’’زندگی اے زندگی‘‘ پر ایک نظر

نسیم انجم  اتوار 6 نومبر 2022
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ممتاز صحافی، ادیب و شاعر ظفر محی الدین کی زنبیل سے برآمد ہونے والا علمی و ادبی، سیاحت و صحافت کی قابل قدر خدمات پر مشتمل خزانہ ’’زندگی اے زندگی‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا ہے، یہ ان کی خودنوشت ہے جو ان پر گزری یا جو انھوں نے مختلف محاذوں پر کام کیے۔

ان تجربات کو من و عن تحریر کی نفاست کے ساتھ بیان کردیا ہے، کتاب میں شامل 26 مضامین ان کی قابلیت اور صلاحیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ان کی جہد مسلسل اور محنت شاقہ اور عزم صمیم نے انھیں کٹھنائیوں سے گزرنے کا حوصلہ دیا، انھی کاوشوں کے نتیجے میں 6 اہم کتابوں کے مصنف کہلائے ۔ ظفر محی الدین صاحب نے ڈبل ایم اے سیاست اور ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘ میں کیا۔

ظفر محی الدین کی تحریروں کو تجربے کی آنچ اور ہلکے پھلکے مزاح کی آمیزش نے دوآتشہ بنا دیا ہے ان کی تحریروں میں امید، رواں دواں نظر آتی ہے یہ وہی امید ہے جس کے سہارے کشتیاں جلا دی جاتی ہیں اور منزل کی جستجو آبلہ پائی کے لیے مجبور کرتی ہے۔ اس اعتبار سے خوش نصیب ہیں کہ انھیں علم و ادب ورثے میں ملا، ان کے والد غوث محی الدین کا تعلق صحافت سے تھا۔ ان کی وراثت ذاتی محنت و لیاقت نے انھیں سونے سے کندن بنا دیا۔ ان کا شمار کامیاب صحافیوں میں ہوتا ہے۔

یہ ان کی خوش بختی ہی تو تھی کہ ان کا پہلا سیاسی کالم ایک اردو روزنامہ کے ادارتی صفحے پر شایع ہوا،اور آج تک یہ سلسلہ برقرار ہے، اس کے علاوہ روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں بھی فکاہیہ کالم لکھے۔ افسانہ نگار ہونے کے ناتے ان کا ایک افسانوں کا مجموعہ ’’سرورق کی لڑکی‘‘ شایع ہو چکا ہے۔ ظفر محی الدین نے اپنے روشن مستقبل کے لیے ملکوں ملکوں اور صحراؤں کی خاک چھانی تب گوہر مقصود ہاتھ آیا۔

ان کے مضمون ’’میں نے بنگالی نہیں دیکھا‘‘ میں انھیں محض اس وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ جرمنی کے شہر ’’ہم برگ‘‘ یونیورسٹی میں داخلہ کنفرم ہوگیا لیکن پاسپورٹ میں مشرق وسطیٰ کے ممالک تو درج تھے لیکن جہاں جانا تھا اسی ملک کا نام نہیں تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ملکوں ملکوں کا سفر کرنا پڑا۔ ان ممالک کے حوالے سے بہت سی معلومات فراہم کی ہیں۔

افغان سرحد کی امیگریشن کی پوسٹ اور اس کی حالت زار دیکھ کر وقت انھیں زمانہ ماضی میں لے جاتا ہے اور وہ موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’کبھی اس دیس میں ہندوستان کی آدھی سے زائد دولت، سونا چاندی اور ہیرے جواہرات جمع تھے اور اب؟ پوری چوکی میں چھ سات اونگھتے سپاہی ادھوری بوسیدہ وردیوں میں ملبوس صرف ایک عدد احتجاج کرتی ہوئی لالٹین میں رسمی کارروائی ہوئی۔‘‘

قندھار پہنچنے کے بعد مصنف نے ایک ڈھنگ کا ہوٹل تلاش کیا، کھانے میں جب چلو کباب اور چلو بریانی کا نام سنا تو انھیں لفظ ’’چلو‘‘ نے حیرت میں مبتلا کردیا۔ لہٰذا انھوں نے دونوں چلوؤں کا آرڈر کردیا۔ اب تو کراچی میں بھی چلو کباب آسانی سے دستیاب ہو جاتے ہیں۔یہاں کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں بھی انھوں نے روشنی ڈالی ہے۔

فلم ’’سہیلی‘‘ اور صدر ایوب خان کا صدارتی ایوارڈ دینا لیکن یہ پہلا اور آخری ہی ایوارڈ تھا چونکہ جب صدر ایوب خان پر اس بات کا انکشاف ہوا کہ یہ بھارتی فلم کا چربہ ہے تو حکومت نے ایوارڈ کا اجرا بند کردیا۔مذکورہ مضمون 15 صفحات کا احاطہ کرتا ہے۔ ان اوراق پر تہران، ترکی کا دارالخلافہ انقرہ اور استنبول، یونان اور پاکستانی سیاست کا ذکر ملتا ہے۔ یونان میں ہی فیکٹری میں ملازمت کی۔ آخرکار مشکل کن مراحل کے بعد اٹلی کی بندرگاہ جنیوا میں شپ پر ملازمت مل گئی۔ یہ پہلا اتفاق تھا جب مصنف نے شپ کو اندر سے پہلی بار دیکھا تھا۔

پھر تو جیسے چاندی ہوگئی لیکن اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب جان کے لالے پڑ گئے۔ جہاز نے ہوا کے دباؤ سے رخ بدلا اور مصنف جہاز کے وہیل کو قابو نہ رکھ سکے، نتیجے میں جہاز نے اچانک گول دائرے میں چکر لگایا، عرشے پر کرسیوں پر براجمان لوگ لڑکھڑا کر ڈیک پر گر گئے لیکن اللہ کی مہربانی سے یہ بڑی مصیبت ٹل گئی۔ دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات نے مصنف کی تحریر کو قابل مطالعہ اور قابل ذکر بنا دیا ہے۔

ظفر محی الدین نے اپنی دیانت داری کی یہ وجہ بتائی ہے کہ وہ نجیب الطرفین ہیں، اپنے مضمون ’’صحرا نوردی جدوجہد کا نیا دور‘‘ میں شرافت اور ایمان داری کا ذکر کیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ گھر بنا سکے اور نہ گاڑی اور بائیک خرید سکے۔ بے شک جسے ایمان کی دولت اور صبر و شکر حاصل ہو جائے اسے سب کچھ مل جاتا ہے۔اپنی محنت کی بدولت سلطنت آف عمان میں ’’پے ماسٹر‘‘ مقرر ہوئے۔ انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے دلچسپ واقعات قارئین کو سنائے ہیں۔

ظفر محی الدین نے اپنے علم و ادب کے شوق کو مد نظر رکھتے ہوئے مسقط میں ایک لائبریری بھی قائم کی۔ ان کی اس خدمت کے عوض انھیں چاندی کے میڈل سے نوازا گیا۔ مضمون پڑھتے ہوئے پطرس بخاری کا مضمون ’’میبل اور میں‘‘ یاد آجاتا ہے کہ یہاں بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ لوگ کتابیں بنا پڑھے ہوئے واپس کردیتے ہیں۔ کتاب کے صفحات بدستور جڑے ہوئے ملتے۔

’’سات سمندروں کا سفر‘‘ اپنی اس تحریر میں مصنف نے صفحہ نمبر 54 کے آخری پیراگراف میں بحر اوقیانوس اور بحر ہند کے ملاپ کا ذکر کیا ہے۔ دونوں پانیوں کے درمیان گہری لکیر نظر آتی ہے۔ بحر اوقیانوس کا پانی گہرا نیلا اور بحر ہند کا سبز نظر آتا ہے، اسے لوگ عجوبہ سمجھتے ہیں، جب کہ راقم الحروف کی رائے میں یہ معجزہ ہی ہے ، قرآن پاک کی سورہ رحمن کی آیات 20-19 کا ترجمہ ہے ’’اسی نے دو سمندروں کو اس طرح چلایا کہ وہ دونوں آپس میں مل جاتے ہیں پھر بھی ان کے درمیان ایک آڑ ہوتی ہے کہ وہ دونوں اپنی حد سے بڑھتے نہیں۔‘‘

کوئی بھی تحریر ہو اس میں مصنف کا کہیں نہ کہیں عکس ضرور نظر آتا ہے۔ ظفر محی الدین اپنے دوست احباب کو یاد رکھتے ہیں بلکہ ’’دامے درمے سخنے‘‘ ضرورت مندوں کی مدد بھی کرتے ہیں۔ اپنی انھی نیکیوں کی بدولت انھیں بار بار موت سے بچایا اور عزت و توقیر سے نوازا۔میں خلوص دل کے ساتھ انھیں معلوماتی کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔

(یہ مضمون کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھا گیا۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔