جڑواں ممالک

راؤ منظر حیات  ہفتہ 5 نومبر 2022
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

ملاوی‘ افریقہ کا پس ماندہ ترین ملک ہے۔ پنتالیس ہزار مربع میل پر قائم ‘ ملک کی موجودہ آبادی تقریباًدو کروڑ ہے۔ دس بارہ برس پہلے یہ آبادی قدرے کم تھی۔ یعنی کوئی ڈیڑھ کروڑ کے نزدیک۔ ہماری طرح برطانوی سامراج کے قبضے میں رہنے والا یہ بدقسمت ملک کسی قسم کی بندرگاہ یا سمندر سے نابلد ہے۔

ملاوی‘ بالکل ایک زرعی ملک ہے۔ مگر کم زرعی پیداوار اس کا خاصہ ہے۔ جب آپ ملاوی کے حالات اور مشکلات دیکھتے ہیں تو بالکل پاکستان نظر آتا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کی رپورٹوں کے حساب سے پورے ملک میں انتظامی اور سیاسی ڈھانچہ ملکی طور پر کرپٹ ہے۔ فوج اور پولیس جس کو چاہے بلا جواز گرفتار کر کے مار سکتی ہے۔ یعنی ریاست کو قتل کرنے کی عملاً اجازت ہے۔

ملک میں غربت‘ بھوک اور افلاس کھل کر رقص کر رہی ہے۔ ستر سے اسی فیصد آبادی‘ غربت کی لکیر سے نیچے جانوروں کی طرح کی زندگی گزار رہی ہے۔ اشرافیہ مکمل طور پر کرپٹ ہے۔ یعنی بڑے لوگ شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اور غریب صرف اور صرف کیڑے مکوڑے کی طرح سانس لینے پر مجبور ہیں۔

عمومی صورت حال کے برعکس صدارتی محل‘ وزراء کے عالیشان گھر‘ اشرافیہ کی بے اعتدالیاں بڑی بے شرمی سے جاری و ساری ہیں۔ آج بھی اور ماضی میں بھی۔ 2012ء میں بنگوموتا ریکا ‘ ملاوی کا صدر تھا۔ حد درجہ بدبودار سیاست دان۔ اپنے سرکاری صدارتی محل کو حد درجہ قیمتی فرنیچر اور سامان سے آراستہ کر رکھا تھا۔ ساتھ ساتھ ‘ ذاتی استعمال کے لیے 58کمروں پر مشتمل ایک فقید المثال فارم ہاؤس بھی بنا رکھا تھا۔

جس میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ بادشاہوں والی زندگی گزار رہا تھا۔ ویسے حقیقت تو ہمارے ہاں بھی اسی طرح کی ہے۔سیاستدانوں کے ہزاروں کنالوں سے آراستہ فارم ہاؤس اور ایکڑوں پر پھیلے اونچی اونچی دیواروں والے محلات انھیں بالکل بنگوموتا ریکا کے درجہ پر بہر حال فائز تو کرتے ہیں۔

بنگو کافی عرصے سے صدر تھا۔ ملاوی کا سب سے امیر اور تقریباً مستقل حکمران تھا۔ سفاکی کا اندازہ لگایئے کہ سفر کے لیے نوملین ڈالر کا سرکاری جیٹ خرید رکھا تھا۔ 2008 کا ذکر کر رہا ہوں۔ آج کے حساب سے یہ جہاز تقریباً پچاس ملین ڈالر کی خریداری کے برابر ہو گا۔ بنگو سے کسی غیر ملکی سربراہ نے پوچھا کہ آپ کا ملک تو حد درجہ غریب ہے۔ آپ فیلکن جیٹ 900 جیسے مہنگے سرکاری جہاز میں کیوں سفر کرتے ہیں۔

جواب حد درجہ سادہ ہوتا تھا۔ سفر کے لیے ہوائی جہازکرائے پر لوں مہنگا پڑتا ہے۔ لہٰذا قومی سرمایہ کو بچانے کے لیے اس جہاز پر سفر کرتا ہوں۔ کیونکہ سادگی پر عمل کرتا ہوں۔ہوائی جہاز کے علاوہ اس نے سرکاری خزانے سے مختلف رنگ اور سائز کی ایک سو مرسیڈیز گاڑیاں بھی خرید رکھی تھیں۔لباس کے رنگ کے حساب سے گاڑی کا انتخاب کرتا تھا۔

بہر حال ملاوی ‘ بنگو کے ہاتھوں عذاب سے گزر رہا تھا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ 2012 میں بنگو کو دل کا دورہ پڑا اور جہان فانی سے کوچ کر گیا۔آئین کے حساب سے نائب صدر‘ صدارت کے عہدے پر فائز ہو گئی۔ اس کا نام جاوسی بانڈہ Joyce bandaتھا۔ ایک انقلابی ذہن رکھنے والی خاتون سیاست دان تھی۔ بنگو کے بعد ملک ڈانوں ڈول تھا۔ جاؤسی نے ملک کی اقتصادی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے حددرجہ اہم فیصلے کیے۔ ملکی وسائل اشرافیہ اس طرح استعمال کرتی تھی کہ غیر ملکی امداد کے بغیر ملاوی کا چلنا ناممکن تھا۔

آئی ایم ایف کے چنگل میں جکڑا ہوا ملاوی مکمل طور پر لاوارث اور ہمارے آج کے پاکستان کی طرح تھا۔ جاوسی نے سادگی کا اعلان کر دیا۔ آغاز‘ اپنی ذات سے کیا۔ پہلا قدم یہ اٹھایا کہ اپنی تنخواہ تیس فیصد کم کر دی۔ اعلان کر دیا کہ کسی ٹھاٹھ باٹھ والے صدارتی محل میں نہیں رہے گی۔ بلکہ عام سے سرکاری گھر میں بسیرا کرے گی۔ یہ اعلانات حیران کن حد تک خوشگوار تھے۔ جاؤسی ‘ عام سے سرکاری گھر میں منتقل ہو گئی ۔

سرکاری خرچ کو کم کرنے کے لیے حد درجہ اہم قدم اٹھانے شروع کر دیے۔ سابقہ صدر کا قیمتی جیٹ طیارہ نیلام کر دیا۔ غیر ملکی دوروں میں اکانومی کلاس میں سفر کرتی تھی۔ طیارہ کی نیلامی سے جتنے پیسے وصول ہوئے ۔ اپنے ملک کے غریب ترین طبقہ کو صاف پانی اور سیوریج پر خرچ کر ڈالے۔

پرانے صدر کے پاس ایک سو مرسیڈیز گاڑیاں تھیں۔ جاؤسی صدارتی گیراج میں گئی۔ گاڑیوں کو انتہائی غور سے دیکھا۔ اعلان کر دیا کہ ملاوی جیسے غریب ملک کے صدر کو قطعاً زیب نہیں دیتا کہ بیش قیمت گاڑیوں میں سفر کرے اور اتنی غیر معقول تعداد میں گاڑیاں جمع کرے۔ سرکاری گاڑیاں نیلامی میں ڈال دیں۔

دنیا سے گاہک آتے اور تمام گاڑیاں بیچ دیں گئیں۔ جتنے پیسے وصول ہوئے۔ تمام کے تمام سرکاری خزانہ میں جمع کر دیے گئے۔ پوری دنیا میں جاؤسی کے اقدامات کو حد درجہ قدر سے دیکھا گیا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے اعلان کر دیا کہ وہ ملاوی کے صدر پر اعتماد کرتے ہیں اور قرض کو کم کرنے میں اس کی ہر طور پر مدد کریں گے۔ برطانوی وزیراعظم نے ملاوی کے صدر کو کہا کہ اس کی ہر طور پر مددکرے گا۔

پورے ملک کو بہتر بنانے کے لیے وسائل مہیا کرے گا۔ جاوسی دو برس یعنی 2012 سے 2014 تک اپنے ملک کی صدر رہیں۔ اس نے ملاوی کی کایا پلٹ دی۔ آجکل ایک ریٹائرڈ زندگی گزار رہی ہے۔ پوری دنیا میں یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتی ہے۔ جاؤسی جیسی خاتون وزیراعظم ملاوی کو دوبارہ کبھی نصیب نہیں ہوئی۔

ملاوی‘ ہمارے ملک سے ہزاروں کلو میٹر دور ہے۔ مگر تکلیف دہ سچ یہ ہے کہ 2022 کا پاکستان‘ 2012کے ملاوی جیسا ہی ہے۔ وہی ظلم کرنے والے ادارے ‘ آزادی اظہار پر لوگوں کو اٹھائے جانے کا خفیہ نظام ‘ وہی کرپشن میں لتھڑی ہوئی اشرافیہ اور جناب وہی شاطر ترین سیاست دان ۔ یہ مماثلت ہماری مسلسل ذلت کی وجہ بھی ہے۔ دنیا میں اسی دوغلے پن کے سرکاری رویے سے پہچانے جاتے ہیں۔

اگر یقین نہیں آتا تو گزشتہ تیس پنتیس برس کے سیاسی اور غیر سیاسی کھلواڑ پر نظر دوڑالیجیے۔ سیاسی خاندان باریاں بدل بدل کر‘ عوام کو کامیابی سے بیوقوف بنا رہے ہیں۔ سندھ میں دہائیوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ مگر کراچی سے لے کر سندھ کے ہر کونے تک سرکاری اور سیاسی عمال صرف اور صرف پیسہ کمانے میں مشغول ہیں۔ کراچی ہر طور پرشکستہ ہو چکا ہے۔

سڑکوں سے بے نیاز‘ ڈاکوؤں سے لبریز اور غلاظت میں غرق شہر بذات خود ایک سیاسی چارج شیٹ ہے۔ ایک حد درجہ نازک بات بھی کرتا چلوں۔ کراچی بلکہ پورے سندھ میں ریاستی ادارے کرپشن میں لاثانی ہیں۔ جس دن پیپلز پارٹی کی سندھ میں اجارہ داری ختم ہوئی ۔ کرپشن کا طلسم ہوش ربا سامنے آ جائے گا۔ ابھی تو وہاں کے لوگ حکومتی جبر کے سامنے بے بس ہیں۔ بلوچستان بھی اس معاملے میں قطعا کسی لحاظ سے پیچھے نہیں ہے۔ پرویز مشرف کے دور سے لے کر اب تک‘ بلوچستان کو جتنے وافر وسائل مہیا کیے گئے ۔

وہاں تو بہترین انفرااسٹرکچر موجود ہونا چاہیے تھا۔ کوئٹہ کو پیرس جیسا بن جانا چاہیے تھا۔ مگر وہاں کے عمال ‘ سرکاری پیسے کو شیرمادرسمجھتے ہیں۔ بلوچستان میں تین سال رہا ہوں۔ وہاں سرکاری فنڈز کی خرد برد کو کرپشن سمجھا ہی نہیں جاتا۔ سرکاری روپوںکو گھر لے جانے کا رویہ ہر طور پر عام ہے۔

اگر آپ کسی بھی وزیراعلیٰ سے پوچھیں کہ جناب ‘ آبادی کے لحاظ سے آپ کو گزشتہ بچیس برس میں کھربوں روپیہ فراہم کیا گیا ہے۔ وہ کہاں خرچ ہوا ہے۔ تو آپ سے خفا ہو جائے گا۔ اپنی محرومی کی بات کرے گا۔ مگر سوال کا جواب کبھی نہیں دے گا۔ کے پی میں بھی یہی حالت ہے اور الحمدللہ پنجاب میں بھی لوٹ مار کااعشاری نظام پھل پھول رہا ہے۔

مرکزی حکومت کو دیکھیے تو عش عش کرنے کو دل چاہتا ہے۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم امریکا سے مدد مانگنے تشریف لے گئے تھے۔ سفر چارٹر ہوائی جہاز میں تھا۔ رہائش نیویارک کے مہنگے ترین پلازہ ہوٹل میں تھی۔ جس میں بیس بائیس ہزار ڈالر یومیہ پر کمرے لیے گئے تھے۔ یہ وہ سرکاری سادگی تھی جس پر امریکی حکومت انگشت بدنداں ہو گئے تھے۔

ابھی چین کے سرکاری دورے کا اختتام ہوا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ دورہ‘ ہر سرکاری دورے کی طرح حد درجہ کامیاب ہوا ہے۔ محترم وزیراعظم سرکاری خرچ پر سفر کی اتنی ادنیٰ مثال قائم کر گئے ہیں جس کی نظیر شاید ملاوی میں بھی نہ ملتی ہوں۔ سرکاری وفد چالیس پچاس لوگوں کا تھا۔ مگر پورا بڑا جیٹ جس میں تین سو سے زیادہ مسافر سفر کرتے ہیں سرکاری خرچہ پر استعمال کیا گیا۔

لگتا تھا کہ امریکا یا روس کا صدر تشریف لا رہا ہے۔ خیر امداد مانگنے کے لیے ‘ اتنے شاہانہ اخراجات کے بعد کیا ملنا تھا۔ چینی کوئی بیوقوف تو نہیں۔ لہٰذا وعدے وعید ہوئے اور پھر ناکام واپسی۔ عرض ہے کہ جب تک ہمارے ملک میں ملاوی کی جاؤسی بانڈہ سطح کی عظیم وزیراعظم نہیں آتی۔ پاکستان‘ ملاوی ہی کی طرح پسماندہ رہے گا۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان اور ملاوی کو جڑواں ممالک قرار دے دینا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔