سیاست نہیں ملک بچائیے

سالار سلیمان  جمعـء 4 نومبر 2022
حالیہ حملے نے خانہ جنگی کے ممکنہ امکانات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

حالیہ حملے نے خانہ جنگی کے ممکنہ امکانات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان کا کنٹینر لانگ مارچ کے روٹ پر آگے کی جانب گامزن تھا کہ پہلے ایک گولی چلنے کی آواز آئی، اس کے بعد کافی گولیاں ایک ساتھ چلائی گئیں جیسا کہ برسٹ فائر ہوتا ہے اور اس کے بعد پھر دو تین الگ سے فائر ہوئے۔

میرے دوست اور پبلک نیوز کے اینکر وجاہت ندیم اُس وقت کنٹینر پر موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ فائرنگ کے وقت وہ عمران خان کے پیچھے موجود تھے، ان کا کیمرہ بھی آن تھا اور خان صاحب نے چند لمحوں کے بعد اُن کو انٹرویو دینا تھا کہ اس سے پہلے ہی یہ حادثہ ہوگیا۔ کنٹینر پر بھی گولیاں چلتے ہی اچانک بھگدڑ کی سی صورتحال پیدا ہوگئی۔ اسی لمحے اسلم اقبال ان پر آگرے۔ سب کو فوراً ہی عمران خان کی فکر لاحق ہوگئی۔

عمران خان کی ٹانگ میں گولیاں لگی تھیں۔ انہیں کنٹینر سے نیچے لایا گیا، ان کی ابتدائی مرہم پٹی ہوئی، اس کے بعد ان کو بلٹ پروف گاڑی میں سوار کرکے لانگ مارچ سے نکالا گیا جہاں سے بعد ازاں وہ لاہور میں شوکت خانم اسپتال پہنچے۔ عمران خان کی حالت بہتر ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ اُن کی جان بچ گئی۔

ایک حملہ آور گرفتار ہوچکا ہے۔ اس کا اقبالی بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ لیکن جیسا ویڈیو سے ظاہر ہے کہ فائرنگ کرنے والے ایک سے زائد لوگ تھے تو اب پولیس کو چاہیے کہ وہ باقی حملہ آوروں کی گرفتاری بھی عمل میں لائے اور اپنی تفتیش کو سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھائے۔ جس شخص کی جان گئی، وہ بھی کسی دوسرے حملہ آور کی گولی کا نشانہ بنا تھا کیونکہ اگر ویڈیو کو فریم بائی فریم دیکھیں تو مقتول حملہ آور کے پیچھے تھا اور وہ بھی اس کو پکڑنے کی کوشش کررہا تھا کہ سامنے سے آنے والی گولی کا نشانہ بنا اور اوندھے منہ گرا اور اس کی موقع پر ہی موت واقع ہوگئی۔ اس لمحے گرفتار حملہ آور کی پشت مقتول کی جانب تھی اور اس کو قابو کیا جارہا تھا۔ عمران خان پر ہونے والا حملہ اپنے بطن میں بہت سے خدشات اور سوالات لیے ہوئے ہے، جنہیں ہم آگے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

عمران خان لمحہ موجود کی کوئی معمولی سیاسی شخصیت ہرگز نہیں ہے۔ وہ پاکستان کے سابق وزیراعظم ہیں اور طاقتور ترین وزیراعظم رہے ہیں، جنہیں بہترین گراؤنڈ فار پلے مہیا تھی۔ وہ بین الاقوامی اثر رکھتے ہیں۔ موجودہ سیاسی منظرنامے میں سب سے فعال جدوجہد بھی ان کی ہی ہے اور حالیہ ضمنی انتخابات نے ان کی مقبولیت بھی ثابت کردی ہے۔ موجودہ سسٹم کے ساتھ انہوں نے سینگ لڑائے ہوئے ہیں۔ اگر یاد ہو تو بینظیر بھٹو کا قتل بھی مجمع میں ہی ہوا تھا اور بینظیر بھٹو بھی اُس وقت اپنی مقبولیت کے عروج پر تھیں۔ انہیں بھی نیچے سے فائر کرکے موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا اور فوری بعد خودکش دھماکا بھی ہوا تھا۔

تحریک انصاف کے سینئر عہدیداران جس میں اسد عمر، اسلم اقبال، شیریں مزاری اور فواد چوہدری شامل ہیں، انہوں نے اس حملے کا الزام ایک سینئر فوجی افسر سمیت وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ پر عائد کیا ہے۔ میری ناقص رائے میں یہ بہت عجلت اور قبل از وقت ہے۔ حملے کے چند ہی گھنٹوں میں ماسٹر مائنڈ کا تعین کیسے ہوسکتا ہے جبکہ لانگ مارچ ابھی پنجاب کی حدود میں ہے، جہاں پر حکومت بھی تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کی ہے؟ ادھر تو کٹہرے میں آئی جی پنجاب اور وزیر داخلہ پنجاب کو ہونا چاہیے۔ اگر حملہ اسلام آباد کی حدود میں ہوتا تو پھر اول الذکر افراد پر الزام کی وجہ مل سکتی تھی لیکن اپنے گھر میں ہونے والے حملے کے بعد اس کی وجہ سمجھ نہیں آرہی، جب کہ ساری کی ساری انتظامیہ بھی اپنی ہی ہو۔

میری ناقص رائے میں تحریک انصاف کے قائدین کو یہاں بالغ النظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ اگر کسی کو نظر نہیں آرہا ہے تو وہ تھوڑا سا عینک کا نمبر بدل لے پھر شاید اس کو بھی نظر آجائے کہ ملک خانہ جنگی کے دوراہے پر کھڑا ہے اور حالیہ حملے نے خانہ جنگی کے ممکنہ امکانات کو مزید بڑھایا ہے۔ ایک چنگاری ملک کا ستیاناس کرسکتی ہے۔ یہ وہ وقت ہے کہ سیاسی قیادت ذاتی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک کا سوچے اور اس ملک کو بچانے کی فکر کرے۔ ہم نے 1971 کا سانحہ بھی اُس وقت کی قیادت کی کوتاہ نظری کی وجہ سے ہی دیکھا تھا۔ کیا اب ہم ایک اور سانحے کی جانب بڑھ چکے ہیں؟ ایسی صورتحال میں بلیم گیم حالات کو مزید خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ ابھی جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو عمران خان کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ میں بس امید ہی کرسکتا ہوں کہ اُن کی جانب سے کوئی ایسا بیان سامنے آئے گا جسے میچور بیان کہا جاسکے۔

عمران خان کو جائے وقوع سے تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر موجود لاہور بھجوایا گیا اور میری اطلاعات کے مطابق ان کا میڈیکو لیگل نہیں ہوا۔ اس رپورٹ کا قانونی عمل میں ہونا بہت ضروری ہے۔ اس وقت بہت سے سوالات موجود ہیں جن میں سب سے بڑا سوال پنجاب حکومت کی ناقص سیکیورٹی سے متعلق ہے۔ سینیٹر اعجاز کے مطابق انہیں علم تھا کہ اس حدود میں عمران خان پر حملہ ہوسکتا ہے اور انہوں نے تحریک انصاف کی مقامی قیادت کو شاید آگاہ بھی کیا تھا۔ کیا وجہ ہے کہ پیشگی اطلاع کے باوجود بھی سابق وزیراعظم کی سیکیورٹی خاطر خواہ نہیں تھی؟ کیوں ان کے کنٹینر کی چھت پر موجود چادر بہت پتلی اور بلٹ پروف نہیں تھی؟ سینیٹر اعجاز سے بھی سوالات ہونے چاہئیں کہ انہوں نے اس اطلاع کے بعد کیا ایسے اقدامات کیے یا اُن کا مشورہ دیا جس سے ان کے لیڈر کا بچاؤ ممکن ہوتا؟

آج جمعہ ہے، شنید ہے کہ جمعہ کے اجتماعات کے ساتھ احتجاجی مظاہرے بھی ملک بھر میں ہوں گے۔ رات گئے پشاور میں کورکمانڈر ہاؤس کے باہر بھی تحریک انصاف کے مظاہرین جمع ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے۔ تحریک انصاف کی سینئر لیڈرشپ نے کہا ہے کہ ہم نے عمران خان کو لگنے والی گولی کا بدلہ لینا ہے۔ باوجود اس کے ابھی تک ماسٹر مائنڈ کا تعین نہیں ہوا لیکن اس کا اعلان ہوچکا ہے اور یہ بدلہ کس سے لیا جائے گا؟ حکومت وقت اور دیگر طاقتور حلقوں سے ہی لینے کی بات ہورہی ہے۔ میں مکرر عرض کردوں کہ یہ طرز عمل بالکل غلط ہے اور یہ ملک میں مزید افراتفری اور انارکی کو ہوا دے گا۔ اس وقت انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت پنجاب کو چاہیے کہ فوری اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائے۔ اس پر تحریک انصاف کی قیادت کو اعتماد میں لے اور تحریک انصاف جیسی کمیٹی چاہتی ہے ویسی بنا کر اُن کو تحقیقات کرنے دے۔ پی ٹی آئی اس کو خود ڈیزائن کرسکتی ہے۔ حملہ پنجاب کی حد میں ہوا ہے، انتظامیہ موجود ہے، انٹیلی جنس موجود ہے، تمام ادارے اور بیوروکریسی موجود ہیں، فرانزک بھی ہے، میڈیکل رپورٹس موجود ہیں، انفرااسٹرکچر اور سسٹم بھی ہے۔ لہٰذا تحریک انصاف اپنے اُس طریقے سے انکوائری کروا کر اصل مجرموں کا تعین کروا سکتی ہے جس پر وہ خود مطمئن ہو۔ اگر پی ٹی آئی ایسا نہیں کرتی تو معاملات صرف خراب سے خراب تر ہوں گے۔

یہ ملک کس طرف جائے گا، اس کا پتا صرف تب چلے گا جب عمران خان کی جانب سے کوئی بیان سامنے آئے گا۔ اس وقت لوگ اس سوال کا جواب بھی تلاش کررہے ہیں کہ اس واقعے کا فائدہ کس کو ہوا اور نقصان کس کو ہوا۔ پاکستان اس وقت کسی ایڈونچر کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا۔ پاکستان میں بدقسمتی سے نالائق سیاسی قیادت نے حالات ایسے بنادیے ہیں کہ ایک معمولی واقعہ بھی آگ بھڑکانے کےلیے بہت ہے جبکہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اس وقت ملک کا مقبول ترین سیاسی رہنما اور سابق وزیراعظم زخمی ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے اور ہماری سیاسی قیادت کو حکمت عطا کرے کہ ہم اس موڑ سے خیریت سے آگے بڑھ جائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔