راہ پر چل پڑتا۔ لیکن یہاں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ملک کا آئین معطل پڑا ہے ،خاص طور پرآئین کے وہ آرٹیکلز جن کا اطلاق طاقتور طبقہ پرہوتا ہے۔ درحقیقت ہمارے ملک میں اس وقت بدترین آمریت قائم ہے، جس کے باعث عوام کے بنیادی حقوق تک معطل ہیں۔

آج بھی وقت ہے ہمیں چھوٹے چھوٹے دھرنے دینے کی بجائے متحد ہو کر حکمرانوں کے خلاف ایک نئی احتجاجی تحریک کی شروعات کرنی چاہئے تاکہ  ایک نیا انقلاب برپا ہو اور ہم آزادی کے ساتھ اپنی حقوق استعمال کرتے ہوئے ایک پرسکون زندگی گزار سکیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

محمدعمر ہاشمی

محمدعمر ہاشمی

لکھاری پندرہ سال سے میڈیا سے وابستہ ہیں اور روزنامہ جناح، روزنامہ نئی بات اور کیپٹل ٹی وی سمیت کئی اداروں میں کام کرچکے ہیں جبکہ خاصے عرصے سے بلاگ بھی لکھ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔