لاپتہ افراد کیس، مزید فوجی اہلکاروں کے ٹرائل کیلیے 2 ہفتے میں فیصلہ کیا جائے، سپریم کورٹ

نمائندہ ایکسپریس / مانیٹرنگ ڈیسک  جمعرات 27 مارچ 2014
نعشوں کے ڈی این اے میں تاخیر پر جواب طلب،لاپتہ افراد کی بازیابی ضروری ہے، شرپسندوں سے قانون کے مطابق نمٹا جائے، جسٹس مسلم۔ فوٹو: فائل

نعشوں کے ڈی این اے میں تاخیر پر جواب طلب،لاپتہ افراد کی بازیابی ضروری ہے، شرپسندوں سے قانون کے مطابق نمٹا جائے، جسٹس مسلم۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بلوچستان میںلاپتہ افراد کے متعلق میٹنگ میں چیف سیکریٹری کی عدم شرکت کا سخت نوٹس لیا ہے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل بینچ نے ایف سی کے وکیل عرفان قادر،چیف سیکریٹری اور ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کو ہدایت کی کہ وہ میٹنگ کرکے لاپتہ افراد کے معاملے میں ملوث ملٹری اہلکاروں کے ٹرائل کے بارے میں فیصلہ کریں اور2ہفتے میں رپورٹ پیش کریں۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ اجتماعی قبروں سے ملنے والی لاشوں کی ڈی این اے رپورٹ تیار نہیں ہو سکی، کم ازکم4سے5 ہفتے درکار ہوں گے تاہم2لاشیں لواحقین کے حوالے کرد ی گئی ہیں، عدالت نے ریمارکس دئیے کہ اس وقت تک باقی لاشوں کے دفنانے کا مسئلہ بھی ہوگا، ہوم سیکریٹری نے بتایا پنجاب فرانزک لیبارٹری بہترین لیبارٹری مانی جاتی ہے اور اس کا اپنا طریقہ کار ہے۔ عدالت نے رپورٹ میں تاخیر کے اسباب جاننے کیلیے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کوطلب کرلیا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے مزید بتایا کہ2 فوجی افسروں کے کورٹ مارشل کا فیصلہ ہو چکا ہے لیکن باقی لاپتہ افراد کے معاملے میں ملوث فوجی اہلکاروں کے حوالے سے ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق ایف سی کے وکیل عرفان قادر نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں میں2 ایف سی اہلکاروں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں جن کے خلاف کارروائی کیلیے حکومت کو خط لکھ دیا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا چیف سیکریٹری نے میٹنگ میں شرکت کیوں نہیں کی، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا وہ امریکاگئے ہوئے ہیں، واپس آجائیں تو اجلاسبلا لیا جائے گا، جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ لوگ مررہے ہیں اور چیف سیکریٹری غیرملکی دوروں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

عرفان قادر نے بتایا کہ ٹیلیفون پر چیف سیکریٹری سے رابطہ کیا گیا اور انھوں نے آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کی توثیق کی، فاضل جج نے کہا ٹیلے فون پر میٹنگ کی کوئی نئی روایت شروع ہوچکی ہے، ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، عرفان قادر نے جواب میں کہاکہ یہ روایت خود عدالت نے شروع کی جب میمو کیس میں وڈیو لنک کے ذریعے بیانات ریکارڈکرانے کا حکم جاری ہوا، جسٹس مسلم نے کہا عدالتی حکم پر عمل لازمی تھا، کیوں نہ انھیں شوکاز نوٹس جاری کریں، آن لائن کے مطابق انھوں نے کہاکہ آرمی افسران کیخلاف مقدمات صرف فوجی عدالتوں میں ہی چلائے جاسکتے ہیں تاہم فیصلوں کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے، بلوچستان کی بدامنی دورکرنے کیلیے ہر سطح پر اقدامات اٹھاناہوں گے، لاپتہ افراد کی بازیابی انتہائی ضروری ہے تاہم شرپسندوں سے قانون کے مطابق نمٹنا وقت کی اہم ضرورت ہے، مزید سماعت2ہفتے کیلیے ملتوی کردی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔