نقیب

ایم جے گوہر  اتوار 6 نومبر 2022
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

قوموں کی شکست و زوال کے حوالے سے دنیا بھر کے مفکرین، ماہرین اور دانشور مختلف النوع نظریات پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔

یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو وہ خود تنقیدی عمل سے گریز کرنے لگتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم من الحیث القوم اپنی خامیوں، کوتاہیوں، غلطیوں، کمزوریوں، نقائص اور عیوب کو چھپانے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ اس پہ مستزاد یہ کہ اپنی بے وقوفیوں کو عقل مندی سے تعبیر کرکے دوسروں پر رعب ڈالنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ مسلمانان عالم میں عقلیت پسندی کا زوال ہی ہمارے زوال کا سبب ہے۔

مگر یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کوئی بھی زوال دائمی نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس تو قرآن مجید کے واضح احکامات موجود ہیں۔ آپؐ کا اسوۂ حسنہ موجود ہے۔ نصیحت حاصل کرنے اور ماضی سے سبق سیکھنے کے لیے اکابرین کی تحریریں و کارنامے موجود ہیں۔ قومیں صرف اپنی تنقید و اصلاح ہی سے زندہ رہ سکتی ہیں۔

قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے نظریات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ پہلا نظریہ ’’جبریت‘‘ سے متعلق ہے، یعنی یہ کہ انسان بہ حیثیت فرد مجبور محض ہے۔ اسی طرح قومیں بھی مجبور ہیں جس طرح انسان صاحب اختیار نہیں بعینہ قومیں بھی بااختیار نہیں ہیں۔ اس طبقہ فکر کے داناؤں کا کہنا ہے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے وہ آسمانی طاقت کے حکم ہی سے کرتا ہے۔

اسی طرح بحیثیت اجتماعی قومیں بھی جو کچھ کرتی ہیں وہ بھی آسمانی طاقت کے مطابق ہی کرتی ہیں۔ مطلب یہ کہ انسان بھی قسمت کے سامنے بے بس اور مجبور ہے اور قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں بھی نصیب ہی کے زیر اثر ہیں۔ قوموں کے اپنے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔

یہ وہ انداز فکر ہے جو ہزاروں سال پہلے انسان نے اختیار کیا۔ پھر جب انسان کی فکر زیادہ بالغ ہوئی اور اس نے اپنے ارد گرد کے ماحول پر گہری نظر ڈالی تو اسے احساس ہوا کہ انسان کی خوش حالی اور تباہی خود انسان کے اپنے اعمال کا بھی نتیجہ ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ انسان انفرادی اور قومیں اجتماعی طور پر دور اندیشی، محنت، لگن، مسلسل کوشش اور جذبہ صادق سے کام لے کر اپنی حالت کو بدل سکتی ہیں اور بہتر سے بہتر بنا سکتی ہیں۔ جب کہ کوتاہ اندیشی اور لاپرواہی، بدعملی، کاہلی، سستی، کمزوریوں، خامیوں اور غلط فیصلوں اور جذباتی اقدامات سے اپنے آپ کو تباہ و برباد کرلیتی ہیں۔

بعض مفکرین نے قوم کو ایک زندہ جسم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جس طرح جانور اور انسان بچپن اور جوانی اور پھر بڑھاپے اور موت کی منازل سے گزرتا ہے، اسی طرح قوموں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ عروج کی بلندیوں پر پہنچنے کے بعد زوال کی منزل سے گزریں۔ چند ایک مفکرین نے اس فلسفے کی معاشی تشریح کی ہے۔ مثلاً کارل مارکس نے قوموں کی شکست و زوال کے معاشی اسباب بیان کیے ہیں جن کی صحت سے انکار کی گنجائش نہیں۔ جب کہ ایک اور مفکر ٹائن بی کے نزدیک اگر چیلنج کا مقابلہ نہ کیا جائے تو شکست ہو جاتی ہے۔

آپ اس پس منظر میں وطن عزیز کی سات دہائیوں کی سیاسی، عسکری، معاشی، عدالتی اور سماجی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ من الحیث القوم ہم نے کسی شعبہ ہائے زندگی میں ترقی و کامیابی و کامرانی کی کوئی درخشاں اور قابل تقلید مثال قائم نہیں کی بلکہ ہر جانب افراتفری، انتشار، بے چینی، ناانصافی، ہلاکت خیزی، تباہی و بربادی، تنزل، ادبار اور انحطاط کے آثار نمایاں ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد اس ملک کے عوام کی بدقسمتی کہ اسے ان دو عظیم رہنماؤں کے قد کا کوئی ایسا صاحب کردار رہنما نہ مل سکا جو گرداب میں پھنسی اس ملک کی ناؤ کو منزل تک پہنچانے کی مخلصانہ کوشش کرتا۔ نتیجتاً قائد کا ملک سلامت نہ رہ سکا اور قیام کے بیس برسوں بعد ہی دولخت ہوگیا۔ سیاسی قیادت کی نااہلی، کوتاہ اندیشی، بداعمالیوں اور کمزوریوں و خامیوں کے باعث غیر سیاسی قوتوں کو اپنے کارڈ کھیلنے کے مواقع ملتے رہے اور وہ بھی بڑی ترتیب سے وقفے وقفے کے بعد ایوان اقتدار کی راہ داریوں میں اپنے قدم جماتے رہے۔

کبھی پیش منظر میں اور کبھی پس منظر میں ان کا کردار آج بھی اہل نظر دیکھ رہے ہیں۔ شومئی قسمت دیکھیے کہ خود سیاستدان بھی غیر سیاسی قوتوں کے مبینہ کردار کے معترف ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ حد تو یہ کہ ایوان عدل سے بھی ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی اختراع سے غیر مرئی طاقتوں کے عمل دخل کو مسند جواز عطا کی جاتی رہی ہے۔

آئین پاکستان کے تحت سب کا دائرہ متعین ہے۔ ہر ادارے کو آئین و قانون کے متعین دائرے میں رہ کر اپنے فرائض منصبی ادا کرنے چاہئیں لیکن ہر ادارہ دوسرے ادارے پہ سبقت لے جانے کی تگ و دو میں لگا رہا ہے۔ یہ منظر نامہ آج بھی دیکھا جاسکتا ہے، لیکن ملال اس بات کا ہے کہ کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔

دوسروں کی آنکھ کا بال تو سب کو نظر آجاتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر کسی کو نظر نہیں آتا۔ یہی اس نامراد قوم کا المیہ ہے جس نے سیاست، صحافت، عدالت اور پس پردہ قوتوں سب ہی کو بے توقیر کیا۔ ایک دوسرے پر الزامات لگانا، کیچڑ اچھالنا اور تذلیل و توہین کرنا فرض منصبی سمجھا جا رہا ہے کہ جیسے خود دودھ کے دھلے ہوں۔

انھوں نے اپنے دور منصبی میں کبھی کوئی ایسا عمل نہیں کیا کہ جس پر انھیں شرمندگی اور ندامت محسوس ہو۔ ان کی نظر میں صرف دوسرے ہی لائق تعزیر ہیں۔ ایسے نظریات و بودے دلائل کے حامل رہنما جس قوم کے نصیب میں ہوں تو وہ ترقی و کامیابی کی نہیں بلکہ زوال کی سمت گامزن ہوجاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔