سیاسی عصبیت، تعصب کی بدترین مثال

ضیا الرحمٰن ضیا  پير 7 نومبر 2022
ملک کی خاطر تعصب کو پس پشت ڈال کر ہم سب ایک قوم بن جائیں۔ (فوٹو: فائل)

ملک کی خاطر تعصب کو پس پشت ڈال کر ہم سب ایک قوم بن جائیں۔ (فوٹو: فائل)

حق کو سمجھتے اور جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس کی مخالفت کرنا اور اپنے نظریات کے ساتھ چمٹے رہنا یا اپنے سیاسی قائدین، مذہبی رہنماؤں یا اپنی قوم اور قبیلے کی حمایت کرتے رہنا تعصب کہلاتا ہے۔ تعصب ایک بہت بری بیماری ہے۔ یہ جس قوم کے ساتھ لگ جائے اسے تباہ تو کرتی ہی ہے لیکن ساتھ ہی دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ یہ ایسا ناسور ہے جس کے مضر اثرات بہت دور تک محسوس کیے جاتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات میں عصبیت ایک اہم موضوع ہے جس سے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے قوموں اور قبیلوں کے تعصب کو مٹانے کےلیے فرمایا، ترجمہ: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور ہم نے تمہاری قومیں اور قبیلے بنا دیے تاکہ تم پہچان کرسکو، بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو متقی ہے‘‘ (الحجرات)۔

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا کہ ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے، وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت کےلیے لڑائی کرے اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مرے‘‘ (ابن ماجہ)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنی قوم کی ناحق حمایت کرتا ہے وہ ایسا ہے کہ جیسا اونٹ کنویں میں گر رہا ہو اور اسے دم سے پکڑ کر نکالنے کی کوشش کی جائے۔

تعصب کی وجہ سے بہت سی قومیں تباہ ہوئیں اور ان کے مضر اثرات آج تک دکھائی دیتے ہیں۔ تعصب قومی ہو، لسانی ہو، صوبائی ہو یا سیاسی، کسی بھی طرح کا تعصب قوموں کےلیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ امت مسلمہ کی عظیم الشان سلطنت، سلطنت عثمانیہ جو امت مسلمہ کی وحدت کی علامت تھی اسے بھی اسی عصبیت نے تباہ کردیا۔ عرب مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ ڈالا گیا کہ تم عرب ہو تم پر عجمی کیوں حکومت کررہے ہیں؟ اس بات پر انہوں نے سلطنت عثمانیہ سے علیحدگی کی تحریک چلائی اور امت مسلمہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ ’’کسی عجمی کو کسی عربی پر یا کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے‘‘ لیکن عربوں نے اس کو پس پشت ڈال کر قومی عصبیت کی وجہ سے ترکوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔

بنگلہ دیش ہم سے کیوں علیحدہ ہوا؟ یہی صوبائی اور لسانی تعصب تھا جس نے انہیں علیحدگی پر آمادہ کیا۔ وہ بنگالی زبان کو پاکستان کی قومی زبان بنانا چاہتے تھے حالانکہ بنگالی زبان صرف ایک صوبے کی زبان تھی پورے ملک کی زبان نہیں تھی جبکہ اردو تمام صوبوں میں سمجھی اور بولی جاتی تھی لیکن وہ اس حقیقت کو سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے پر مصر تھے۔ ان کی یہ بات بھی مان لی گئی تو انہوں نے صوبائی عصبیت کے اور بہانے تراش لیے، جس کی وجہ سے امت مسلمہ جو پہلے ہی تقسیم در تقسیم کا شکار تھی اس میں ایک تقسیم اور ہوگئی۔

لسانی اور صوبائی تعصب آج بھی ہمارے درمیان ایک بہت بری شکل میں موجود ہے، کبھی پٹھان پختونستان کا نعرہ لگاتے ہیں، کبھی سندھی سندھودیش کا نعرہ لگاتے ہیں، کبھی بلوچ عظیم بلوچستان کا نعرہ لگاتے ہیں۔ وہ صرف اور صرف صوبائی یا لسانی تعصب کا شکار ہیں اس کے علاوہ ان کے نعروں کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگرچہ یہ علاقے بہت سی بنیادی سہولیات سے محروم رہے یہ ہمیں تسلیم ہے لیکن اس کا حل علیحدگی نہیں ہے۔ بنگلہ دیش نے علیحدگی اختیار کرکے کتنی ترقی کی؟ آج وہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کےلیے مارے مارے پھر رہے ہیں اور آئی ایم ایف قرض دینے کےلیے ان پر سخت شرائط عائد کر رہا ہے۔ چند روز قبل ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے بھی ان شرائط پر تشویش کا اظہار کیا جو آئی ایم ایف بنگلہ دیش کو قرض دینے کے لیے عائد کررہا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ سب مل جل کر تعصب کو پس پشت ڈال کر ایک قوم بن جائیں اور اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔

لسانی اور صوبائی تعصب ملک و قوم کےلیے خطرناک تو ہوتا ہی ہے لیکن سب سے زیادہ خطرناک سیاسی تعصب ہے اور یہ تعصب کی ایک بدترین مثال ہے کہ عوام کسی سیاسی لیڈر کی وجہ سے تعصب کا شکار ہوجائیں یا کوئی سیاسی لیڈر ایسے تعصب کا شکار ہوکہ وہ کسی دوسرے کو اپنے جیسا سمجھے ہی نہیں۔ اور اس کے چاہنے والے بھی ایسے ہوں کہ وہ اپنے سیاسی لیڈر کے علاوہ کسی اور کی بات پر کان دھرنے کو تیار نہ ہوں، کسی اور کی بات تک سننے پر آمادہ نہ ہوں اور اپنے لیڈر کی تمام غلطیوں کو بھی قبول کرتے چلے جائیں اور ان کا دفاع کرنے کی کوشش کریں جبکہ اس کے حریفوں کی درست باتوں اور درست کارناموں کو بھی غلط ثابت کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کردیں۔ یہ ملک و قوم کےلیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ یہی تعصب آہستہ آہستہ خانہ جنگی کی طرف جاتا ہے اور پھر ریاستیں تباہ ہوجاتی ہیں۔

جس ملک میں سیاسی قائدین ایک دوسرے کے خلاف اس قسم کا تعصب رکھتے ہیں اور عوام کے اندر خطرناک زہر بھر دیتے ہیں تو پھر ریاست کا درست سمت پر چلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اور پوری دنیا میں اس کا کوئی مقام نہیں رہتا، ہر طرف اس کا مذاق بن جاتا ہے۔ عالمی نیوز چینلز کو اگر دیکھا جائے تو وہاں پر پاکستان کے حوالے سے کیسی خبریں چلائی جاتی ہیں جنہیں پڑھ اور سن کر ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔ اور ہمیں انہیں کچھ کہہ بھی نہیں سکتے کیونکہ وہ سب حقیقت لکھ رہے ہیں اور ہمارے معاشرے میں واقعی ایسا ہورہا ہے۔

آپ مختلف ممالک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے جہاں خانہ جنگی ہوئیں، وہاں ابتدا ایسے ہی حالات سے ہوتی ہے کہ سیاسی قائدین ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا بیج بونے میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ پھر لوگ ان کے خلاف اسلحہ اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے اور نتیجتاً پورا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ پھر یا تو وہ ریاست تباہ ہوجاتی ہے یا اس میں مارشل لاء لگ جاتا ہے اور اس صورت میں بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عوام کو چاہیے کہ اپنے ملک و ملت کی خاطر کسی بھی سیاسی رہنما کے پیچھے اس قدر دیوانہ نہ ہوا جائے کہ وہ کچھ بھی کہے اس کی بات مانتے رہیں۔ کم از کم اتنا تو دیکھ لیجئے کہ کیا وہ اس قابل بھی ہے کہ اس کی بات مانی جائے۔ کسی رہنما کے اہل ہونے کےلیے اتنا کافی نہیں کہ وہ دو آیات پڑھ دے یا اسلام کا نام استعمال کرے۔ ہم نے اس سے قبل بھی بہت سے ایسے رہنما دیکھے یا ایسے لوگ دیکھے جو بڑے بزرگ نظر آتے تھے لیکن اندر سے وہ کچھ اور نکلے۔ یہاں سلطان نورالدین زنگی ؒ کے دور کا واقعہ یاد آتا ہے کہ جب دو افراد مدینہ کے اندر نہایت عبادت گزار تھے پورا مدینہ ان کا عقیدت مند تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غیر مسلم تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تک سرنگ بنا کر جسد اطہر تک رسائی چاہتے تھے۔ اس قسم کے بہروپیے آتے رہتے ہیں جو بظاہر اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں، وہ تسبیح بھی پھیرتے ہیں، وہ بہت کچھ کرتے ہیں لیکن بعد میں وہ کچھ اور نکلتے ہیں۔ اس لیے عوام کو آنکھیں کھول لینی چاہئیں اور کسی کے کہنے میں نہیں آنا چاہیے بلکہ اپنے اندر خود شعور پیدا کرنا چاہیے اور اپنے سیاسی مخالفین کو ذاتی دشمن نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ تعصب کو پس ہشت ڈال کر ان کے ساتھ مل بیٹھ کر ملک کے بڑے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔